Raaz -e -Khilqatکتب اسلامی

خلقت اور حدیث ’’لو لا ک ‘‘

سوال۷:حدیث میں آیا ہے لولا ک لما خلقت الافلا ک …ولولا فاطمہ لما خلقتکما سوال یہ ہے کہ خلقت کا ئنا ت کا ہدف رسول اللہ ؐ ہیں اس سے کیا مرا دہے؟ دورسرایہ کہ کیا فا طمہ سلام اللہ علیہاا مقام پیا مبرؐسے بلندترہے؟
یہ روایت لو لا ک لما خلقت الافلاک ’’اگر تونہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا ‘‘
بحار الانوار میں مذکور ہے۔(۱)
اس بارے میں درج ذیل تین معا نی میں سے ایک لائق تو جہ ہے:
۱۔ خلقتِ کا ئنا ت کا ہد ف وہ چیز ہے جو وجو د مبا ر ک پیا مبر گرا می ؐ کے بغیر متحقق نہیں ہو پائی،قرآن کی نظر سے تما م کا ئنا ت کو انسان کے لئے خلق کیا گیا ہے
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی ا لاَرْضِ جَمِیْعًا(۲)
جوکچھ زمین میں ہے اللہ نے اس سب کو تمہار ے لئے پیدا کیا ہے
اورانسان کو بھی بند گی کے لئے خلق کیا گیا ہے جو کہ کما ل اورسعادتِ جاودان کا واحد راستہ ہے
وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (۳)
’’ہم نے جن و انس کو صر ف اپنی عبا د ت کے لئے پیدا کیا ہے ‘‘بسم اللہ کی حقیقت عبادت اور راہِ کما ل کی تلا ش، انبیا ء کی ہد ایت کے بغیر انسانوں کے درمیا ن محقق نہیں ہوسکتی،
چونکہ نبی اکرمؐ اللہ کے دین ِ کا مل کولانے والے پیغمبرہیں لہٰذا بندگانِ خد ا کے درمیا ن ان کے وجودکے محقق ہوئے بغیرآفرینش کا ہدف مکمل طور پر محقق نہیں ہوسکتا۔
۲۔ پیغمبر مکر م اسلام ؐ خلقت کا ئنا ت کے مکمل ہد ف کو اپنے اندر ا س طرح متجلی اور متحقق کر سکتے ہیں کہ ان کی خلقت کے بغیرکائنات کا مقصدپورانہ ہو،اگرچہ دوسرے انسانوں میں سے ہر ایک اپنے مر تبہ کما ل کے مطا بق اس ہد ف کو نسبی طور پر محقق کرتا ہے۔
باالفاظ دیگر خلقت انسان کا ہد ف ممکنہ کما ل کی آخر ی حد تک اس کی رسا ئی ہے اوریہ ہدف اپنے استحقاقی اور اعلیٰ ترین مرتبہ میں اللہ کے خاص اولیا ء اور انسانِ کامل میں متحقق ہوتا ہے اور انسا ن کا مل اور تما م اولیا ء الٰہی سے اکمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذا ت گرامی ہے۔
۳۔ ہم نے عرض کیاہے پیا مبر ؐکی ہستی ہی وہ ذات ہے جوخلقت کائنات کے مکمل ہد ف کو اپنے اندر محقق کر سکتی ہے ۔ لیکن اس دنیا میں پیامبر اکر م ؐ کے حوالے سے ایسے کمال
کے تحقق کیلئے ضروری ہے کہ تما م کائنات خلق ہواوریہ تما م انسان چاہے مومن ہوں یاکا فرخلق کئے جا ئیں تاکہ پیغمبر ِاکرم ؐ کیلئے رشد و تکا مل کا میدا ن فراہم ہو سکے اورآپ ؐاپنی صلا حیتوں اور قابلیتوں کو مختلف ماحول اورصورت ِحا ل میں فعلیت کی منز ل تک پہنچا سکیں۔
دوسرے انسان بھی اپنے مرتبہ کمال کے مطابق خلقت کا ہد ف اور غرض ہیں یعنی ان کا کمال جس قدر زیا دہ ہو گا وہ بھی اسی قدر غرض خلقت کے نزدیک تر ہو ں گے اور جس قدر ان کا کمال کم ہو گا اتنا ہی غرض خلقت سے دور تر ہوں گے۔
مذکورہ تینوں معانی باہم قابل جمع ہیں، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تما م انسان اپنے کمال کی انتہا تک پہنچیں اور یہ کمال کا سفردین ِالٰہی کی اطا عت پر موقوف ہے اور کامل وخا تم دین رسول اللہ ؐ لے کر تشریف لائے، دوسری طرف ہر انسان جس قدر کمال حا صل کرتا ہے اسی قدر اپنی خلقت کی غرض کواپنے اندریقینی بناتا ہے اوراس کی اختیاری کوتاہیاں اصل ہدف غرض و مقصد نہیں بلکہ ہد ف حقیقی مخلو قا ت کا کما ل تک پہنچنا ہے اورپیا مبرِ اکرم ؐ اس کا م کی تجلی اوراس کے علمداروقا ئد ہیں۔

