احادیثدانشکدہ

اطاعت و بندگی

نیند اور موت کی حالت میں اللہ کی عبادت
23- أبي رحمه الله قال حدثني سعد بن عبد الله عن عباد بن سليمان عن سدير الصيرفي عن أبي عبد الله ع قال دخلت عليه و عنده أبو بصير و ميسرة و عدة من جلسائه فلما أن أخذت مجلسي أقبل علي بوجهه و قال:

يا سدير أما إن ولينا ليعبد الله قائما و قاعدا و نائما و حيا و ميتا

قال: قلت جعلت فداك أما عبادته قائما و قائدا و حيا فقد عرفنا كيف يعبد الله نائما و ميتا قال إن ولينا ليضع رأسه فيرقد فإذا كان وقت الصلاة وكل به ملكين خلقا في الأرض لم يصعدا إلى السماء و لم يريا ملكوتها فيصليان عنده حتى ينتبه فيكتب الله ثواب صلاتهما له و الركعة من صلاتهما تعدل ألف صلاة من صلاة الآدميين و إن ولينا ليقبضه الله إليه فيصعد ملكاه إلى السماء فيقولان:

يا ربنا عبدك فلان بن فلان انقطع و استوفى أجله و لأنت أعلم منا بذلك فأذن لنا نعبدك في آفاق سمائك و أطراف أرضك

قال: فيوحي الله إليهما أن في سمائي لمن يعبدني و ما لي في عبادته من حاجة بل هو أحوج إليها و أن في أرضي‏ لمن يعبدني حق عبادتي و ما خلقت خلقا أحوج إلي منه فيقولان يا ربنا من هذا يسعد بحبك إياه

قال: فيوحي الله إليهما ذلك من أخذ ميثاقه بمحمد عبدي و وصيه و ذريتهما بالولاية اهبطا إلى قبر وليي فلان بن فلان فصليا عنده إلى أن أبعثه في القيامة

قال: فيهبط الملكان فيصليان عند القبر إلى أن يبعثه الله فيكتب ثواب صلاتهما له و الركعة من صلاتهما تعدل ألف صلاة من صلاة الآدميين

قال: سدير جعلت فداك يا ابن رسول الله فإذن وليكم نائما و ميتا أعبد منه حيا و قائما قال فقال:

هيهات يا سدير إن ولينا ليؤمن على الله عز و جل يوم القيامة فيجيز أمانه۔[1]

ترجمہ
سدیر صیرفی کا کہنا ہے: امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور ابو بصیر ،میسرہ اور کچھ دیگر اصحاب آپ کے پا س موجود تھے جب میں آپ کے پاس بیٹھا تو آپ نے میری طرف رخ کر کے مجھے فرمایا:

اے سدیر! ہمارے دوست اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ، زندہ مردہ ہر حالت میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔

عرض کیا: قربان جاوں ، اٹھتے بیٹھتے جاگتے اور زندگی میں بندگی تو سمجھ میں آ گئی لیکن نیند اور موت کی حالت میں اللہ کی بندگی کیسے ہو گی؟

فرمایا: جب ہماراکوئی چاہنے والا سر،زمین پر رکھتا ہے اور سو جاتا ہے تو حالت نماز میں جواس کے لیے دو فرشتے خلق ہوئے ہوتے ہیں اور آسمان کی طرف نہیں گئے ہوتے اس کی طرف سےوکیل بن جاتے ہیں اور اس کے پاس کھڑے ہو کرنماز پڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے خدا وند عالم ان دو فرشتوں کی نمازوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھتا ہے اس حال میں ان دو فرشتوں میں سے ہر ایک کی ایک رکعت نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے جو انسان پڑھتے ہیں۔

جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کی روح قبض ہوتی ہے تو وہ دو فرشتے آسمان کی طرف جاتے ہیں اور اللہ سے کہتے ہیں خدایا !تیرا فلاں بندہ مر گیا ہے اور تو خود اس خبر کو بہتر جانتا ہے ہمیں اجازت دے کہ ہم اس کی جگہ زمین و آسمان میں تیری عبادت کریں۔

وحی آتی ہے کہ کون آسمان میں میری اس طرح عبادت کر سکتا ہے جس طرح کا میں لائق ہوں حالانکہ مجھے اس کی عبادتوں کی ضرورت نہیں۔ بلکہ خود اس کو اس کی ضرورت ہے۔ اور کون ہے زمین میں جو کما حقہ میری عبادت کرے گا حالانکہ میں نے کسی مخلوق کو اس سے زیادہ اپنی طرف محتاج ،خلق نہیں کیا ہے ۔

