مقالاتکربلا شناسی

گریہ و ماتم اور دشمن کی بھول

( ارشاد حسین ناصر)
محرم الحرام ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں آچکا ہے، ہر طرف سوگ کی سیاہ چادر تن چکی ہے، پیغام کربلا کو عام کرنے کیلئے ملک کے گلی کوچوں میں حسینیوں کا اژدھام نظر آرہا ہے، سیاہ لباس پہنے ہمارے بچے، بوڑھے، جوان، مرد، خواتین ہر ایک بلا خوف و خطر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم اپنی شناخت کیساتھ گلی، گلی، کوچہ کوچہ، شہر شہر میں اس طرح پھرتے ہیں جیسے ساری زمین حسین کی ہے اور اس پر رہنے والے حسینی ہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے گلی کوچوں کی تاریخ حسینیوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ہم اس بات سے خوفزدہ نہیں کہ ہمارا لہو اس ملک کے گلی کوچوں میں بہایا گیا ہے، ہمیں اس کی پروا نہیں کہ یہ وہی گلیاں ہیں، جہاں ہمیں خون میں نہلایا گیا ہے، ہمارا راستہ روکا گیا ہے، ہمارے جوانوں پر گولیوں کی بارش کی گئی ہے، ہمارے مردوں کو بارود سے شکار کیا گیا ہے، ہماری مجالس و محافل اور امام بارگاہوں کو جلایا اور گرایا گیا ہے، ہم نے جس راستے کو منتخب کیا ہوا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے۔ ہم جانتے ہیں، ہم اہل معرفت ہیں، ہم کربلا کو پہچانتے ہیں، ہم اس کے تقاضوں سے شناسا ہیں، ہم غم حسین ؑ میں کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ دخل اندازی کرے، یہ عشق کی منزل ہے، یہ معرفت کے ایام ہیں، یہ عقیدت کے اظہار کے ایام ہیں۔

ہم حالت گریہ میں ہیں، گریہ کسی عزیز کی موت پر نہیں، زہراء سلام کے لاڈلے کے اجڑنے پر گریہ ہے، نبی مرسل کے پارہ تن کے لٹنے پر گریہ ہے، اکبر کی جوانی نیزوں سے

چھلنی ہونے کا گریہ ہے، عباس علمدار کے بازو کٹنے کا گریہ ہے، قاسم ؑ کے جسم کم سن پر گھوڑے دوڑائے جانے کا گریہ ہے، عون و محمد کے قربان ہونے کا گریہ ہے، حبیب ابن مظاہر کے پیری و بزرگی میں غسل شہادت کرنے کا گریہ ہے، ہمارا گریہ لاشوں کے پامال کئے جانے کا گریہ ہے، ہمارا گریہ مخدرات عصمت و طہارت کی چادروں کے چھن جانے کا گریہ ہے، ہمارا گریہ شش ماہے علی اصغر کے نازک گلے پر سہہ طرفہ تیر چلائے جانے پر گریہ ہے، ہمارا گریہ تین دن کے پیاسوں پر آگ برسائے جانے کا گریہ ہے، ہمارا گریہ بانی شریعت، محبوب خدا کے محبوں پر خلافت الہیہ کے دعویداروں کے مظالم پر گریہ ہے، ہمارا گریہ ہماری طاقت ہے، ہم اس گریہ سے کمزور نہیں ہوتے، ہم اس سے طاقتور ہوتے ہیں، ہم اس سے شجاعت سیکھتے ہیں، ہم اس گریہ سے استقامت سیکھتے ہیں، ہم اس گریہ سے شوق شہادت سیکھتے ہیں، ہم اس گریہ سے درس عبادت سیکھتے ہیں، ہم اس گریہ سے ظلم سے نفرت سیکھتے ہیں، ہم مظلوم کے حامی بنتے ہیں، ہم ظالموں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہیں، ہم ایثار و قربانی سیکھتے ہیں۔

کوئی اس بھول میں نہ رہے کہ وہ ہمیں جھکا سکتا ہے، کوئی بھول میں نہ رہے کہ غم حسینؑ میں رونے والوں کو ایک ذاتی ضرب لگا کے انہیں نیست کیا جا سکتا ہے، ان کا رستہ تبدیل کیا جا سکتا ہے، انہیں الجھایا جا سکتا ہے، نہیں جناب! ایسا نہیں ہوا، نہ ہوگا۔ شائد انہیں ہماری ثقافت و روایات کا علم نہیں، ان ایام میں اگر کوئی ہمارا اپنا مارا جائے یا موت کا شکار ہوجائے تو ہم اسے روتے نہیں، ہم اس کا فاتحہ نہیں لیتے، ہم صف غم نہیں بچھاتے، ہم پرسہ نہیں دیتے، اس لئے کہ ہم نے ان ایام میں اس کا غم منانا ہے، جس کا غم دعاؤں سے اپنے حصہ میں لیا ہے، ہم نے دختر نبی کو اس کے حسینؑ کا پرسہ دینا ہوتا ہے، اس لئے ہم اپنوں کا پرسہ قبول نہیں کرتے، ہم فرش عزا بچھاتے ہیں، اس لئے اپنوں کے چلے جانے کا غم اور دکھ لے کے نہیں بیٹھتے، ہم وہ نہیں جو سارا سال قبروں پہ جانے کو بدعت کہتے ہیں، مگر ایام غم حسین ؑ میں انہیں قبریں یاد آجاتی ہیں، ایام غم حسین ؑ میں انہیں اپنے مرے ہوئے یاد آجاتے ہیں، ہمیں یہ گوارا نہیں کہ ہمارے آنسو ان ایام میں کسی اور کے دکھ اور غم یا بچھڑ جانے پر نکلیں، ان دنوں یہ آنسو صرف اور صرف زہراء کے لاڈلے اور ان کے اعوان و انصاران کیلئے بہہ سکتے ہیں۔

