مقصد ِزندگی
سوال۳:زندگی کے مقصد سے کیامرا د ہے اور انسانی مکا تب فکر کی اس با رے میں کیا رائے ہے؟
ہدفِ زندگی اس نکتہ کو واضح کرتا ہے کہ انسان کو کس طرف حرکت کرنی چاہیے، کہاں
تک آگے جانا چاہیے اور بالآخر اسے کیا بننا چاہیے، اس کے سامنے اس کا انجا م کیا ہے اور اس کی سعادت کس میں ہے؟ اس سوال کے جواب میں دو بڑے طرزِ تفکّراور نکتہ ہا ئے نظر موجود ہیں:
۱۔فلسفہ بے مقصد یت ۲۔ فلسفہ مقصدیت
۱۔بے مقصدیت، لا وجو دیت Nahilism
’’بے مقصدیت ‘‘یا’’ لا وجو دیت ‘‘ اپنے الحادی مبانی کی بنیاد پر بشریت کے سامنے کس بلند مرتبہ ہدف ، مقصد ، غایت ، ارما ن ، آر زو اور نما یا ں تصور پیش کرنے کے قابل نہیں اور اس بارے میں کہ انسان کیا ہے اور اپنے لئے کون سے ارمان کا انتخاب کرے اور کس طرف حرکت کرے؟ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں، یہ مکتب اور نکتہ نظر زندگی کو انسان کے لئے ایک پیچیدہ مسئلہ میں تبدیل کر دیتا ہے جسے یا مجبورا ً برداشت کرے یا اگر ممکن ہو تو کسی طر ح اس سے گلو خلاصی کر لے۔
۲۔ فلسفہ مقصدیت
زندگی کی مقصدیت کے طرف دا ر مکا تب کی مختلف شاخیں ہیں، ان میں سے ہر ایک نے تصور کا ئنا ت ،تصورانسان اور تصورِمعرفت کے با رے میں اپنے مبا نی کی بنیا د پر مختلف اندا زمیں انسانی زندگی کے مقاصد ، اہداف اور آئیڈیلز کے بارے میں باتیں کی ہیں،اس بارے میں اہم ترین بشری مکا تب یہ ہیں:
۱:لذت گرا ئی (Hedonism)
یہ مکتب زیادہ سے زیادہ لذت پانے کو انسان کی سعادت اور آخری ہدف قرار دیتا ہے۔
افلاطون کا معا صر آرسٹیپ یونانی شا عر ھو را س (Horace )کے قول کی بنیاد پر کہتا ہے کہ :
آج کے دن کو غنیمت سمجھو کیو نکہ یہ خیریت سے بسر ہوہی گیا۔(۱)
ایپیکور بھی اس طرز فکر کے مدعیو ں میں سے ایک ہے وہ معنوی اور روحانی لذتوں کی طرف بھی متوجہ تھا۔(۲)
تنقیدی جا ئزہ
اس طرزِ تفکّر کو در پیش سب سے پہلی مشکل ، لذت کی تعر یف ، اس کی وسعت اور انسانی زندگی سے متعلق وا قعا ت کے مجمو عہ کے ساتھ اس کا تعلق ہے ،اس طرزتفکرمیں ’’لذت ‘‘ سے مراد اگراسی دنیا کی گزرجا نے والی ما دی لذتیں ہیں تو اس پر کئی اعتر اضا ت پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔ ہدف نہا یت متزلزل اور غیر پا ئیدا ر ہے جو کہ جلدی سے گزر جا تا ہے اور اس کے نہ ہو نے سے زندگی بے مقصد اور کھوکھلی ہو جاتی ہے۔
۲۔ اس کے نتیجے میں بلند ترین انسانی اقدا ر جیسے ایثاروقربا نی اپنی قدریں کھو دیتی ہے اور انسان ایک مطلب پر ست اور عشرت طلب حیو ان میں تبدیل ہوجا تا ہے یہا ں تک کہ وہ حیوانیت کی ہو لنا ک گہر ائیو ں میں جا گر تا ہے۔
۳۔ اگر ہم لذت کی ’’وسیع تر ‘‘ تعریف کریں جس کے نتیجے میں ایثار، قربا نی اور روحانی و معنوی بلندی کو کسب کرنے کے لئے ما دی لذتوں سے کنارہ کش ہونا بھی اس میں شامل ہو جا ئیں تو اس نکتہ نظر میں وسعت آجا ئے گی اور ا س میں بہت بہتری پیدا ہوگی لیکن یہ بات ایپیکو جیسے لوگو ں کی تعلیما ت سے زیا دہ مطابقت نہیں رکھتی۔
