عوام کا مقام اور اہمیت
سوال ۳۴:اسلامی حکومت میں قوانین کے نفاذ اور حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد میں لوگوں کاکیا کردار ہوتا ہے اور حکمرانوں اور عوام کی آراء اور سوچ میں ٹکراؤ کی صورت میں ذمہ داری کیا بنتی ہے؟
اسلامی حکومت میں قوانین کے نفاذ اور پالیسیوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں عوام کا موثراور فعال کردار ہے، مثال کے طور پر عوام پارلیمنٹ کے ممبران کے چناؤ کے ذریعے سے معاشرے کے لیے قانون سازی اور حکمت عملی کے تعیّن میں کردار ادا کرتے ہیں اور مختلف کمیٹیوں کے ممبران کے چنائو کے ذریعے عمومی سیاسی حکمت عملی میں کردار ادا کرتے ہیں ، مجلس خبرگان کے ارکان کے انتخاب کے ذریعے رہبر کے تعیّن اور اس پر نگرانی میں اور صدر کے انتخاب کے ذریعے (رہبر کے بعد ) اعلیٰ ترین حکومتی منصب کے چناؤ میں شریک ہوتے ہیں۔
حکومتی کابینہ دوجہتوں سے(بالواسطہ)عوام کی منتخب شدہ ہوتی ہے،کیونکہ ایک طرف سے عوام کامنتخب صدر،اپنی کابینہ کونامزدکرتا ہے اور دوسری جانب عوام کی منتخب پارلیمنٹ ان کی صلاحیتوں کی چھان بین کے بعد انہیں اعتمادکا ووٹ دیتی ہے،قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان تمام امورمیں عوام کا عمل دخل شرعی قوانین کیمطابق ہوتاہے،ان کے برخلاف نہیں ہوسکتا۔
آئین کے چھٹے آرٹیکل میں آیا ہے:
اسلامیہ جمہوریہ ایران میں ملکی امور کو عوام کی آراء کے مطابق چلایا جائے، صدر ، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر کمیٹیوں کے ارکان وغیرہ کے انتخاب کے ذریعےیا ریفرنڈم کے ذریعے ‘‘
عوام اور حکمرانوں کی آراء میں تصادم کی مختلف صورتیں ہیں ، جیسے :
۱۔شرعی ، قانونی اور اجتماعی مفادات کے معیارات پر تطبیق کے لحاظ سے عوام کی آراء و نظریات اور حکومتی افراد کے فیـصلے برابراورمساوی ہوں تویہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کی رائے فوقیت رکھتی ہے،شرعی لحاظ سے مشاورت کے ضروری ہونے کے جو دلائل ہیں وہ اس بات کے مؤیدبن سکتے ہیں،اسی طرح سیاسی اعتبارسے دیکھیں تو یہ بات نظام کی مقبولیت اوراستحکام کا موجب ہو سکتی ہے،البتہ اس صورت میں نہیں جب بعض دلائل کی بنا پر فیصلہ جات میں تبدیلی ممکن نہ ہو۔
۲۔جب شرعی اور قانونی اعتبار سے عوام کی مرضی اور رائے رائج ہو او ر حکومت کے ذمہ داروں کا مؤقف مرجوح ہوتو اس صورت میں عوام کی مرضی بطریق اولی فوقیت رکھتی ہے۔
۳۔جب عوام کی رائے اور مرضی شریعت اور قانون کے مطابق نہ ہویااجتماعی مفادات کے مخالف ہوجبکہ حکومتی کارندوں کے فیصلے شرعی اور قانونی تقاضوں کوپوراکرتے ہوں تو اس صورت میں حکومتی افرادکے مؤقف اور فیصلے کو ترجیح دی جائے گی۔