اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

تواضع و انکساری

(سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری)

ہر انسان کی دلی خواہش ہے کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ محبت کا رواج ہو ،ہر طرف امن و سکون کا عالم ہو لیکن اس کی یہ خواہش پائے تکمیل تک نہیں پہنچتی کیوں …؟ اس لئے کہ یہ انسان ان دستورات کی ترویج کے لئے اقدام نہیں کرتاجو محبتوں کو فروغ دیتے ہیں،وہ صرف چاہتاہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں لیکن اپنی طرف سے کوئی ایسا اقدام نہیں کرتا جو اس کی محبت پر دلیل بن سکے اور لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف راغب کر سکے ۔
چنانچہ اگر آئین الہی اور سیرت ائمہ پر غائرانہ نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگاکہ دوسروں کی محبتیں جذب کرنے کا بہترین ذریعہ ”تواضع و انکساری ”ہے ۔یہ اخلاقی صفت جہاں دوستی و محبت بڑھانے کاذریعہ ہے وہیں معاشرے میں انسانی ترقی کا ضامن بھی ہے اسی لئے قرآن و حدیث میں دوسروں کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے اور لوگوں کے درمیان اس کی اہمیت کو آشکار کرنے کے لئے خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کو تواضع سے پیش آنے کا حکم دیاگیاہے ،خداوندعالم کا ارشادہے:(واخفض جناحک لمن اتبعک من المومنین)اور جو صاحبان ایمان آپ کا اتباع کریں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیں۔(١)

ایک دوسری آیت میں علماء کو مومنین کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے ،ارشاد ہوا: (یا ایھا الذین آمنو من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اللہ و لایخافون لومة لائم) ایمان والو!تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گاتو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گاجو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی،مومنین کے سامنے خاکسار ، کفار کے سامنے صاحب عزت ،راہ خدامیں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرنے والی ہوگی۔(٢)

تواضع کے متعلق اتنی تاکید کا لب و لہجہ اس لئے اختیار کیاگیاکیوں کہ اس میں افراد معاشرہ کا آپسی ارتباط برقرار رہتاہے ،دوسروں کے سامنے متواضع رہنے سے انسان کی عزت و توقیرمیں کمی نہیں آتی بلکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوںمیں جذبۂ عزت بڑھتاہے اور آپس میں رشتۂ دوستی استوار ہوتاہے حضرت علی فرماتے ہیں:ثمرة التواضع المحبة و ثمرة الکبر المسبة”تواضع کابہترین ثمرہ اور نتیجہ محبت و دوستی ہے اور تکبر کانتیجہ دشمنی و عداوت ہے”۔(٣)

تواضع سے صرف ایک شخص کی سلامتی وابستہ نہیں ہے بلکہ معاشرہ کی سلامتی بھی اسی اہم صفت سے مربوط ہے ،حضرت علی فرماتے ہیں:التواضع یکسبک السلامة ”تواضع تمہاری سلامتی کسب کرتاہے” ۔(٤)

افراد معاشرہ میں تکبرکی کثرت
جس طرح تواضع و انکساری کی فضیلت میں بے شمار آیات وروایات موجود ہیں اور ان میں لوگوں کومتواضع رہنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح تکبر کی مذمت میں بھی آیات و روایات کی بہتات ہے جن میں اس بری صفت سے دور رہنے کا خصوصی حکم ہے ۔خداوندعالم کا ارشادہے:(لاتمش فی الارض مرحاانک لن تخرق الارض و لن تبلغ الجبال طولا)روئے زمین پراکڑکر نہ چلناکہ نہ تم زمین کوشق کرسکتے ہو اور نہ سر اٹھاکر پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتے ہو ۔(٥)
یہ مذموم ص