۲:خودگرائی یعنی انانیت Egoism
بعض لوگ زیا دہ سے زیا دہ خو د پر ستی کے احسا س اور خود خواہی کی طلب کو پو را کرنے کو حیات انسانی کا ہد ف قرا ر دیتے ہیں۔
ما کیا ولی (Machiawalli) اس نظریے کا بانی ہے، وہ سیا ستدانوں کو دس درج ذیل اصول بتاتا ہے۔
۱۔ ہمیشہ اپنے مفا دا ت اور خواہشا ت کی فکر میں رہو۔
۲۔ اپنے علا وہ کسی کو محترم نہ سمجھو۔
۳ ۔ برائی کرو لیکن ایسے ظاہر کرو کہ تمہارا مقصد نیکی ہے۔
۴۔ لالچی بنو اور اموال کو جمع کر نے کی کو شش کرو۔
۵۔ خسیس بنو۔
۶۔ سخت دل اور بے رحم بنو۔
۷۔ جب بھی موقع ملے دھوکہ دہی اور مو قع کی تلا ش میں رہو۔
۸۔ دشمن کو ختم کر دو اور ضروری ہو تو دوستوں پر بھی رحم نہ کرو۔
۹۔ لوگوں کے سا تھ اپنے رویوں میں نرمی پر سختی کو ترجیح دو۔
۱۰۔ جنگ کے علا وہ کسی اور چیزکے با رے میں مت سوچو۔
یہ نظریہ کیا ہے ؟ بلند ترین انسانی اقدا ر کی نفی اور انسا ن کے بھیڑیئے میں تبدیل ہونے کا راستہ ہے (جیسے فلسفہ ہا بز میں مذکو ر ہے ) معاشرتی ڈارون ازم کا قیام ،مو سو لینی کی فا شسٹا آئیڈیالوجی کی پیدا ئش ، ہٹلر کی نیشنلسٹ سو شل ازم … دنیا کو صر ف مید ان جنگ میں تبد یل کرنے کا ذریعہ۔
۳:مفاد پرستی (Utili Fariccnism)
جرمی بنٹام اور جا ن اسٹورٹ مل کی نظر میں اصل سود (Principle of utility) سعادتِ انسانی کی بنیادی اور قدر مطلق ہے ،عا لی ترین سعادت زیا دہ سے زیا دہ افراد کے لئے زیا دہ سے زیادہ منفعت و سو د کے مسا وی ہے، البتہ ’’مل‘‘ بنٹام کی نسبت عمومی منفعتوں سے پیدا ہو نے والی کیفیت کے پہلو ؤں پر زیا دہ تو جہ دیتاہے۔
تنقیدی جا ئزہ
گزشتہ طرزِفکرپرچند اعتراضا ت سامنے آتے ہیں:
۱۔ منفعت کا ملاک و معیا ر کیا ہے اور کو ن اسے متعیّن کرے۔
۲۔ منفعت وسود مندی کی قسمیں کیاہیں اور مفا دا ت اورمنفعتوں کے تصادم مثلاً مادی اور معنوی یا شخصی اور اجتما عی مفادات کے تصا دم کی صو رت میں کس بنیا د پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جا ئے گی؟
بنیادی مشکل یہ ہے کہ جب انسان کا آخری مقصدسود منفعت ہو تو یہ مقصد افر اد کی خوا ہشا ت کے تا بع ہو گا اورہرشخص اپنی خواہشا ت کی بنیاد پر اس کی تفسیر اور وضا حت کرے گا اور اس کے حصول کی را ہ میں حر کت کرے گا،جب کہ مقصد عالی کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بطورِ مطلق اہمیت رکھتا ہو اور مختلف لوگوںکے ہا تھوں میں کھلو نا نہ بنے۔
۴۔انسان پرستی و انسان دوستی (Humanism)
ہیومن ازم اورانسان دوستی انسان کو خدا کے مقا م پر بٹھا تی ہے اوراسے عالی ترین قدر سمجھتی ہے۔
’’اگو سٹ کا نٹ‘‘ انسان پر ستی کو مقد س ترین ذمہ داری سمجھتا ہے اورنوعِ انسانی کی خدمت سے بڑھ کر کسی کما ل کو ہد ف اور مقصد نہیں سمجھتا۔
اس طرزِ تفکّرمیں اخروی زندگی اور انسا ن کے خا لق کا ئنا ت سے را بطے کو نظر اندازیا پھراس کا انکا ر کیا گیا ہے۔
