احادیثدانشکدہ

تقویٰ

"تقویٰ کا تعلق دل سے”

أبي رحمہ اللہ قال حدثنا سعد بن عبد اللہ عن علي بن عبد العزيز قال قال أبو عبد اللہ ع:

يا علي بن عبد العزيز لا يغرنك بكاؤہم فإن التقوی في القلب[1]

ترجمہ

علی بن عبد العزیز کا کہنا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اے علی! ان لوگوں کا گریہ تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اس لیے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری دلوں میں ہوتی ہے۔

[1] عنہ البحار: ۲۸۳/۷۰،ح۴

 

اہل تقویٰ دنیا اور آخرت میں کامیاب

قال الإمامُ عليٌّ عليہ السلام :

اِعلَموا عِبادَ اللّہ ِ أنّ المُتَّقينَ ذَہَبوا بعاجِلِ الدُّنيا و آجِلِ الآخِرَةِ ، فشارَكُوا أہلَ الدُّنيا في دُنياہُم و لَم يُشارِكوا أہلَ الدُّنيا في آخِرَتِہِم .

امام علی عليہ السلام نے فرمایا:

اے اللہ کے بندو جان لو کہ صاحبان تقویٰ نے دنیا کو بھی پا لیا اور آخرت کو بھی۔ دنیا میں دنیا والوں کی نعمتوں کے ساتھ شریک رہے لیکن دنیا والوں کی آخرت کے ساتھ شریک نہیں ہوئے۔

ميزان الحکمت، ج 13 ،ص 363 ،ح 22418

 

الہٰی محرمات

قال الرضا علیہ السلام:

«اِعْلَمْ اَنَّہُ لاوَرَعَ اَنْفَعُ مِنْ تَجَنُّبِ مَحَارِمِ اللہِ وَ الْکَفِّ عَنْ اَذَی الْمُؤْمِنِ»

جان لیں کہ گناہوں سے دوری اور مومنین کو اذیت و آزاد دینے سے پرہیز کے علاوہ کوئی تقوی اور پرہیزگاری نہیں ہے۔

فقہ الرضا علیہ السلام / ص 356

 

متقین کی علامتیں

عن علی بن ابی طالب علیھما السلام

مِن عَلامَةِ اَحَدِہِم (أی المُتَقینَ) اَنَّک تَری لَہُ قُوَّةً فی دینٍ… وَحِرصا فی عِلمٍ وَعِلما فی حِلمٍ

متقین کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ تم اسے دین میں قوی دیکھتے ہو۔۔۔۔۔۔ حصول علم میں حریص اور علم کے ساتھ حلم اور تواضع کا ملک۔

نہج البلاغہ، خطبہ 193

 

تقویٰ اور وصیت امیر المومنین علیہ السلام

و من وصية لہ ع للحسن و الحسين ع لما ضربہ ابن ملجم لعنہ اللہ‏

أُوصِيكُمَا بِتَقْوَی اللَّہِ وَ أَلَّا تَبْغِيَا الدُّنْيَا وَ إِنْ بَغَتْكُمَا وَ لَا تَأْسَفَا عَلَی شَيْ‏ءٍ مِنْہَا زُوِيَ عَنْكُمَا

وَ قُولَا بِالْحَقِّ وَ اعْمَلَا لِلْأَجْرِ وَ كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً

اُوصِيكُمَا وَ جَمِيعَ وَلَدِي وَ أَہْلِي وَ مَنْ بَلَغَہُ كِتَابِي بِتَقْوَی اللَّہِ وَ نَظْمِ أَمْرِكُمْ وَ صَلَاحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَا [صلّی اللّہ عليہ و آلہ و سلّم] يَقُولُ: «صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلَاةِ وَ الصِّيَامِ»

اللَّہَ اللَّہَ فِي الْأَيْتَامِ فَلَا تُغِبُّوا أَفْوَاہَہُمْ وَ لَا يَضِيعُوا بِحَضْرَتِكُمْ‏

وَ اللَّہَ اللَّہَ فِي جِيرَانِكُمْ فَإِنَّہُمْ وَصِيَّةُ نَبِيِّكُمْ مَا زَالَ يُوصِي بِہِمْ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَيُوَرِّثُہُمْ

وَ اللَّہَ اللَّہَ فِي الْقُرْآنِ لَا يَسْبِقُكُمْ بِالْعَمَلِ بِہِ غَيْرُكُمْ

وَ اللَّہَ اللَّہَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّہَا عَمُودُ دِينِكُمْ