یہ تمہاری بھول ہے کہ تم بے گناہوں کو خون میں نہلا کے ہمارا راستہ روک سکو گے، یہ تمہاری بھول ہے کہ بسوں سے اتار کے بے گناہ خواتین کو، نہتے مردوں کو گولیوں سے بھون کے ہماری مجالس و جلوسوں کی رونق کم کر سکو گے، تم تاریخ کی بزدل ترین قوم سے تعلق رکھتے ہو، تم نہتی خواتین پر بارود کی بارش کرتے ہو، یہ تمہاری مردانگی ہے، تم نے جس شام کا بہانہ بنایا ہے، وہاں تمہیں فرزندان کربلا و شہادت نے تاریخی دھول چٹائی دی ہے، تمہاری بہادری و طاقت کے نشے کو چور چور کیا گیا ہے، تمہیں منہ کی کھانا پڑی ہے اور تم وہاں سے اپنے بزرگوں کی طرح دم دبا کے بھاگے ہو، یہی تمہاری بہادری و شجاعت کی تاریخ ہے، تم صرف ایسی ہی بہادری دکھا سکتے ہو، ہم تم سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، ہم آگاہ ہیں کہ بے گناہوں کے خون سے ہولیاں کھیلنا تمہارا مشغلہ پے۔ نہتوں پر تلواریں کھینچنا تمہارا شیوہ ہے، تمہارا زور بے گناہوں اور نہتوں پر ہی چلتا ہے، تم اگر جری و بہادر ہوتے تو اسی میدان میں کھڑے رہتے، جسے تم نے سجایا تھا، ہم نے شام یا عراق کو میدان نہیں بنایا تھا، تم نے بنایا تھا، تم دنیا بھر سے جمع ہو کے لڑنے آئے تھے، وہاں کی شکست کا بدلہ معصوم اور نہتے لوگوں سے لینا چاہتے ہو، تم تاریخ کا بدترین کردار ہو جن سے نسلیں نفرت کرتی ہیں، تم اپنی نسلوں کیلئے شرمندگی کے علاوہ کیا ورثہ چھوڑ کے جا رہے ہو۔؟

ایام عزا میں ہمیں کسی ڈر یا خوف کا شکار کرنا، موت سے ڈرانا، بم دھماکوں اور گولیوں کی برسات سے راستے سے ہٹانا ممکن ہی نہیں، قسم بہ خدا ہماری تاریخ ہے کہ جہاں پر پابندی یا خطرہ محسوس کرتے ہیں، وہاں رش کر لیتے ہیں، ہم ان جلوسوں کیلئے کسی کو دعوت نہیں دیتے، تم دیکھتے نہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بن بلائے آجاتے ہیں، نہ کوئی دعوت نامہ چھپتا ہے، نہ نقارہ بجتا ہے، نہ بسیں چلائی جاتی ہیں، نہ دیہاڑی دی جاتی ہے، اس کے باوجود جلوسوں کی رونق ہر سال سے زیادہ ہوتی ہے۔ پھر تمہاری گولیاں، تمہارے بارود سے لدے جہنمی کتے کہاں گئے، تمھاری سازشیں، تمھاری دھمکیاں اور دھونس کس کام کے، یہ عزاداری تو روز بروز بڑھ رہی ہے، ایک ملک سے دوسرے ملک، اب تو محرم میں صرف ایران نہیں، عراق نہیں، یمن نہیں، بحرین نہیں، سعودیہ نہیں، پاکستان نہیں، لبنان نہیں، ہندوستان نہیں، اب تو یورپ و امریکہ میں بھی جلوسوں کا طویل سلسلہ ہے، اب تو روس اور چائنہ میں بھی حسین کا غم منایا جا رہا ہے، کوئی روک سکتا ہے تو روک لے، کھلا چیلنج ہے، یہ بادشاہتوں سے نہیں رکی، یہ تاریخ کے بدترین ظالموں سے نہیں رکی، یہ بازو کٹوا کے بھی جاری رہی، یہ جگر گوشے لٹوا کر بھی جاری رہی، یہ دیواروں میں چنوا کے بھی جاری رہی، یہ آئندہ بھی جاری رہیگی، جب تک اس کا اصل اور حقیقی صاحب عزا ظہور نہیں فرما لیتا اور ایک بار پرچم حسینیت جو ظالمین کے خاتمے اور مظلومین و مستضعفین کے طاقتور ہونے کی دلیل ہے، ساری دنیا پر چھا نہیں جاتا، کمزور بنا دیئے گئے لوگوں کو اقتدار و طاقت کا وعدہ پورا نہیں کر دیا جاتا، عدل کا وعدہ الٰہی پورا نہیں ہوجاتا، یہ میدان سجا رہیگا۔ ہم اسی میدان میں رہینگے۔ بقول اقبال
حقیقت ابدی ہے مقام شبیریؑ
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
اور جوش ملیح آبادی کے بقول:
موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا
ہاں مگر نامِ حسین ؑ ابن علی ؑ رہ جائے گا

Related Articles

Back to top button