امام محمد تقی علیہ السلامامام موسیٰ کاظم علیہ السلامدانشکدہمقالات

کاظمین

کاظمین (عربی=الکاظمیةبغداد کے جنوب میں ایک علاقے کا نام ہے جو عراق میں دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ علاقہ شیعوں کے دو امام، امام کاظمؑ اور امام جوادؑ کی زیارت گاہ کی وجہ سے شیعوں کے مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ شیعوں کی نگاہ میں اس کی اہمیت کے باعث بعض لوگ اس علاقے کو ایک مستقل شہر قرار دیتے ہیں۔

بعض شیعہ علماء جیسے شیخ مفید اور خواجہ نصیرالدین طوسی بھی اس شہر میں مدفون ہیں۔

وجہ تسمیہ

اس شہر میں شیعوں کے دو امام یعنی امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ کے روضوں کی موجودگی کی وجہ سے اسے "کاظمین” کہا جاتا ہے۔[1] اس علاقے کے دیگر اسامی میں: "کاظمیہ”، "بلدۃ الکاظمی‌” اور "المشہد الکاظمی‌” شامل ہیں۔[2]

آب و ہوا اور محل وقوع

کاظمین بغداد کے پڑوس میں واقع ہے اور موجودہ دور میں اس شہر کی توسیع کی وجہ سے یہ شہر بغداد میں شامل ہوا ہے۔ یہ شہر دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع ہے جسکی وجہ سے سال کے بعض ایام جیسے موسم بہار میں یہاں موسلہ دھار بارش ہوتی ہے۔[3] اسی وجہ سے عباسیوں کے دور حکومت میں بغداد اور اس کے اطراف کے زرخیز علاقے دار الخلافہ اور حکمران طبقہ کیلئے سیر گاہ کی حیثیت سے مشہور تھے۔[4]

کاظمین تاریخ کے آئینے میں

کاظمین خاص جغرافیایی حالات کی وجہ سے قدیم الایام سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس کی تاریخ قبل مسیح تک پہنچتی ہے۔ یہ علاقہ ساسانیوں کے دور میں "تسوج‌” نامی ایک ایرانی پادشاہ کا باغ تھا اور اسے اسی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔[5] سنہ 38 ہجری قمری میں جنگ نہروان کے وقت امام علیؑ کے حکم سے جنگ میں شہید ہونے والے شہداء کے جسد خاکی کو یہاں دفنا دیا گیا جس کی وجہ سے اسے "مقبرۃ الشہداء‌” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ عباسی دور حکومت میں بغداد کی توسیع کے ساتھ جب اسے دارالخلافہ کا درجہ دیا گیا تو اس وقت یہ قبرستان "شونیزی‌” کے نام سے معروف تھا جسے خلیفہ منصور دوانیقی نے خاندان عباسی کے بزرگان کو یہاں دفن کرنے کیلئے انتخاب کیا اور اس کا نام بعد میں "مقابر قریش‌” رکھا گیا۔[6]

ہارون الرشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے ہاتھوں جب امام کاظمؑ کو زہر دیا گیا جس سے امام کی شہادت واقع ہوئی تو امامؑ کے جسد مبارک کو بھی اسی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ امام عالی مقام کے یہاں دفن ہونے کے بعد آپؑ کا مرقد شریف "مشہد باب التّبَن‌” کے نام سے معروف ہوا۔ سنہ 220 ہجری قمری میں جب امام جوادؑ کو بھی اپنے جد امجد کے ساتھ اس جگہ سپرد خاک کیا گیا جو آج کل کاظمین کے نام سے شیعیان علی ابن ابی طالب کیلئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ دنیا کے گوشہ و کنار سے ان دو معصوم اماموں کی زیارت کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں آتے ہیں اور اپنی مرادیں پا کر یہاں سے واپس جاتے ہیں۔[7]

تخریب اور تعمیر نو

یہ علاقہ سیلاب، زلزلہ، داخلی اور مذہبی جنگوں کی وجہ سے کئی دفعہ ویران کیا گیا یا جلا دیا گیا اور ہر دفعہ اس کی تعمیر نو ہوئی۔[8] آل بویہ بغداد کے حکمران شیعہ ہونے کے ناطے اس شہر اور ان دو اماموں کے روضات مقدسات کی تعمیر نو میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔[9] علاء الدین جوینی جو بغداد کے حکمرانوں میں سے تھا، نے بھی سنہ 651 ہجری قمری میں بغداد پر ہلاکو خان کے حملے اور اس کی بربادی کے بعد شہر کاظمین اور ان دو اماموں کے روضات مقدسہ کی مرمت کی۔[10]

کاظمین کے تاریخی اور مذہبی مقامات

  • مسجد براثا اسی نام کے ایک محلے میں موجود مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ نے جنگ نہروان سے واپس لوٹتے وقت اس مسجد میں نماز پڑھی۔
  • مسجد صفوی جسے "شاہ اسماعیل صفوی” نے بنوایا جو ایک خاص اور منفرد خوبصورتی کی حامل ہے۔
  • مسجد المنطقہ جو "مسجد العتیقہ” کے نام سے بھی مشہور ہے۔[11]

کاظمین میں مدفون شخصیات

کاظمین میں امام کاظمؑ اور امام جوادؑ کا آستانہ

  • امام

امام کاظمؑ اور امام جوادؑ شیعوں کے ساتویں اور نویں امام ہیں۔

  • سیاسی اور سماجی شخصیات
  • علماء اور بزرگان

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، ص55۔
  2. اوپر جائیں راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، ص262۔
  3. اوپر جائیں الجغرافیہ الاجتماعیہ لمدینہ الکاظمیہ الکبری، ص19۔
  4. اوپر جائیں تاریخ کاظمین و بغداد، ص115 – 120۔
  5. اوپر جائیں موسوعۃ العتبات المقدسۃ، ج9، ص11 و 12۔ 38۔
  6. اوپر جائیں تاریخ بغداد، ج1، ص134۔
  7. اوپر جائیں معجم البلدان، ج1، ص306۔
  8. اوپر جائیں تاریخ کاظمین و بغداد، 97 – 100۔ عتبات عالیات عراق، ص161۔
  9. اوپر جائیں تاریخ کاظمین و بغداد، ص115 – 120۔
  10. اوپر جائیں جولہ فی الاماکن المقدسہ، ص110۔
  11. اوپر جائیں اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، ص57 – 60۔
  12. اوپر جائیں عتبات عالیات عراق۔ اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، ص57 – 60۔
  13. اوپر جائیں اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، ص57-60۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button