خواہش رسوا کرگئی
محمد بن عبدالعزیز کہتا ہے کہ میرا دوست مشہور شاعر رشید بن زبیر کالابھجنگ تھا،اسے دیکھ کر طبیعت مکدر ہوجاتی تھی،ایک دن وہ معمول کے بر خلاف کافی دیر سے مجھ سے ملنے آیا تو میں نے پوچھا: کیا آج کہیں گئے ہوئے تھے تو اس نے کہا:بھائی آج میں بہت ہی ذلیل ہوا ہوں۔
میں نے پوچھا:کیا ہوا؟اس نے کہا کہ آج میں بازار میں کھڑا تھا کہ ایک نقاب پوش عورت آئی اور اس نے آنکھ کے اشارے سے مجھے بلایا اور میرے آگے آگے چلنے لگی،میں بھی عشق کا مارا اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
وہ دو تین گلیوں سے ہوتی ہوئی ایک مکان پر پہنچی اور دروازہ کھول کر اندر چلی گئی اور آواز دے کر مجھے بھی اندر بلا لیا،جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تو اس نے چہرے سے نقاب الٹ دیا،ایسے لگ رہا تھا جیسے بادل کی اوٹ سے چاند نکل آیا ہو،پھر اس
نے آواز دی،بیٹی ۔۔بیٹی! آواز سن کر ایک چھوٹی بچی آئی جو حسن و جمال میں اپنی ماں کی تصویر تھی،اس عورت نے بچی سے کہا:اگر تو نے آئندہ بستر میں پیشاب کیا تو یہ بھوت تجھے کھا جائے گا،پھر اس نے مجھ سے کہا:محترم!آپ کا بہت شکریہ! میں نے آپ کا قیمتی وقت لیا اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
(حوالہ)
(روضات الجنات)