حضرت ابوذر غفاریؓ
رسول اکرمﷺ کے عظیم صحابی حضرت ابوذر غفاری ؓکو معاویہ نے حضرت عثمانؓ کے حکم پر شام سے مدینہ واپس بھیجا۔
بے کجا وہ اونٹ پر مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے ان کی رانیں زخمی تھیں اور ان میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی،وہ اپنے عصا پر ٹیک لگائے دربار عثمان میں حاضر تھے کہ انہوں نے دیکھا خلیفہ کے سامنے درہم و دینار کا بہت بڑا ڈھیر لگا ہوا ہے اور لوگ بھی اس نیت سے جمع ہیں کہ شاید یہ دولت تقسیم ہو تو انہیں بھی کچھ حصہ مل جائے۔
جب حضرت ابوذرؓ کی نظر اس دولت پر پڑی تو خلیفہ سے پوچھا یہ کس کی دولت ہے؟ خلیفہ نے کہا:مختلف علاقوں کے گورنروں نے ایک لاکھ درہم بھیجے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ایک لاکھ درہم مزید آجائیں تو اسے مسلمانوں میں تقسیم کروں۔
حضرت ابوذرؓ نے کہا:ایک لاکھ درہم زیادہ ہیں یا چار درہم؟
خلیفہ نے کہا:ایک لاکھ درہم زیادہ ہیں۔
حضرت ابوذرؓ نے کہا:تمہیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ ہم ایک رات رسول مقبول ﷺ کی خدمت میں گئے تھے تو آپ بہت اداس تھے،آپ نے ہم سے کوئی خاص گفتگو نہ فرمائی اور جب صبح ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بہت خوش تھے،ہم نے آپ سے پوچھا:یا رسول اللہؐ!کل رات آپ اداس کیوں تھے؟
آپ نے فرمایا: رات کو میرے پاس مسلمانوں کے مال میں سے چار درہم بچ گئے تھے،ان کی وجہ سے میں ساری رات بے چین رہا کہ کہیں ان کی تقسیم سے پہلے مجھے موت نہ آجائے اور اب میں نے وہ چار درہم تقسیم کر دئیے ہیں اسی لیے خوش ہوں۔
خلیفہ نے کعب الاحبار کی طرف دیکھا اور کہا تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر خلیفہ کچھ مال تقسیم کرے اور کچھ مال اپنے پاس رکھ لے تو اس میں کوئی مضائقہ ہے؟
کعب الاحبار نے کہا: اگر خلیفہ ایک ایسا محل تعمیر کرائے جس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہوتو بھی اس میں کوی مضائقہ نہیں ہے۔
حضرت ابوذرؓ کو غصہ آیا،اپنا عصا کعب الاحبار کے سر پر مارتے ہوئے کہا:یہودی کی اولاد!احکام اسلام سے تجھے کیا واسطہ؟تو سچا ہے یا اللہ؟اللہ کا واضح فرمان ہے:
’’ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ , يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ‘‘
وہ لوگ جو سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توانہیں درد ناک عذاب کی خبر دیجئے،جس دن اس سونے چاندی کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا(انہیں کہا جائے گا)یہ وہی ہے جسے تم اپنے لیے جمع کرتے تھے تو اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔
خلیفہ نے ناراض ہو کر کہا:ابوذرؓ! بڑھاپے کی وجہ سے تم سٹھیا گئے ہو،اگر مجھے تمہارے متعلق صحبت رسولؐ کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کردیتا۔
حضرت ابوذرؓ نے کہا:تم جھوٹ بولتے ہو،تم مجھے قتل نہیں کرسکتے ،مجھ سے پیغمبرؐ نے فرمایا تھا:ابوذرؓ!لوگ تجھے نہ تو دین سے نکال سکیں گے اور نہ ہی قتل کرسکیں گے۔
آج بھی مجھ میں اتنی عقل ہے کہ میں تمہیں وہ حدیث سنا سکتا ہوں جو رسول خداﷺ نے تمہارے متعلق فرمائی تھی۔
خلیفہ نے کہا:بتائو رسول خدا ﷺ نے کیا کہا تھا؟
حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ رسالت مآبﷺ نے فرمایا تھا: جب ابوالعاص کے گھرانے کے افراد کی تعدا تیس ہوجائے گی تو وہ مال خدا میں نا جائز تصرف کریں گے اور مال خدا کو اپنے ہاتھوں میں ہی گردش دیتے رہیں گے،لوگوں کو غلام اور ظالموں کو اپنا مددگار بنائیں گے اور اللہ کے بندوں اور اصحاب پیغمبرؐ پر ظلم کریں گے۔
خلیفہ حدیث سن کر سکّتے میں آگئے اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے:کیا تم میں سے بھی کسی نے یہ حدیث سنی ہے؟
سب نے کہا:ہم نے یہ حدیث نہیں سنی،اس کے بعد حضرت علیؑ کو بلایا گیا اور آپ سے کہا گیا:یا علیؑ!دیکھئے ابوذرؓ نے رسول کریمﷺ پر کتنا بڑا جھوٹ باندھا ہے۔
حضرت علیؑ نے فرمایا: ابوذرؓ کو جھوٹا نہ کہو کیونکہ میں نے رسول کریمﷺ سے خود سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:’’مَا أَظَلّت الْخَضْرَاءُ ولاَ أَقَلّت الغَبْرَاء أَصْدَقَ مِنْ أَبي ذَرّ‘‘ آسمان نے کسی ایسےشخص پر سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی ایسے شخص کو اپنے اوپر نہیں اٹھایا جو ابوذرؓ سے زیادہ سچا ہو۔
وہ تمام لوگ جو چند منٹ پہلے ابوذرؓ کو جھٹلا چکے تھے بیک زبان بولے کہ ہم نے رسول کریمﷺ کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور حضرت علیؑ سچ کہہ رہے ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوذرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے کہا: لوگو! تم پر افسوس۔تم نے مال دنیا کے لئے اپنی گردنوں کو جھکایا ہوا ہے اور مجھے جھوٹا کہتے ہو اور سمجھتے ہو کہ میں اس بڑھاپے میں رسول کریم ﷺ پر جھوٹ بولتا ہوں،پھر حضرت ابوذرؓ نے خلیفہ سے مخاطب ہو کر کہا: اچھا یہ بتائکو کہ ہم دونوں میں سے کون افضل ہے؟
خلیفہ نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ تم ہم سے افضل ہو۔
حضرت ابوذرؓ نے کہا:ہاں!ایسا ہی ہے،وفات رسولؐ سے لے کرآج تک میں نے ایک جبہ میں گزارا کیا ہے اور میں نے دینار کے بدلے اپنا دین بیچا نہیں جبکہ تم نے دین میں کئی بدعتیں داخل کی ہیں اور دنیا کی محبت میں تم نے اپنا دین خراب کرلیا ہے،تم نے خدا کے مال میں ناجائز تصرف کیا ہے،اللہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لے گا اور مجھ سے کوئی حساب نہیں لے گا۔
(حوالہ جات)
(سورہ توبہ:آیت۳۴،۳۵)
(حیات القلوب ج۲،ص۶۷۴)