جہنم کی خلقت
سوال۱۲:خلقت جہنم کا راز کیا ہے ؟ وہ خد ا جو ماں سے زیادہ مہربان ہے کیسے اپنے بندے کو جہنم میں جلا سکتا ہے؟
اللہ کے حکیما نہ نظا م کے اندرجس طرح کل کا ئنا ت کے نظام میں جنت کاوجود ضروری اورمفید ہے اسی طرح دوزخ کا وجودبھی لازم اورمفید ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کودی گئی نعمتوں کوشمارکر تاہے توجہنم اور اس کے عذاب کو بھی نعمتوں میں شما رکرتاہے اورکہتا ہے:
ہَذِہِ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُونَoیَطُوفُونَ بَیْْنَہَا وَبَیْْنَ حَمِیْمٍ آنٍ oفَبِأَیِّ آلَاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان (۱)
یہی وہ جہنم ہے جس کامجرمین انکا ر کرر ہے تھے اب اس کے کھولتے ہوئے پا نی کے درمیان چکر لگا تے پھریں گے پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے جہنم کے فوا ئد میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو بر ائی وانحرا ف اور کج روی سے باز رکھتی ہے کتنے ہی لو گ جہنم کے خو ف کی وجہ سے سعادت و شرا فت جاوداںحاصل کرچکے ہیں اگر خدائے حکیم نے جہنم کو نعمتوں میں شما ر کیا ہے توحقیقتاً عظیم نعمت کی یاددہانی کرائی ہے کیونکہ اس کے بغیربہت سے انسان بند گی اور نعمتوں کی راہ میں حرکت کے اہل نہیں ہیں۔
جہنم کا راز
متکلمین، فلاسفہ اور عرفاء الٰہی نے مختلف پہلوؤں سے جہنم کے وجود کے راز سے پردہ اٹھایااوراس پراستدلال کیاہے، بعض حضرات نے تو اس پرگیارہ دلائل پیش کیے ہیں۔ اختصار کی وجہ سے ہم صرف ایک دلیل کا تذکرہ کریں گے۔(۲)
جہنم انسان کے کردار کامجسم عینی ہے،اخروی جزائیں دنیاوی جزاؤںکی طرح اختیاری اوراعتباری نہیں بلکہ تکوینی اور قہری حقیقت ہو ئی ہیں جو خو د انسان کی طرف سے اس کے دامن گیرہو تی ہیں اوروہ خودہی ان کے شعلے بھڑکاتاہے، اعتبا ری جزا ئیں لاگوبھی کی جاسکتی ہیں اور اٹھا ئی بھی جا سکتی ہیں لیکن تکوینی جزائیں خو دعمل کا باطن ہوتی ہیں، لہٰذا عمل اورجزایا سزادونوں ایک ہی سکہ کے دو رخ ہو تے ہیں،جب عمل اورسزاکے درمیا ن را بطے کی یہ صورت موجودہو توایسے رابطہ میں برے عمل کا وجودسزا کے وجودکے مسا وی ہے اوران دونوں کے درمیان کو ئی فا صلہ نہیں، اسی وجہ سے قرآن کہتا ہے :
وَمَن جَاء بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوہُہُمْ فِیْ النَّارِ ہَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ(۳)
اورجولو گ برائی کریں گے انہیں منہ کے بل جہنم میں دھکیل دیا جائے گا کیاتمہیں تمہارے اعما ل کے علا وہ بھی کوئی معا وضہ دیا جاسکتا ہے؟
اور دوسری آیت میں آیا ہے:
یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُون(۴)
اے کفراختیارکرنے والو!آج کوئی عذ پیش نہ کر وکہ آج تمہیں تمہارے اعمال کی سز ادی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے خود انسان کے اعما ل کے علا وہ کسی بھی قسم کے جلنے کا ایند ھن مہیا نہیں فرمایابلکہ ظالم کا اپنا وجو د ہی جہنم کا ایندھن ہے۔
وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَہَنَّمَ حَطَباً(۵)
اور نافرما ن تو جہنم کاایندھن بن گئے
یہ فاجر اور ظالم انسان ہی جو جہنم کی آگ جلا تااور اس کے تنو ر کو گر م کر تا ہےبنا براین ایسی آگ کے با رے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔
فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ(۶)
تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَارا(۷)
وہ لو گ جو ظلم کر تے ہو ئے یتیمو ں کا ما ل کھا تے ہیں وہ اپنے شکموں میں آگ بھرتے ہیں۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختاربناکرپیداکیا ہے جو اپنے اچھے عمل سے بہشت جاوداںخلق کرے اورہمیشہ ہمیشہ کی زندگی بسرکرے یاکھولتا ہوا جہنم بنائے اور اپنے اعمال کے جہنم میں خود جلتا رہے ۔
بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انسان اپنے برے کردار کی وجہ سے خو د کو ایک جہنمی وجودبنا دیتا ہے اور خو د اپنا جہنم بن جا تا ہے، اس وجہ سے ایسے انسان جو اپنی انسانیت سے محروم ہواورشیطان میں تبدیل ہوچکاہواس کے اور عذاب کے مابین جدائی محال ہے۔
البتہ توجہ رہے کہ جہنم صرف ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے خوشخبری او ر سعادت کے تمام راستے جیسے توبہ، شفا عت اوراللہ کی وسیع مغفرت کے دروازے اپنے لئے بندکر دئیے ہوں اور کو ئی عامل ان کے اور ان کے بر ے اعما ل کے درمیان فا صلہ نہ ڈال سکے۔
جو شخص اس مرحلہ تک پہنچ جائے وہ اپنی ہی آگ کو بھڑکاتاہے بلکہ وہ خو داپنے ہاتھوں اپنے وجودکی آگ بن جا تا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اور آگ کے درمیان فاصلہ محال ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص اور اس کے اپنے درمیان جدا ئی ڈال دی جا ئے، البتہ ماں اور اللہ کی مہربا نی اور محبت کے موازنہ کے بارے کہنا چاہیے کہ ماں کی مہربانی اور محبت بھی اللہ کی محبت اور مہربانی کا جلوہ ہے، جوما ؤں کی طبیعت میں ودیعت کیا گیاہے ،یقینی طور پر وہ محبت جو اللہ اپنے بندوں کے بارے میں رکھتا ہے جو مہلت وہ اپنے بندوں کودیتا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت ومہربا نی ہمیشہ حکمت وعد الت کے ہمراہ ہے اسی وجہ سے اگرغلطی اس قدرہو کہ تنبیہ یا اخر اج کی ضرورت ہو تو لا زم ہے کہ ایسا کیا جا ئے اور اگرغلطی بہت ہی بڑی ہو(جیسے نشہ کرنا یاکسی کوبے گناہ قتل کرنا)توایسے مو اقع پرماں،باپ بھی اپنے بیٹے کو سزا کے لئے عدا لت میں لے جا تے ہیں۔
(حوالہ جات)
(۱) سورہ رحمن، آیت۴۳
(۲) تفصیل کے لئے : جہنم چرا، محمد حسین قدردان ملکی قم بو ستا ن کتا ب
(۳) سورنمل، آیت۹۰
(۴)سورہ تحریم آیت ۷
(۵) سورہ جن، آیت۱۵
(۶)سورہ بقرہ،آیت۲۴
(۷) سورہ نساء ۱۰