عرفانِ نظری
سوال ۳۰ : ۔ کیا طالب علم کے لیے صرف عرفانِ نظری کا پڑھنا مفید ہے یا نہیں؟
سٹوڈنٹ کے کاموں کا ایک سلسلہ ہے جن کا نظام محتاج ہے اور ان میں سے بعض واجب عینی اور دوسرے بعض واجبِ کفائی ہیں، عرفانِ نظری جیسے شعبوں میں تعلیم حاصل کرنا انسان کی باطنی خواہشات کو پورا نہیں کرتا کیونکہ یہ وہ علم ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد آہستہ آہستہ بھول جاتے ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ سٹوڈنٹ اپنے شعبہ کے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ مباحث اخلاقی کا بھی مطالعہ کریں، انسان کے عقائد کی مواعظِ اخلاقی سے تقویت ہونی چاہیے، دعائیں، زیارات اور سبق آموزاشعار جیسی چیزیں سب کی سب مفید ہیں اور ہر کوئی ان راستوں میں سے جس ایک راستہ سے اپنے اخلاق کی بہتری کے لیے استفادہ کر سکتا ہے، اسی راستے پر عمل کرے۔
مرحوم فیض کاشانی، صدر المتالھین شیرازی اور حکیم سبزواری ان لوگوں میں سے تھے جو حافظ کی غزلیں پڑھنے کو اہمیت دیتے تھے، انسان جب غزل پڑھتا ہے تو احساسِ الٰہی پیدا ہوتا ہے اور فساد و تباہ کاری کو چھوڑ دیتا ہے، بعض لوگ شعر و غزل سے مانوس ہیں، بعض دعائوں، مناجات سے اور بعض قرآن سے، البتہ دعا، قرآن سے ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے لیکن دوسرے آثار عمومیت نہیں رکھتے۔
آپ دیکھیں گے کہ اس عمر میں کون سی چیز آپ کو زیادہ خدا کی طرف جذب کرتی ہے، اس کو غنیمت سمجھیں، مرحوم بو علی سینا نمط نہم اشارات میں لکھتے ہیں، کبھی عارف کو نرم و ملائم، آہنگ و نغمہ نصیحت قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے، جب ہم مرحوم الٰہی قمشہ ای کے دروس میں اس حصہ نہم اشارات میں پہنچے (ہم تین آدمی اس درس میں ہوتے تھے) تو درس کے دوران ہمارے ذہن میں آیا کہ جب درس ختم ہو گا تو استاد سے اجازت لیں گے کہ جناب آقای ربانی خراسانی جو کہ تہران کے بزرگ علماء میں سے تھے(ان تین آدمیوں میں سے کوئی ایک) ہر رات درس کے بعد استاد کی غزلوں میں سے کوئی ایک غزل ہمارے لیے پڑھیں تو انہوں نے اجازت دے دی۔
کبھی ایک مناجات انسان کی اصلاح کرتی ہے اور کبھی ایک غزل یا قصیدہ باطنی نقصان کو پورا کرتا ہے، وہ لذت جو انسان ایک اچھی غزل سے حاصل کرتا ہے، وہ کبھی بھی فحش و بے ہودہ اشعار سے حاصل نہیں ہوتی، فحش و بے ہودہ اشعار و لہوی موسیقی وہ زہر ہے جو جھوٹی لذت پیدا کرتا ہے، لیکن عارفانہ غزل وہ شہد ہے جو سچی لذت ایجاد کرتی ہے اور بڑھاپے کے آخر تک انسان کے ساتھ ہے، حافظ سعدی کی غزلیں اسی طرح ہیں۔
مرحوم آغا علی حکیم جو تقریباً ایک صدی پہلے گزرے ہیں اور اسلامی فلاسفر ہیں اپنی کتاب سبیل الرشاد فی علم المعاد میں کہتے ہیں، میں نے دیکھا کہ تہران میں نئی خبر پھیلی ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ شدید بارش کی وجہ سے شہرری میں جاری سیلاب سے بعض قبریں ویران ہو چکی ہیں اور ایک قبر ظاہر ہوئی ہے جس کا جسم تازہ ہے اور یہ قبر مرحوم ابن بابویہ کی قبر ہے۔ (ا)