’’اریک فروم ‘‘نے انسانیت سے عشق اور عدل کو خدا کا جا نشین بنا دیا ہے اور اس کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اس بنیا د پر خد ا کو چھوڑدینا چاہیے۔(۳)
ہیومن ازم یا انسان پرستی
مغرب مختلف شا خیں اور طر ز تفکر رکھتا ہے جن میں ایک روشن انسان پر ستی ہے، جان لویک کے بقول روشن انسان پر ستی جس کا دور حا ضرپر غلبہ ہے کا مدّعایہ ہے کہ وجو د انسان میں توجہ کا اصل مرکز، ارا دہ اور مشیت ِ خدا کو کشف کر نا نہیں بلکہ عقل انسانی کی بنیا د پر زند گی اور معا شرہ کا انتظا م وانصرام کر نا ہے، ان متفکّرین کی نظرمیں انسان کی قدر و قیمت اورمقام مذکورہ الٰہی مشیت کے مرہو ن منت نہیںبلکہ اس کے زمینی وجو د کی عقلا نی کاوشوں اور نظا م کا مرہون منت ہے۔
انسان کا مقصد نہ خدا کا تقرب ہے اورنہ ہی بہشت ِجا وید ان ہے بلکہ انسا ن کا مقصد آخر اس کا دنیا کے مختلف پر اجیکٹس ا نجام تک پہنچانا ہے جن کی تجویزانسان کی خیالی قوت اور عقل نے دی ہے۔ (۴)
مجمو عی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انسان پر ستی Humanism درج ذیل تعلیما ت پر مشتمل ہے۔
۱۔ انسان عالی ترین قدر values ہے اورتما م اقدا ر کا محو ر انسانی حیثیت، خواہشات اور مفادات ہیں۔
۲۔ انسان کی قدو قیمت اور vlaue اس کے روحانی ،الٰہی اورملکو تی پہلو ؤںمیں نہیں بلکہ اس کی زمینی فکر اورمعا ش کی تگ ودو میں ہے۔
۳۔ انسا ن اپنے مفا دا ت منا فع اور خو اہشا ت کے حصو ل میں اپنے قوت ِبازو پر اعتماد کرنے والا اور خود کفیل ہے۔
۴۔ انسا ن کی آخری منزل نہ کما لِ معنو ی میں ہے اور نہ ہی قر ب الٰہی بلکہ دنیا کی تعمیر اور دنیا وی زند گی کی بہتری ہے۔
تنقیدی جا ئزہ
۱۔خدا گریز تقدس کی نا کامی
اگرچہ اصولی طور پر تقدیس و پر ستش اور بند گی انسا ن کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ہے لیکن ہرطرح کی پر ستش انسانی ضرورت کوپو را نہیں کر تی تاکہ بڑی آسانی سے انسا ن کوخداکی جگہ بٹھا یا جا سکے اوراس کی پرستش کو عشق وپرستش الٰہی کا مقام دیا جا ئے۔
دوسرے لفظوں میں وہ پرستش انسا ن کے لئے حا مل اہمیت ہے جو کا ئنات کے صحیح تصوراورعقل پذیرطرزتفکرپرمبنی ہو،انسان ہرچیزسے زیادہ کا ئنات کے بارے میںصحیح تصوراور عالم ہستی کے با رے میں ایک دقیق اورمکمل نظریہ کی تلا ش میںہے،بے شک خدا پریقین اور خدا کی پرستش پراستوارتصورکائنا ت زیا دہ دقیق اور گہرا ہو تا ہے اور کا ئنا ت کی صحیح روحانی تفسیراور قابل ِ اعتما د،رو شن ہد ف کی نشاندہی میں زیا دہ کامیاب ہے۔
۲۔اقدارکی نفی:انسان پر ستیHumanism انسا ن کی قیمت گز اری میں دوبنیادی اعتراضات سے دوچار ہے۔
ایک یہ کہ:انسا نی کے وجو د کے ایک بڑے حصہ اور اس سے متعلق حقیقی اقدا ر کو نظرانداز کرتا ہے۔
دوسرایہ کہ:یہ نکتہ نظرانسا ن کو تما م اقدار values کا مبداء محورقرار دیتا ہے اورلاشعوری طور پرایسے راستے پر چلتاہے جس کا انجام تمام اقدا رvalues کی نفی ہے،چونکہ اس طرزِتفکّرکے مطابق انسا نی دنیا کی خو اہشا ت اور منا فع ہی اصل حا کم ہیں لہٰذا منفعت ِانسانی ہر قا عدہ اور اقدارvaluesپر مقدم ہو گی اورمنفعت حقیقت کی جا نشین بن جا ئے گی ، اس صورت میں ہر قدرومنزلت کو انسا نی ہوا ہو س اور منا فع کے قدموں پر قربان کیاجا سکتا ہے ۔
