دانشکدہعلی شریعتی

ڈاکٹرعلی شریعتی کی یاد میں – عامر حسینی

ڈاکٹر علی شریعتی کی برسی کے موقعے پر ان کے مداح کی طرف سے لکھی گئی تحریر

کل چار مارچ کو ڈاکٹر علی شریعتی کی برسی تھی ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ میں کل ہی اپنے اس مرشد بارے کجھ لکھتا لیکن یہ جو دنیا داری کے بکھیڑے ہیں نا یہ نا تو عشق ڈھنگ سے کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کی یاد کو ٹھیک سے طرح سے منانے دیتے ہیں ، مجھے ڈاکٹر علی شریعتی پر کچھ زیادہ لکھنے کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ مرے بہت سے دوست ہیں جنھوں نے اس وال پہ بہت کچھ پڑھا ہے مری پوسٹوں میں شریعتی بارے

 

لیکن کل صرف ایک ٹی وی ” غالبا سچ ٹی وی ” کی رپورٹر سیدہ قرۃ العین نقوی نے ڈاکٹر علی شریعتی کو یاد کرنے کی زحمت گوارا کی اور کسی ٹی وی چینل کو علی شریعتی کی برسی پر اسے یاد کرنے کا خیال نہ آیا – سیدہ قرۃ العین نقوی نے بالکل ٹھیک کہا کہ ” انقلاب ایران ” کی پہلی اینٹ ڈاکٹر علی شریعتی نے رکھی تھی اور یہ اینٹ وہ تھی جس نے ایران میں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، مذھبی پیشواؤں سب کے تخت ہلاڈالے تھے

 

1-1-1386-4-11-16-8-49-888E

ڈاکٹر علی شریعتی کے ساتھ ایرانی ملاکریسی اور مذھبی اسٹبلشمنٹ نے وہی کچھ کرنے کی کوشش کی جو ہمارے ہاں کی ملائیت ، جاگیردار اشرافیہ ، کالونیل دور سے ورثہ میں ملنے والی بابو شاہی ، سرمایہ دار سامراجی ایجنٹوں نے اقبال ، جناح کے ساتھ کیا کہ ان دونوں کو ملّا بنانے کی کوشش کی گئی

ڈاکٹر علی شریعتی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے مذھبی پیشوايت ، سیاسی پنڈتوں ( فرعونوں ) سرمایہ داری کے قارونوں کی بنی تثلیث کو بے نقاب کیا اور مذھبی لبادے میں لپٹ کر پیش کئے جانے والے طبقاتی ، غیر مساوی ، استحصالی نظام ، نوآبادیات ، سرمایہ داریت ، سامراجیت کو مسترد کردیا

وہ ان دانشوروں میں شامل تھے جنھوں ایرانی سماج کے اندر اسلام کی تعبیرات کے اس گورکھ دھندے کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا جو اشرافیائی بنیادوں کو مضبوط کرتا اور انسانوں کی آزادی کو سلب کرلیتا تھا اور انہوں نے اسلام کی سماجی مادی بنیادوں کے مساوات کے اصول پر استوار ہونے پر اصرار کیا اور مسلم مفکرین میں وہ پہلے دانشور تھے جنھون نے مسلم افکار کی سماجی اور مادی بنیادیں تلاش کیں اور ” عمراینات اسلام ” کے بانیان میں شمار ہوئے

حسینیہ ارشاد میں ان کے خطبات اور تہران یونیورسٹی کے دو ، دو لاکھ طلباء سے ان کی باتیں پورے ایرانی معاشرے کی کایا کلپ کرنے کا سبب بنیں

ان کے سر پر کوئی سیاہ عمامہ نہیں تھا ، بدن پر کوئی چوغہ نہیں تھا ، چہرے پر کوئی داڑھی نہیں تھی ، تھری پیس سوٹ ان کا پسندیدہ تھا ، کلین شیو ، سگار اور سگریٹ کے دلدادہ شریعتی نے بازار سے جڑی ایرانی ملائیت کو چیلنج پیش کیا ، انہوں نے ایرانی شاہ کے ساتھ نتھی ایرانی کے صاحبان جبّہ و دستار کو للکارا ، کئی مراجع تقلید کو ان کی سیکنر جیسی آنکھوں اور بے مثال ذھانت نے ننگا کردیا اور وہ جو چند سکوں کے عوض ” آیات خداوندی ” کو فروخت کرتے تھے ان کے بارے ایرانی قوم کو بتایا

یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دِلق اویسؓ و چادرِ زہراؓ

ڈاکٹر علی شریعتی آج صرف ایرانیوں کا محبوب دانشور نہیں ہے بلکہ مشرق و مغرب میں اس کے کام اور کارناموں کی تحسین ہورہی ہے اور ملائیت ، سرمایہ داری ، قبیل پرستی ہر طرح کی رجعت پرستی اس کے افکار سے آج بھی لرزاں براندام ہے

Related Articles

Back to top button