قاطع رحم کی سزا
ہارون رشید کے چودہ بیٹے تھے،اس نے اپنا ولی عہد نامزد کرنے کے لیے اپنے تین بیٹوں کا انتخاب کیا اور اپنے تمام عمّال کو مکہ طلب کر کے ان تینوں بیٹوں امین،مامون اور مؤتمن کو بالترتیب اپنا ولی عہد نامزد کردیا ۔
امین کی ماں زبیدہ تھی اور اس کا اتالیق جعفر بن محمد بن اشعث تھا جو امام موسیٰ کاظمؑ کا عقیدت مند تھا۔
مامون کا اتالیق یحییٰ بن خالد برمکی تھا،اس نے سوچا کہ ہارون کے بعد خلافت امین کو منتقل ہوجائے گی اور اس کے اتالیق کی قدرومنزلت بڑھ جائے گی اسی لیے اس کی ہر ممکن کوشش تھی کہ امین کے اتالیق جعفر بن محمد کو کسی طرح ہارون کی نظروں سے گرایا جائے۔
یحییٰ برمکی جانتا تھا کہ جعفر بن محمد شیعہ ہے،اس نے جعفر بن محمد کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کئے اور اسے بتایا کہ میں بھی امام موسیٰ کاظمؑ کا عقیدت مند ہوںاور اس طرح اس نے جعفر کے بہت سے رازوں سے آگاہی حاصل کرلی۔
اس نے ہارون کے سامنے جعفر بن محمد پر کئی مرتبہ تنقید کی لیکن ہارون نے کوئی توجہ نہ دی،آخر کار ایک مرتبہ یحییٰ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ امام موسیٰ کاظمؑ کےرشتے داروں میں سے کسی ایسے شخص کو تلاش کیا جائے جو امام کی مخالفت کرے اور ہارون کے سامنے ان کی شکایت کرے۔
جعفر کے دوستوں نے کہا کہ یہ کام امام موسیٰ کاظمؑکا بھتیجا محمد بن اسماعیل ہی کرسکتا ہے۔
یحییٰ بن خالد برمکی نے محمد بن اسماعیل کو خط لکھ کر بغداد طلب کیا۔
امام موسیٰ کاظمؑ اپنے بھتیجے پر ہمیشہ شفقت فرمایا کرتے تھے اور جب امام عالی مقام نے سنا کہ وہ بغداد جا رہا ہے تو آپؑ نے اسے بلا کر فرمایا:میں نے سنا ہے تم بغداد جارہے ہو؟
اس نے کہا :جی ہاں۔
آپؑ نے فرمایا:تم بغداد کیوں جانا چاہتے ہو؟
اس نے کہا کہ میں اس وقت مقروض اور بہت تنگدست ہوں،ممکن ہے بغداد میں بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔
آپؑ نے فرمایا:میں تمہارا قرض ادا کردیتا ہوں مگر وہ رکنے پر تیار نہ ہوا،اس کے باوجود آپؑ نے اسے تین ہزار دینار اور چار ہزار درہم عطا فرمائے۔
جب وہ آپؑ کے بیت الشرف سے نکلے لگا تو آپؑ نے فرمایا:خبردار!میرے بچوں کو یتیم بنانے کی کوشش نہ کرنا اور میرے خون سے ہاتھ نہ رنگنا۔
جب وہ آپؑ کے پاس سے اٹھ کر چلا گیا تو آپؑ نے فرمایا:میں جانتا ہوں،یہ بغداد جا کر میرے خلاف ظالم کو بھڑکائے گا اور میرے لیے مصائب کا سامان فراہم کرے گا۔
آپؑ کے اصحاب نے کہا:فرزند رسولؐ!تو پھر آپ ؑ نے ایسے شخص کی مدد کیوں کی؟
آپؑ نے فرمایا:میرے آبائے طاہرینؑ نے رسالت مآبﷺ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:جب ایک رشتے دار دوسرے سے قطع رحمی کرے اور دوسرا اس سے نیکی کرے تو ستم گار تباہ ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی کا چراغ بجھ جاتا ہے۔
جب محمد بن اسماعیل مدینہ سے بغداد پہنچا تو یحییٰ بن خالد برمکی نے اس کا پرتپاک استقبال کیا،دوران گفتگو محمد بن اسماعیل نے امام موسیٰ کاظمؑ کی شکایتیں کیں۔
یحییٰ برمکی اسے ہارون رشید کے پاس لے گیا،دربار میں داخل ہوتے ہی محمد بن اسماعیل نے ہارون سے کہا:مجھے تعجب ہے کہ ایک وقت میں دو خلیفہ کیسے موجود ہیں، مدینہ میں امام موسیٰ کاظمؑ خلیفہ ہیں،مشرق و مغرب سے ان کے پاس خراج آرہا ہے اور ادھر بغداد میں آپ خلیفہ ہیں۔
ہارون رشید نے بیس ہزار درہم کی رسید لکھ کر اسے دی،محمد بن اسماعیل نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ اس رقم کا خط مشرقی علاقے کے کسی حکمران کے نام لکھ کر دیا جائے تاکہ مجھے وہاں سے یہ رقم لے جانی آسان رہے۔
ابھی اسے انعام کی رقم نہیں ملی تھی کہ وہ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء گیا،بیت الخلاء سے اس کی زور دار چیخیں سنائی دیں،لوگ اسے وہاں سے اٹھا کر لائے تو اس کی انتڑیاں اور ہاضمے کا نظام باہر آچکا تھا۔
طبیبوں نے اس کی جان بچانے کی سرتوڑ کوششیں کیں،وہ بستر پر تڑپ رہا تھا کہ حکومتی اہلکار اس کے انعام کی تھیلی لے کر آئے اور کہا کہ تمہارا انعام حاضر ہے، اس نے کہا: اب میں اس انعام کو لے کرکیا کروں گا میں تو چند لمحوں کا مہمان ہوں،یہ کہہ کر وہ مرگیا۔
اسی سال ہارون رشید حج کے لیے مکہ آیا اور وہاں سے مدینہ آکر رسول مقبولﷺ کی قبر اطہر پر کھڑے ہو کر کہنے لگا:یارسول اللہؐ!مجھے معاف فرمائیے،میں آپ ؐکے بیٹے موسیٰ کاظمؑ کو گرفتار کر رہا ہوں کیونکہ اس کی وجہ سے میرا آرام و سکون غارت ہوچکا ہے،اس کے بعد اس کے حکم سے امام موسیٰ کاظمؑ کو گرفتار کر لیاگیااور ہارون نے زندان میں ہی امام ؑ نے شہادت پائی۔
(حوالہ)
(بحارالانوارج۱۱،ص۲۰۳)