فت اتحادو اتفاق کودشمنی میں بدل دیتی ہے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ہے حضرت علی ؑفرماتے ہیں:ثمرة الکبر المسبة ۔(٦)
ان شدید مذمتوں کے باوجود آج کے افراد معاشرہ کے دلوںمیں یہ صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،لوگوں نے نام نہاد طاقت و ثروت کی وجہ سے غرور و تکبر کواپنی طبیعت ثانیہ بنالیا ہے،ہر طبقہ کاانسان اپنے اپنے انداز سے اس بری صفت کے جال میں گرفتار ہے ۔آج لوگوں کے دلوں میں دوسروں کے خلاف بدبینی اوربدخواہی کاآتش فشاں پھٹ رہاہے کیونکہ وہ متکبر اور مغرور ہیں۔

تکبر کالازمہ بدبینی ہے ،ایک مغرور شخص کی بدگمانی کاشعلہ ہمیشہ بھڑکتا رہتاہے اور وہ سب ہی کوبدخواہ اور خود غرض سمجھتاہے، اس کے ساتھ مسلسل ہونے والی بے اعتنائیوں اور اس کے غرور کوچکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نہیں ہوتیں اور بے اختیاراس کے افکار اس طرح متاثر ہوجاتے ہیںکہ جب بھی اس کو موقع ملتاہے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتاہے اور جب تک اسکے قلب کوآرام نہ مل جائے وہ چین سے نہیں بیٹھتا ۔

خاص طور سے پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افرادجب کسی اچھے منصب اور عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تووہ متکبر ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی اس حقارت و ذلت کی تلافی کرناچاہتے ہیں جو خاندانی پستی کی وجہ سے ان کی دامن گیر تھی ،ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ہیں اور ان کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنی شرافت کا چرچا کریں۔
ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جنہوں نے اپنے اس انتقامی جذبے سے مجبورہوکر نہ صرف اپنی ذات کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیابلکہ معاشرتی امن و سکون کو غارت کرنے کے بھی مرتکب ہوئے ۔ہاں!جو شخص واقعی برجستہ ہوتاہے وہ اپنے اندرکبھی بھی اس قسم کا احساس نہیں کرتا اور نہ اس بات کی کوشش کرتاہے کہ اپنی بزرگی کی نمائش کرے ۔کیونکہ وہ جان لیتاہے کہ خود نمائی سرمایۂ برتری نہیں ہے اور غرور و تکبر نے نہ کسی کوشائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و بلندی سے سرفراز کیاہے ۔حضرت علی فرماتے ہیں:آفة الشرف الکبر ”شرف و بزرگی کی آفت ”تکبر ”ہے”۔(٧)

آج کے زمانے میں تواضع و تکبر کا مفہوم بالکل تبدیل ہوچکا ہے ،لوگ اپنے سے نیچے طبقے والے افراد کے ساتھ تکبر سے پیش آتے ہیں اور اونچے طبقے والوں کے ساتھ انتہائی خاضع رہتے ہیںجب کہ رسول اسلامۖ نے ایسے تواضع کی شدیدمذمت کی ہے، آپ فرماتے ہیں:من اتی غنیا فتضعضع لہ ذھب ثلثا دینہ”جو بھی کسی ثروتمند کے پاس جائے اور اسکی ثروت کی وجہ سے اس کے ساتھ تواضع سے پیش آئے تو سمجھ لو اس کے دین کا دوتہائی حصہ برباد ہوچکا ہے” ۔(٨)

آج تکبر معاشرے کو آہستہ آہستہ شقاوت و بد بختی کی طرف کھینچ رہا ہے اور اس کی وجہ سے دوسری برائیاں بھی رائج ہو رہی ہیں اس لئے کہ غرور بہت سے خطرات کا مرکز اور مختلف جرائم کا منبع ہے ۔

