ولایتِ فقیہ
سوال ۱۵:کیا اسلامی حکومت صرف فقیہ یا علماء کی حکمرانی کے ذریعے ہی ممکن ہے ؟
اسلامی حکومت درحقیقت معصومینؑ کی قیادت میں ہی قائم ہوتی ہے جس کی ابتداء عالی مرتبت پیغمبر اسلام کی عظیم الشان امامت اور رہبری سے ہوئی اور پھر ان کے بعد آئمہ اہل بیت ؑ اس عہدہ کے مستحق ہیں ۔
عصر غیبت میں معصومینؑ کی طرف سے امت اسلامی کی قیادت اور رہبریت کے لیے ولی فقیہ کو منصوب کیا گیا ہے یعنی وہ شخص جس میں فتویٰ دینے کی اہلیت اور معاشرے کی قیادت کے لیے تمام صلاحیتیں موجود ہوں ۔ اہلبیتؑ اور ضروری صلاحیتوں کی موجودگی میں اس پر لازم ہے کہ وہ آئمہ اطہارؑ کی نیابت میں امت کی قیادت کو سنبھالے
اس بناء پر زمانہ غیبت میں ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت کا تصور بے معنی ہے اس کی وجہ بھی حکومت ِ اسلامی کی خصوصیات اور اسلام میں حکمرانوں کے لیے ضروری شرائط میں غور و غوض کرنے سے واضح ہو جاتی ہے ۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں تمام امور اور معاملات کو الٰہی احکام اورقوانین کی بنیاد پر منظم ہونا چاہیے ، لہٰذا ایک با بصیرت اور احکام الٰہی کی تشخیص کی اہلیت رکھنے والے ، ان کی عصری تقاضوں اور ضروریات پر تطبیق دینے کی صلاحیت کے حامل ، باایمان، مقصد کی لگن رکھنے والے اور دینی احکام کے پابند رہبر کی موجودگی ایک واضح اور بدیہی امر ہے ۔
اسی لیے امیر المومنین ؑ سے منقول ایک روایت میں آیا ہے :
حکمرانی کے لائق وہ فرد ہے جو ان میں سے زیادہ طاقتور اور احکام الہٰیہ کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والاہو۔(۱)
نیزامام حسین ؑسے بھی روایت ہے کہ :
معاشرے کے امورکی باگ ڈور ایسے معرفت الٰہی رکھنے والے علماء کے ہاتھ میںہونی چاہیے جوحلال وحرام الٰہی کے پاسدار اور امانت دارہوں ۔(۲)
(حوالہ جات)
((۱) ان احق الناس بھذا الامر اقویھم علیہ واعلمھم بامر اللہ فیہ ، نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۷۳ ، مزید جاننے کے لیے مطالعہ کریں ، معرفت، محمد ہادی ، ولایت فقیہ ، ص ۱۶۵
(۲) حجاری الامور و الاحکام علی ایدی العلماء باللہ الامنا علی حلال اللہ و حرامہ ، مستدرک الوسائل ، ج ۱۷ ، ص ۳۱۵ ، باب ۱۱