مقا م فا طمہ سلام اللہ علیہا
اس رو ایت کے ذیل میں عبارت:
لولا علی لما خلقتک …ولولا فاطمہ لما خلقتکما(۴)
اگر علی ؑ نہ ہوتے توآپ کو نہ بناتا اور اگر فا طمہ ؑ نہ ہوتی تو آپ دونوں کو نہ بناتا۔
اس طرح اگلا حصہ یوں ہے:
فلو لا کم ما خلقت الانبیا ء والآخرۃ ولا الجنۃ والنار(۵)
پس اگرآپ لوگ نہ ہو تے تو دنیا و آخر ت اور جنت و جہنم کو پیدا نہ کر تا
اور اسی طرح رو ایت میں آیا ہے کہ

ولو لا کما لما خلقت الا فلاک (۶)
اور اگر آپ دونوں نہ ہو تے تو افلاک کو پیدا نہ کرتا
اس با ت سے قطع نظر کہ رو ایت ولو لا فا طمہ لما خلقک کی حیثیت کیا ہے اور اصول حدیث میں اس کامقام کیاہے اورکیامعانی وتوجیحات پیش کی جا سکتی ہیں، آئمہ طاہرینؑ حافظ دین ہیں اگر وفا ت پیا مبر ؐ کے بعد امامت نہ ہوتی تو پیغمبر ؐ کادین انحراف کا شکا ر ہوجاتا، بالفا ظ دیگر اللہ تعالیٰ دین خاتم کی حفا ظت امامت کے ذریعے کرتا ہے اور امیر المومنینؑ کے علا وہ تمام آئمہ طاہرینؑ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد ہیں اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ امام زمانہؑ فرماتے ہیں کہ دختر ِپیا مبر ؐ میرے لئے نمونہ عمل ہیں۔(۷)
بنابرایں کہا جا سکتا ہے کہ اگر فا طمہ سلام اللہ علیہا نہ ہو تی تو آئمہ طاہرینؑ بھی نہ ہوتے جو علت ِ بقائے دین ہیں اورا مام زمانہ ؑبھی پیدا نہ ہو تے جب کہ حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور کے ذریعے انسان اور کائنات کی خلقت کا آخری مقصد پورا ہو گا۔

(حوالہ جات)
(۱) بحا ر الانو ا ر جلد ۱۵ص۲۸،ج۱۷،ص۲۰۶،ج۵۷
(۲) سورہ بقرہ آیت ۲۹
(۳) سورہ ذاریات ۵۶
(۴) مستدرک سفینۃ البحار شیخ علی النمازی ج ۳ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹
(۵)۔ ایضاً،ص۱۶۹
(۶)بحا ر الانو ار ج ۷۴، ص ۱۱۶
(۷)ایضاً ج۵۳،ص ۱۷۹،۱۸۰۱

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button