راہ حل کیاہے …؟
اس خطرناک بیماری کا واحدعلاج ”خواب غفلت سے بیداری ”ہے، آج کا انسان اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرے کہ وہ ایک مسافر ہے اور ہر مسافر کو زاد راہ کی ضرورت ہوتی ہے، دنیا وآخرت کے اس سفر میں انسان کا زاد راہ اس کی اچھی اور پسندیدہ خصلتیں ہیں،اس سفر کا راستہ خوفناک ،خطرناک اور انتہائی تنگ و تاریک ہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ،اس گھٹا ٹوپ اندھیرے راستہ کی روشنی ایمان اورا عمال صالحہ ہیں اگر کسی نے صفات حسنہ کواختیار کرنے میں سستی کامظاہرہ کیا تو وہ اس صراط سے اوندھے منھ جہنم میں گر جائے گا ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ غور و فکر کرے ،سوچے کہ کل وہ بھی نہ تھا اور جب پردۂ عدم سے عرصۂ شہود میں آیاتو اس کے انتقال کا ذریعہ سب سے حقیر شے نطفہ تھا ،مختلف مرحلوں سے گذرنے کے بعد جب اس انسان نے عرصۂ گیتی پرقدم رکھا تو تمام ظاہری و باطنی ادراکات سے خالی اور کمالات سے تہی دست تھا اور جب وہ اپنے وسائل زندگی سمیٹ کر جارہاہے تو اس کا ہاتھ خالی ہے ۔کیا ایسے شخص پر تعجب نہیں جس کی ابتدا نطفہ سے ہوئی ہو ،آیاہو تو خالی ہاتھ اور جارہاہو تو تہی دست ۔ایسا انسان اگر غرور کرے تو کس چیز پر ۔حضرت علی اسی حقیقت کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عجبت للمتکبر کان بالامس نطفة و یکون غدا حیقة ”غرور و تکبر کرنے والے پر تعجب ہے کہ کل ایک نطفہ تھا اور آئندہ بھی ایک مردار سے زیادہ نہیں ہے ”۔(٩)
کیا ہمارے لئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ کائنات کے سب سے عظیم انسان ”رسول اکرمؐ”اپنی تمام ترعظمتوں ،بلندیوں اور کرامتوں کے باوجود لوگوں کے ساتھ ایسے پیش آتے تھے جیسے وہ انہیں میں ایک ہوں آپ مردوں کے ساتھ خاضع رہتے تھے تو ساتھ ہی ساتھ بچوں اور عورتوں کو بھی حترام سے نوازتے اور ان کے ساتھ تواضع سے پیش آتے تھے ۔

کیا رسول اسلام ؐکی سیرت اور آپ کا کردار ہمارے لئے اسوہ نہیں ہے ،کیاہم نے آپ کی پیروی اور اطاعت کا اقرار نہیں کیاہے ؟اگر کیاہے تو سیرت رسول پر چلنے میں ننگ و عار اور جھجھک کیسی …؟

آپ نے کبھی اپنے آپ کودوسروں سے بلند نہیں سمجھا ،ایک عورت نے آپ کی خدمت میں عرض کی :آپ کی تمام چیزیں اچھی ہیں لیکن آپ کے پاس ایک عیب ہے ، وہ یہ کہ آپ اپنے آپ کو نہیں دیکھتے اور دوسرے غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھتے ہیں؟آپ نے فرمایا :کون غلام مجھ سے زیادہ غلام ہے ”ایّ عبد اعبد منی ”۔( ١٠)

آپ بتانا چاہتے ہیں کہ زندگی کا امن و سکون تواضع کے ذریعہ ممکن ہے ،آج کے انسانوں کو چاہئے کہ وہ سیرت رسول پر عمل کرتے ہوئے اپنی امیدوں کے دامن کو کوتاہ کریں،سطح توقعات کو نیچے لائیں،اپنے کوخواہشات کے جال سے آزاد کریں،غرور و خود بینی سے دوری اختیار کریں اور قید و بند کی زندگی کو توڑ دیں تاکہ روحانی سلامتی ، معاشرتی امن و سکون اور اخروی سعادت سے ہم آغوش ہوسکیں۔

حوالہ جات
١۔شعراء ٢٤
٢۔مائدہ٥٤
٣۔غرر الحکم ص٣١٠ ح٧١٥٩
٤۔بحار الانوار ج٧٥ص١٢٠
٥۔سراء ٣٧
٦۔غرر الحکم ص٣١٠ح٧١٥٩
٧۔غرر الحکم ص٣٠٩ ح٧١٢٧
٨۔تحف العقول ص٨
٩۔نہج البلاغہ ص٤٩١حکمت١٢٦
١٠۔بیست گفتار ،شہید مطہری ص١٤٤

Related Articles

Back to top button