وَ اللَّہَ اللَّہَ فِي بَيْتِ رَبِّكُمْ لَا تُخَلُّوہُ مَا بَقِيتُمْ فَإِنَّہُ إِنْ تُرِكَ لَمْ تُنَاظَرُوا

وَ اللَّہَ اللَّہَ فِي الْجِہَادِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ أَلْسِنَتِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّہِ

وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَ التَّبَاذُلِ وَ إِيَّاكُمْ وَ التَّدَابُرَ وَ التَّقَاطُعَ

لَا تَتْرُكُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّہْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَيُوَلَّی عَلَيْكُمْ [أَشْرَارُكُمْ شِرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ

ثُمَّ قَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُلْفِيَنَّكُمْ تَخُوضُونَ دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ خَوْضاً تَقُولُونَ قُتِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ [قُتِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَلَا لَا تَقْتُلُنَّ بِي إِلَّا قَاتِلِي

انْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہَذِہِ فَاضْرِبُوہُ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ وَ لَا تُمَثِّلُوا بِالرَّجُلِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ ص يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَ الْمُثْلَةَ وَ لَوْ بِالْكَلْبِ الْعَقُورِ

نہج البلاغة نامہ‏ی 47 ص 421 و422

امیر المومنین علیہ السلام کی وصیت امام حسن اور امام حسین علیھما السلام سے، ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہونے کے بعد۔

میں تم دونوں کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ تقوی الہٰی اختیار کئے رہنا اور خبردار دنیا لاکھ تمہیں چاہےاس سے دل نہ لگانا اور نہ اس کی کسی شے سے محروم ہو جانے پر افسوس کرنا۔ ہمیشہ حرف حق کہنا اور ہمیشہ آخرت کے لیے عمل کرنا اور دیکھو ظالم کے دشمن رہنا اور مظلوم کے ساتھ رہنا۔

میں تم دونوں کو اور اپنے تمام اہل و عیال کو اور جہاں تک میرا یہ پیغام پہنچے ، سب کو وصیت کرتا ہوں کہ تقوی الہٰی اختیار کریں۔ اپنے امور کو منظم کریں۔ اپنے درمیان تعلقات کو سدھارے رکھیں کہ میں نے اپنے جد بزرگوار سے سنا ہے کہ آپس کے معاملات کو سلجھا کر رکھنا عام نمازاور روزہ سے بھی بہتر ہے۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اور وہ تمہاری نگاہوں کے سامنے برباد نہ ہو جائیں اور دیکھو ہمسایہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ ان کے بارے میں تمہارے پیغمبر [ص] کی وصیت ہے اور آپ [ص] برابر ان کے بارے میں نصیحت فرماتے رہتے تھے۔یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شائد آپ وارث بھی بنانے والے ہیں۔

دیکھو اللہ سے ڈرو قرآن کے بارے میں کہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں۔
اور اللہ سے ڈرو نماز کے بارے میں کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
اور اللہ سے ڈرو اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں کہ جب تک زندہ رہو اسے خالی نہ ہونے دو کہ اگر اسے چھوڑ دیا گیا تو تم دیکھنے کے لائق بھی نہیں رہ جاؤ گے۔

اور اللہ سے ڈرو اپنے جان و مال اور زبان سے جہاد کے بارے میں اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات رکھو۔ ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور خبردار ایک دوسرے سے منہ نہ پھرا لینا، اور تعلقات توڑ نہ لینااور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کردینا کہ تم پر اشرار کی حکومت قائم ہوجائے اور تم فریاد بھی کرو تو اس کی سماعت نہ ہو۔

اے اولاد عبد المطلب، خبر دار میں یہ نہ دیکھوں کہ تم مسلمانوں کا خون بہانہ شروع کر دو صرف اس نعرہ پر کہ "امیر المومنین مارے گئے ہیں” میرے بدلے میں میرے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔

دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا تو ایک ضربت کا جواب ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کے ٹکڑے نہ کرنا کہ میں نے خود سرکار دو عالم سے سنا ہے کہ خبر دار کاٹنے والے کتے کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹنا۔

نہج البلاغہ، نامہ‏ 47 ، ص 421 و422

Related Articles

Back to top button