۳۔ لا شیئت Nihilism
انسان پرستی نے خدا کو چھو ڑ کر انسا ن کو تما م اقدا ر کا مبد اء و منشا ء قرار دے دیا اورشناخت و معرفت کا ابتدا ئی مرکزبھی خدا کی جگہ انسان کوبنادیا، انسانی زند گی کے بلند ترین ہدف کوچندروزایسی دنیا کی عما رت میں محد ود کر دیا جو سر اسر تنا زع وتز احم کی دنیا ہے جس کا نتیجہ لا شیئت اور Nihilsmکے سوا کچھ بھی نہیں،کیو نکہ دنیا ئے انسان پر ستی ایک آزاد دنیا ہے جس میں انسان اپنی پو ری قو ت کے ساتھ سا تھ اپنی بقا ء کے لئے جد وجہد کر تا ہے لیکن بالآخر دیا ر مر گ و فنا کی طرف سفرکر جا تا ہے۔
۴۔انسان کی جدید اسا رت
’’انسان پر ستی کی فکر ‘‘ عملی میدان میں اس کے مدعیوں کے قدموں پر انسان کے استحصا ل اور قربا نی اور سو ء استفا دہ کا ایک و سیع میدا ن فر اہم کر گئی۔
ڈیوس ٹونی ، کا نظریہ ہے کہ:
انسان پر ستی بہت سے انسا نوں کو کچلنے کا نعرہ تھا۔(۵)
نازی ازم، فاشزم، سٹالین ازم، امپریالیزم وغیرہ سب کے سب ہیومن ازم اور انسان پرستی کے ہمزاد اور ہم فکر ہیں، اسی وجہ سے بعض کو ’’ضد انسانی تحریک ‘‘ کے مسا وی اورمراکزاقتدا ر کے لئے توجیہ کا ذریعہ ’’فریبی مفہوم‘‘(۶)
’’قومی عصبیت اور بر تری کی آواز ‘‘قر ار دیتے ہیں اور کہتے ہیں ممکن نہیں کہ ایسے ظلم کا ہم تصور کر سکیں جو انسا نیت کے نا م پر وقو ع پذیر نہ ہو ا ہو۔(۷)
۵۔فطر ت پر ستی ) (Naturalism
اس مکتب کی نظر میں زندگی میں انسان کی سعی و کوشش یہ ہو نی چا ہیے کہ فطرت کے تقا ضو ں کے مطا بق زندگی بسرکریں، لہٰذا اگر لوگ انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں تو وہ آئیڈیل زندگی حا صل کریں گے۔
اس نظرئیے کے بانیوں میں سے ایک ’’لا ئیو ٹسے‘‘ ہے جو تمد ن اور اس کے مظاہر کو انسانی سعادت کا دشمن سمجھتا ہے اور عقیدہ رکھتا ہے کہ ان سے دوری اختیا ر کرنا چاہیے۔
یو نان قدیم میں کلبیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حکو مت ، ثر وت ، شا دی اور جنسی لذتیں سب بے فائدہ ہیں اورضروری ہے کہ معاشرہ سے دوری اختیار کی جا ئے اور ایک سا دہ زندگی کی طرف لوٹا جائے تا کہ سعا دت مند ہو سکیں۔
آخری صدی ’’جان جا ک رو سو ‘‘ نے طبیعی دور ونیچر کی طرف پلٹنے اور تمدن کے جاہ و جنجا ل سے گریز کو اپنے تربیتی پر وگر ام کا بنیادی نقطہ قرا ر دیاتھا۔
اسی طرز فکر پر چند اعترا ضا ت سا منے آئے ہیں:
۱۔ اس با ت میں ابہا م ہے کہ کو ن سی چیز طبعی اور فطری پہلو رکھتی ہے اور اسکی حفاظت کس حد تک لازم ہے۔
۲۔ کیاتمدن و ٹیکنالوجی ہرشکل ہرمقدارمیں طبعی تقاضوں سے مغایرہے؟یاطبعی اور فطری زندگی بسرکرنا ٹیکنالوجی اور تمدن کی کچھ صورتوں کے ساتھ قابل جمع ہے؟
۳۔ مظاہرتمد ن سے کس طرح دوری اختیارکی جا ئے اور انسانی معا شرہ اس پرکس حد تک قادرہے؟
