اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

جوانوں کو گمراہی سے کیسے بچائیں؟

مصنف:
گروہ محققین

جوانوں کو گمراہی سے کیسے بچائیں؟
جس طرح لوگوں کو جسمانی لحاظ سے سالم اور پاک رکھنے کیلئے کئی ایک پیشگی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ان کو فکری اور اعتقادی آلودگیوں سے پاک اور محفوظ رکھنے کیلئے بھی پیشگی اقدامات کے طور پر معاشرے میں علمی اور ثقافتی تدابیر کواسطرح مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کیلئے ایک پاک ، سالم اور فکری آلودگیوں سے دور ماحول میسر ہو۔
اس مقصد کے پیش نظر علمی اور ثقافتی امور کے ذمہ دار افراد اور والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کو اس انداز میں چلائیں کہ معاشرے سے فکری اور اعتقادی کج رویوں میں مبتلا یا اسکی زد میں موجود افراد کی نشاندہی کرکے انہیں ثقافتی یلغار کے حملوں سے محفوظ کرنے کیلئے اقدامات کریں تاکہ دوسرے ان بیماریوں میں مبتلاء نہ ہوں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم جوانوں کو ان آلودگیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ طریقے زمان و مکان، سن و شخصیت اور ماحول کے مختلف ہونے کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر صرف عمومی طور پر چند ایک طریقہ کار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
1۔ معرفت اور دینی اعتقادات کا استحکام
انسان عموماً فکری اور اعتقادی کجروی میں اس وقت گرفتار ہوتا ہے جب اسکے دینی اعتقادات مستحکم اور ریشہ دار نہ ہو۔ جب انسان کے اعتقادات دلائل اور براہین پر مبنی نہ ہوں اور اندھی تقلید کے طور پر وہ کسی چیز پر اعتقاد رکھے تو تھوڑی بہت شبہ اندازی اور اعتراضات کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے فکری اور اعتقادی انحراف کا شکار ہو جاتا ہے۔پس فکری انحراف کے عوامل و اسباب میں سے بنیادی اور اہم ترین عامل اعتقادات کا سطحی اور کمزور ہونا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کے دینی اور مذہبی اعتقادات جو کہ انسان کی فطرت میں رچے بسے ہیں کو مضبوط جڑوں پر استوار کریں تاکہ دشمن کے غلط پروپیگنڈوں سے ان کی ثابت قدمی میں لرزش نہ آنے پائیں۔ اس مقصد کیلئے والدین اور ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ تعلیمی اور تربیتی امورکو اسطرح مرتب کریں کہ جوانوں کی فطری حس خدا شناسی کے پھلنے پھولنے کیلئے زمینہ ہموار ہو۔
2۔ مذہبی مقامات میں جوانوں کی حاضری کیلئے زمینہ سازی
جوانوں کی مساجد اور دیگر مذہبی مقامات میں حاضری سے ان میں منعقدہ روح پرور دینی اور مذہبی پروگرام انہیں دینی اور مذہبی امور میں دلچسپی کا باعث بنادیتا ہے اور انہیں خدا کے ساتھ انس و محبت پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے اور آہستہ آہستہ انہیں اچھائی اور خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے۔ جس طرح فساد و فحشاء کی جگہیں انہیں خدا سے دور کر کے شیطان کے دام میں پھنسا دیتی ہیں، اسی لئے اسلام نے نہ صرف فساد و فحشاء سے دور رہنے کا حکم دیا ہے بلکہ ایسے مقامات پر حاضری سے بھی منع فرمایا ہے جہاں فسق و فجور انجام پاتے ہیں۔
3۔ اچھی اور معیاری کتابوں کے مطالعے پر آمادہ کرنا
ممکن ہے کچھ جوان اور نوجوان دشمنوں کے پروپیگنڈے میں آکر دینی مسائل کی آگاہی سے بے نیازی کا احساس کریں اور کتابوں کے مطالعے کیلئے کوئی انگیزہ نہ رکھیں۔ اس صورت میں والدین اور ذمہ دار افراد کا وظیفہ بنتا ہے کہ ان غلط افکار کو انکے ذہنوں سے نکال باہر کریں اور انہیں معیاری کتب کے مطالعہ کیلئے زمینہ فراہم کریں اور کتابوں کے مطالعے کے فوائد سے آگاہ کرکے انہیں اس اہم کام پر آمادہ کریں۔
4۔ مذہبی اور مناسب تفریحی پروگراموں کا انعقاد
مذہبی نشتوں جیسے احکام دینی کا بیان اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا صحیح تجزیہ اور تحلیل اور دعا و مناجات کے پروگراموں کا انعقاد جوانوں میں معنوی افکار کے فروغ کیلئے انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ ان پروگراموں کو حد المقدور جذاب اور متنوع بنانا چاہئے تاکہ نوجوانوں کی دلچسپی میں اضافہ کا باعث بنے، اس مقصد کیلئے ان پروگراموں کے ساتھ ادبی اور ہنری محافل کا انعقاد اور معیاری فلموں اور ڈراموں کی نمائش سے لیکر دیگر مناسب تفریحی پروگراموں سے مدد لے سکتے ہیں۔
5: غیر مناسب ٹی وی چینلوں، پروگراموں یا سائٹوں سے دوری
آج کی دنیا میں ٹی وی، ریڈیو، انٹرنٹ، ویب سائٹیں انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، ممکن نہیں ہے کہ انسان ان سے بطور کلی منسلک ہو جائے اور اپنے آپ کو دور کر لے ایسے میں والدین یا گھر کے ذمہ دار انسانوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کو ایسی تربیت کریں کہ وہ خود بخود ان چیزوں سے دوری اختیار کریں جو ان کے دینی عقائد کی عمارت کو منہدم کر دیں یا اس میں دراڑ ڈال دیں۔ ٹیلیویژن کی دنیا ہو یا انٹرنٹ کی دنیا سب میں دور حاضر کے میڈیا کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ نسل جوان کو دین سے دور کیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر ہزاروں چینلز ایسے ہیں جن کا کام صرف انسان کو گمراہی کی طرف کھینچنا ہے اور لاکھوں وب سائٹیں ایسی ہیں جن کی ہرممکنہ کوشش یہ ہے کہ وہ جوان کو اپنے پھندے میں پھنسائیں۔ ان سائٹوں میں جوان کو گمراہ کرنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا ہے لہذا ان سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نوجوان کے لیے ان کے متبادل کوئی چیز فراہم کی جائے تو ایسے میں جہاں سینکڑوں گندے ٹی وی چینلز ہیں وہاں ساتھ میں اچھے بھی ہیں۔ جہاں لاکھوں گندی سائٹیں ہیں وہاں ساتھ میں اسی انٹرنٹ پر کسی حد تک اچھی سائٹیں بھی موجود ہیں لہذا والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اچھی چیزوں کی پہچان کروائیں اور بری چیزوں کے انتخاب سے انہیں دور کریں۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کے اندر اس چیز کا ملکہ پیدا ہو جائے اس کے بعد وہ خود بخود برائیوں سے دور ہو جائیں گے اور اچھائیوں کی طرف قدم بڑھائیں گے۔

Related Articles

Back to top button