فرشتے عرض کریں گے: پس کون تیری محبت کے واسطے سعادتمند ہو گا؟

وحی آئے گی: وہ شخص جس سے میں نے اپنے نبی محمد کی نبوت کا اقرار لیا اور اس کے جانشینوں کی ولایت کا عہد لیا۔ میرے فلاں دوست کی قبر میں جاو اور جب تک وہ دوبارہ زمین سے نہ اٹھے اس کے سرہانے نماز پڑھتے رہو۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ دو فرشتے زمین پر آتے ہیں اور اس شخص کی قبر میں جاتے ہیں اور عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ قیامت آ جاتی ہے اور ان دونوں کی نمازوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا ہوتا ہے کہ ان کی ہر رکعت کا ثواب ہزار رکعت کے برابر ہے۔

سدیر نے عرض کیا:قربان جاوں مولا، اس بناپر آپ کا دوست نیند اور مردہ حالت میں اس شخص سے زیادہ عابد تر ہے جو زندہ یا بیدار ہے۔

فرمایا: ہر گز اے سدیر! ہمارا دوست قیامت میں دوسروں کے لیے آتش جہنم سے امان طلب کرے گا اور اسے شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔

[1] عنہ البحار: ۳۲۷/۵ ح۲۳ و ج ۶۷/۶۸ ح ۱۲۱ و اثبات الھداۃ: ۴۵۳/۲ ح ۳۵۵ و البرھان: ۲۲۲/۴ ح ۲۱، ۵۷۴/۴۲ ح۱۔

 

نیند اور موت کی حالت میں اللہ کی عبادت

23- أبي رحمه الله قال حدثني سعد بن عبد الله عن عباد بن سليمان عن سدير الصيرفي عن أبي عبد الله ع قال دخلت عليه و عنده أبو بصير و ميسرة و عدة من جلسائه فلما أن أخذت مجلسي أقبل علي بوجهه و قال:

يا سدير أما إن ولينا ليعبد الله قائما و قاعدا و نائما و حيا و ميتا

قال: قلت جعلت فداك أما عبادته قائما و قائدا و حيا فقد عرفنا كيف يعبد الله نائما و ميتا قال إن ولينا ليضع رأسه فيرقد فإذا كان وقت الصلاة وكل به ملكين خلقا في الأرض لم يصعدا إلى السماء و لم يريا ملكوتها فيصليان عنده حتى ينتبه فيكتب الله ثواب صلاتهما له و الركعة من صلاتهما تعدل ألف صلاة من صلاة الآدميين و إن ولينا ليقبضه الله إليه فيصعد ملكاه إلى السماء فيقولان:

يا ربنا عبدك فلان بن فلان انقطع و استوفى أجله و لأنت أعلم منا بذلك فأذن لنا نعبدك في آفاق سمائك و أطراف أرضك

قال: فيوحي الله إليهما أن في سمائي لمن يعبدني و ما لي في عبادته من حاجة بل هو أحوج إليها و أن في أرضي‏ لمن يعبدني حق عبادتي و ما خلقت خلقا أحوج إلي منه فيقولان يا ربنا من هذا يسعد بحبك إياه

قال: فيوحي الله إليهما ذلك من أخذ ميثاقه بمحمد عبدي و وصيه و ذريتهما بالولاية اهبطا إلى قبر وليي فلان بن فلان فصليا عنده إلى أن أبعثه في القيامة

قال: فيهبط الملكان فيصليان عند القبر إلى أن يبعثه الله فيكتب ثواب صلاتهما له و الركعة من صلاتهما تعدل ألف صلاة من صلاة الآدميين

قال: سدير جعلت فداك يا ابن رسول الله فإذن وليكم نائما و ميتا أعبد منه حيا و قائما قال فقال:

هيهات يا سدير إن ولينا ليؤمن على الله عز و جل يوم القيامة فيجيز أمانه۔[1]

ترجمہ
سدیر صیرفی کا کہنا ہے: امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور ابو بصیر ،میسرہ اور کچھ دیگر اصحاب آپ کے پا س موجود تھے جب میں آپ کے پاس بیٹھا تو آپ نے میری طرف رخ کر کے مجھے فرمایا:

اے سدیر! ہمارے دوست اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ، زندہ مردہ ہر حالت میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔

عرض کیا: قربان جاوں ، اٹھتے بیٹھتے جاگتے اور زندگی میں بندگی تو سمجھ میں آ گئی لیکن نیند اور موت کی حالت میں اللہ کی بندگی کیسے ہو گی؟

فرمایا: جب ہماراکوئی چاہنے والا سر،زمین پر رکھتا ہے اور سو جاتا ہے تو حالت نماز میں جواس کے لیے دو فرشتے خلق ہوئے ہوتے ہیں اور آسمان کی طرف نہیں گئے ہوتے اس کی طرف سےوکیل بن جاتے ہیں اور اس کے پاس کھڑے ہو کرنماز پڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے خدا وند عالم ان دو فرشتوں کی نمازوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھتا ہے اس حال میں ان دو فرشتوں میں سے ہر ایک کی ایک رکعت نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے جو انسان پڑھتے ہیں۔

جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کی روح قبض ہوتی ہے تو وہ دو فرشتے آسمان کی طرف جاتے ہیں اور اللہ سے کہتے ہیں خدایا !تیرا فلاں بندہ مر گیا ہے اور تو خود اس خبر کو بہتر جانتا ہے ہمیں اجازت دے کہ ہم اس کی جگہ زمین و آسمان میں تیری عبادت کریں۔

وحی آتی ہے کہ کون آسمان میں میری اس طرح عبادت کر سکتا ہے جس طرح کا میں لائق ہوں حالانکہ مجھے اس کی عبادتوں کی ضرورت نہیں۔ بلکہ خود اس کو اس کی ضرورت ہے۔ اور کون ہے زمین میں جو کما حقہ میری عبادت کرے گا حالانکہ میں نے کسی مخلوق کو اس سے زیادہ اپنی طرف محتاج ،خلق نہیں کیا ہے ۔

فرشتے عرض کریں گے: پس کون تیری محبت کے واسطے سعادتمند ہو گا؟

وحی آئے گی: وہ شخص جس سے میں نے اپنے نبی محمد کی نبوت کا اقرار لیا اور اس کے جانشینوں کی ولایت کا عہد لیا۔ میرے فلاں دوست کی قبر میں جاو اور جب تک وہ دوبارہ زمین سے نہ اٹھے اس کے سرہانے نماز پڑھتے رہو۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ دو فرشتے زمین پر آتے ہیں اور اس شخص کی قبر میں جاتے ہیں اور عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ قیامت آ جاتی ہے اور ان دونوں کی نمازوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا ہوتا ہے کہ ان کی ہر رکعت کا ثواب ہزار رکعت کے برابر ہے۔

سدیر نے عرض کیا:قربان جاوں مولا، اس بناپر آپ کا دوست نیند اور مردہ حالت میں اس شخص سے زیادہ عابد تر ہے جو زندہ یا بیدار ہے۔

فرمایا: ہر گز اے سدیر! ہمارا دوست قیامت میں دوسروں کے لیے آتش جہنم سے امان طلب کرے گا اور اسے شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔

[1] عنہ البحار: ۳۲۷/۵ ح۲۳ و ج ۶۷/۶۸ ح ۱۲۱ و اثبات الھداۃ: ۴۵۳/۲ ح ۳۵۵ و البرھان: ۲۲۲/۴ ح ۲۱، ۵۷۴/۴۲ ح۱۔

بندگی پانچ چیزوں میں ہے

قالَ الإمامُ عليٌّ عليه السلام :

العُبوديَّةُ خَمسَةُ أشياءَ : خَلاءُ البَطنِ وَ قِراءةُ القرآنِ و قِيامُ اللَّيلِ و التَّضَرُّعُ عِندَ الصُّبحِ و البُكاءُ مِن خَشيَةِ اللّه ِ .

امام علي عليه السلام نے فرمایا :

اطاعت اور بندگی پانچ چیزوں میں ہے: ۱؛ بیٹ کو خالی رکھنا، ۲؛ قرآن کریم کی تلاوت کرنا، ۳؛ شب بیداری کرنا ، ۴؛ صبح کے وقت تضرع اور گریہ کرنا، ۵؛ خوف خدا سے گریہ و زاری کرنا۔
ميزان الحکمة ج7 ص12 ح11760

بندگی کا حق ادا کرنا

قالَ الإمامُ الصّادقُ عليه السلام :

ما أثنى اللّه ُ تعالى على عبدٍ من عِبادِهِ مِن لَدُنْ آدمَ إلى محمّدٍ صلى الله عليه و آله إلاّ بعدَ ابْتِلائهِ و وَفاءِ حقِّ العُبوديّةِ فيهِ فَكَراماتُ اللّه ِ في الحقيقةِ نِهاياتٌ بِداياتُها البلاءُ .

امام صادق عليه السلام نے فرمایا:

خدا وند عالم نے آدم سے لے کر خاتم تک کسی بندہ کی تعریف نہیں کی مگر پہلے اس کو آزمایا اسے بلاوں میں گرفتار کیا اور اس نے ان بلاوں میں اطاعت اور بندگی کا دامن نہیں چھوڑا۔ لہذا خدا کی کرامات در حقیقت آخر میں نصیب ہوتی ہیں البتہ ان کی ابتداء بلاوں سے ہوتی ہے۔

ميزان الحکمة ج2 ص53 ح2081

 

ولایت اور اطاعت

1ـ قال الرضا علیه السلام:

«مَنْ کَانَ مِنَّا وَ لَمْ یُطِعِ اللهَ فَلَیْسَ مِنَّا»

۱: جو شخص اپنے آپ کو ہم میں سے سمجھے اور خدا کی اطاعت نہ کرے ہم میں سے نہیں ہے۔

سفینة البحار 2/ ص 98

Related Articles

Back to top button