الغرض انسانی معا شروں میں بڑی سطح پرطبعی اور فطری زند گی ممکن ہو تو اس طبع زند گی کامقصدکیاہے ـ؟فقد چنددن تمدن کے شوروغل کے بغیرزندگی بسرکرنااوربالآخرمرنایہ وہی بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کا جوا ب اس’’مکتب فکر‘‘کے پاس موجو دنہیں ہے۔
۶۔سائنس پرستی) (Scientism
دانش مندوں کا ایک گروہ علم و دا نش تجربی اور سا ئنس کو انسانی زندگی کا مقصد اعلیٰ معبوداورآخری ارما ن وآرزوقراردیتا ہے ’’فرائڈ‘‘کا کہنا ہے کہ ضروری ہے کہ علم کو اللہ( اور مذہب )کا جا نشین بنا دیا جا ئے اور اس کی پر ستش کی جا ئے ’’فر انسیس بیکن، برٹر انڈرسل اور گوسٹ کلنٹ سب کے سب کچھ اختلافات کے ساتھ اس نظر یہ کے طرف دار ہیں۔
تنقیدی جائزہ
علم صرف آشنا ئی ہے اور صر ف امو ر اور وا قعا ت کے درمیا ن را بطے کو و ضع کرتا ہے اور انسان کو نیچراور فطرت پرمسلط کر سکتا ہے لیکن انسان دوسری چیزوں کا بھی محتا ج ہے اور صر ف الٰہی تصور کائنات کے سا ئے میں زندگی کے ہد ف اور مقصد کو حا صل کر سکتا ہے نیزشوق اورولولہ سے اپنی تعمیر کر سکتاہے۔
دوسری طرف اگر صرف علم ہی انسان کی زند گی کا مقصد اعلی اور راہ نجا ت ہو تو کیوں کئی ملین انسان علمی پیش رفت اور تر قی سے حا صل شدہ بموں کے گو لوں کے نیچے تباہ و بربادہو ئے ہیں ؟ کیا ہیروشیما اور اس جیسے وا قعا ت ایما ن بغیر علم کا نتیجہ نہیں تھے؟
جی ہاں سا ئنس کا اگر چہ کا ئنات کی شنا خت اور اس کی تعمیر میں بڑا کر دا ر ہے لیکن انسا ن کی شنا خت اور ا س کی سا خت و تعمیر میں وہ ہمیشہ نا تو ا ں اور نا کا م رہی ہے۔
نتیجہ بحث
ان تما م مکا تب کے با رے میں حاصل کلا م یہ ہے کہ:
۱۔ ان کی اہم ترین مشکل اور نقص ایک جامع اور مضبو ط تصور کا ئنا ت کا فقدان ہے اور نظری و فکری بنیا دوں سے محروم مکا تب فکر سے انسان کی زند گی کے اعلیٰ ترین ہدف کی تصویر کشی کی امید رکھنا ایک نامناسب اور ناکا م امر ہے۔
بنا براین وحی الٰہی کے را ستے کو اختیا ر کئے بغیر اس طرح کے قیمتی متاع کا حصول ممکن نہیں۔
۲۔ ان میں اکثرمکا تب نے دنیا وی زندگی کی بعض ضروریا ت و اجزاء اور حصوں کوزند گی کا مجموعی ہد ف قرار دیاہے جس کی وجہ سے وہ انسانی وجودکے مختلف پہلو ؤں خصوصاً اس کی جا ودانگی اور اخروی زندگی کو مدِ نظررکھتے ہو ئے کو ئی جامع اور اس سے متنا سب ہد ف پیش نہ کر سکے۔
(حوالہ جات)
(۱)فلسفہ اخلا ق ، جیکس ، ترجمہ ابو القا سم پور حسینی ، بہ نقل از عبد اللہ نصری فلسفہ آفرینش انسان ، ص ۲۵۴، قم معا رف
(۲) کر سن اندرے ، فلا سفہ ٔ بزرگ ، ایپیکور ، ص ۵۶، ترجمہ کا ظم عما دی
(۳) اس با رے میں مزیدتفصیل کے لئے : فلسفہ آفرینش ، عبد اللہ نصری ص ۳۵۸
(۴)انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی ج علم ص ۵۲
(۵) بایک احمدی ، محای مدرینتہ ص ۱۱، ٹونی ڈپوس ، ہیومن ازم ص ۲۷
(۶) ٹونی ڈیوس ، ہیو من ازم ص ۹ ، ۵۴،۶۴،۸۴
(۷) بایک احمدی ، محمائی مد رنیتہ ص ۱۱۲