بہت سے شریف لوگ تہران گئے اور زیارت کی، چند دنوں کے بعد جب حالات پر سکون ہو گئے تو میں خود گیا تو دیکھا کہ یہ پاک بدن تازہ ہے، کیا وجہ ہے کہ ایک انسان کا بدن آٹھ نو سو سال سے مٹی کے نیچے ہے اور بوسیدہ نہیں؟ ایسے اشخاص نے اپنے آپ کوفحش گانوںسے اور دیگر تمام گناہوں سے زہر آلود نہیں کیا اور زندگی میں اور اس کے بعد برکات الٰہی ان کے شامل حال ہوتی ہیں۔
بہرحال اگر کوئی خود کو گانوں میں مشغول کرے جونہی اس کی عمر بڑھتی ہے تو اکتا جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہ اس کی قوتِ ذائقہ کے مناسب نہیں، درحالانکہ مناجات اور غزل کے ساتھ زیادہ انس پیدا ہوتا ہے، غزل حافظ ہمیشہ رہتی ہے حتی کہ (جس قدر) عمر بڑھتی ہے، انسان اس کے ساتھ زیادہ مانوس ہوتا ہے، اس بناپر اگر آپ اس راستے کو طے کریں تو یہ مطلوبہ راستہ ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ آہنگ کی تین قسمیں ہیں :
۱ ۔ وہ آواز جو اچھا پیغام رکھتی ہے اور انسان کے اندر (مخصوص) حالت روحی و پاکیزگی ایجاد کرتی ہے، یہ اشکال نہیں رکھتی۔
۲ ۔ وہ آواز جو خاص ردھم رکھتی ہے اور ظاہر ہے کہ مجالسِ لہو و لہب سے مربوط ہے اور شہوت کو تحریک کرتی ہے، یہ ناجائز ہے۔
۳۔ بعض آوازیں مشکوک ہیں جنہیں انسان نہیں سنتا، عمدہ یہ ہے کہ ہم حال پیدا کریں .
اگر ایک راستہ صحیح موجود ہو تو مشکوک کے پیچھے نہ جائیں، انہیں غزلوں اور مناجات کو اچھی آواز سے پڑھنا جو ہم شیعوں کے ساتھ مختص ہے اور ہم پڑھنے کوسازوں سے زیادہ چاہتے ہیں، انسان کو بہت کمال عطا کرتا ہے اور بہت اچھی چیز ہے اور اس سے زیادہ ہمیں ضرورت بھی نہیں، اگر کوئی اس راہ پر چلے تو دیکھے گا کہ کوئی کمی نہیں رکھتا اور کبھی خود کو گانوں کے ساتھ آلودہ نہیں کرے گا، دوسری طرف ایسے اشعار کو یاد کیا ہے جو بڑھاپے تک اس کے لیے پسندیدہ ہیں اور جس قدر عمر بڑھتی ہے ان پیام آور اشعار سے اس کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
کوشش کریں، گوشہ نشین نہ ہوں، گوشہ نشینی دو طرح ہے، ایک ممدوح، دوسری مذموم، ممدوح گوشہ نشینی یہ ہے کہ انسان دنیا کو چھوڑ دے، یہ ’میں اورہم ‘دنیاوی چیزیںہیں، یہ چیز میری ہے یہ مقام میرا ہے، میری بات کیوں نہیں کرتے، میرا نام کیوں نہیں لیتے اور اس جیسی باتیں بچگانہ ہیں اور کسی کے لیے مفید نہیں اور بالآخر انسان کو رسوا کرتی ہیں ۔
مذموم گوشہ نشینی معاشرہ سے کٹنا ہے جو کہ بہت برُاکام ہے، انسان جب تک زندہ ہے، اسے معاشرہ میں رہنا چاہیے اور خدمت کرنی چاہیے اور مخلوقِ خدا سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔
(حوالہ)
(۱)یعنی شیخ صدوق ؒ صاحب کتاب من لا یحضرہ الفقیہ ان کے والد کی قبر قم میں ہے۔جو حضرت صاحب الامر ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدانے امام ؑ کی دعا سے انہیں یہ فرزند عطافرمایا۔