علی شریعتی

ڈاکٹر شریعتی کی روایت اور جدیدیت کے درمیان تعلقات برقرار کرنے کی کوشش

عالم اسلام کے مشہور دانشور اور انقلابی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی کی اہم کوششوں میں سے ایک روایت اور جدیدیت کے درمیان تعلقات برقرار کرنے کی ہے وہ کبھی ان دونوں کو ایک دوسرے پر فوقیت دینے کے در پے نہیں تھے۔ان خیالات کا اظہار ایران کے ایک نامور پروفیسر "بیژن عبدالکریمی” نے ارنا نمائندے کیساتھ  گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شریعتی کا نام صرف ایران کے معاصر دانشورں، سماجی ماہرین، مؤرخوں، مصنفین اور مقررین کے درمیان نہیں ہے بلکہ وہ ان سب سے کہیں زیادہ آگے اور عصر حاضر کے ایرانی دانشوارانہ نظام میں ایک موثر شخص کا نام ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی نہ صرف اسلام اور تاریخ سے بخوبی واقف تھے بلکہ ان کو فارسی اور عربی زبان و ادب پر پوری گرفت حاصل تھے۔ ان کی تحریریں انتہائی فصیح اور بلیغ ہیں۔

انہیں سیکھنے اور سیکھانے کا بہت شوق تھا اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں سمیت معاشرے کو اندھیری راہوں سے دور کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اس کے لیے فکر مند بھی تھے در اصل ان کے لکھنے اور کہنے کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ان تمام کوششوں اور تحریروں کے باوجود اگرچہ وہ اپنے دوران حیات میں اپنے طبقے کے لوگ کے درمیان بھی اکیلے تھے اور بہت سے لوگوں نے ان کی تنقید اور حتی کہ توہین بھی کی اور اپنے نوجوانی کے کچھ حصے کو بھی پہلوی عہد کی قیدخانوں میں گزارے لیکن اس دنیا سے انتقال کے بعد بالخصوص ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس کا نام نہ صرف زندہ رہا بلکہ ان کو اتنی مقبولیت ملی کہ شاید صرف بعض مفکروں کے ساتھ قابل قیاس ہو۔

واضح رہے کہ آج 19 جون ( ایرانی کلینڈر کے مطابق 29 خرداد) کو  ڈاکٹر علی شریعتی کی وفات کی سالگرہ ہے۔عالم اسلام کے مشہور دانشور اور انقلابی مفکر ڈاکٹرعلی شریعتی کی تاریخ پیدائش 23 نومبر 1933ء ہے۔ڈاکٹر علی شریعتی ایران میں مشہد کے مضافات میں میزینان کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے تدریس کے پیشے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

1964ء میں انہوں نے فرانس کی مشہور سوربون یونیورسٹی سے سوشیولوجی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی-وطن واپسی پر وہ دوبارہ مشہد یونیورسٹی سے منسلک ہوگئےایک مسلمان ماہر عمرانیات کی حیثیت سے انہوں نے مسلم معاشروں کے مسائل کے حل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا شروع کیا اور انہی اصولوں کے مطابق ان کے حل تجویز کیے، جلد ہی انہیں طالب علموں اور ایران کے مختلف سماجی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوگئی جس سے خائف ہوکر حکومت ایران نے ان کا تبادلہ مشہد سے تہران کردیا۔

تہران میں ڈاکٹر علی شریعتی کی زندگی کا ایک انتہائی فعال اور روشن دور شروع ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک مذہبی ادارے حسینیہ ارشاد میں لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا جس کے شرکا کی تعداد رفتہ رفتہ ہزاروں تک پہنچ گئی۔حکومت نے ان کی اس مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ان کے لیکچرز پر پابندی لگادی اور انہیں قید کی سزا سنادی تاہم عوام کے دباو اور بین الاقوامی احتجاج کے باعث 20 مارچ 1975ء کو انہیں رہا کردیا گیا، تاہم ان پر اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنے طالب علموں سے ملاقات کرنے پر پابندی عائد رہی۔

اس صورت حال میں ڈاکٹر علی شریعتی نے انگلینڈ ہجرت کا فیصلہ کیا تاہم وہاں بھی شاہ کے کارندے ان کا پیچھا کرتے رہے اور 19 جون 1977ء کو انہیں شہید کردیا گیا۔ڈاکٹر علی شریعتی کے متعدد لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوئے اور ان کے لاتعداد کیسٹس ایران میں گھر گھر تقسیم ہوئے۔

وہ علامہ اقبال کے مداحین میں شامل تھے اور انہوں نے اقبال کے حوالے سے بھی کئی لیکچرز دیئے تھے جنہیں کتابی شکل میں بھی شائع کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی دیگر تصانیف میں "فاطمہ فاطمہ ہے”، "علی اور تنہائی”، "حج”، "مارکسزم” اور مغربی مغالطے، مشن آف اے فری تھنکر، علی، مذہب بمقابلہ مذہب، جہاد اور شہادت اور سرخ شیعت کے نام سرفہرست ہیں۔ڈاکٹر علی شریعتی کو انقلابِ ایران کامعمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد ایران میں نہ صرف ان کی تصانیف کی اشاعت ممکن ہوئی بلکہ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا-

Related Articles

Back to top button