اسلام میں علوم کی وسعت
سوال ۳۴:۔ پیغمبراکرم ﷺ سے ایک حدیث میں آیا ہے اطلبو العلم ولو بالصین، کیا اس سے آنحضرت ﷺ کی مراد اخلاقی و اعتقادی اور اس جیسے علوم ہیں یا فزکس، ریاضی و دیگر کو بھی شامل ہے ؟
علوم کی دو قسمیں ہیں، بعض علوم سعادتِ دنیا کے علاوہ انسان کی آخرت کی سعادت کو بھی پورا کرتے ہیں، یعنی انسان کو اس کے ملکوت سے آشنا کرتے ہیں، جیسے علمِ توحید، معرفتِ نفس و اخلاق، یہ پہلے درجہ کی اہمیت رکھتے ہیں اور دوسرے علوم جیسے فزکس، ریاضی وہ علوم ہیں جو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیں، دین اسلام کیونکہ دنیا و آخرت کاجامع ہے، وہ علم جو معاشرہ کی ضرورت ہے اور انسان کے تدین و تمدن میں تعمیری اثر رکھتا ہے کو جائز قرار دیتا ہے، البتہ ان علوم کی تحصیل کے مراتب ہیں، کبھی واجب عینی اور کبھی واجب کفائی ہے، اس بناپر درج بالا حدیث فزکس، کیمسٹری، ریاضی اور ان جیسے علوم کو بھی شامل ہو گی لیکن اگر کوئی فزکس دان، ریاضی دان ہو تو اسے جاننا چاہیے کہ بہترین سیڑھی اس کے اختیار میں ہے تاکہ ترقی کرے اور اوپر جائے نہ کہ کنواں کھودنے والے کی طرح خود کنویں میں گر جائے ۔
آپ آج کی دنیا کی چھان بین کریں تو دیکھیں گے کہ عالمی بجٹ کا مہم ترین حصّہ معاشرہ کشی، اسلحوں، مفاسدِ اخلاقی، منشیات کی سمگلنگ اور اس جیسے امور میں خرچ ہوتا ہے اور بہت کم حصّہ لوگوں کے کھانے پینے میں صرف ہوتا ہے، درحالانکہ اسلام کا پیغام کچھ اور ہے۔
مرحوم کلینیؒ اصول کافی میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص امامؑ کی زیارت کے لیے آیا اور عرض کی کافروں کے دو گروہوں میں جنگ ہو رہی ہے اور آج کل اسلحہ کی خرید و فروخت نفع بخش ہے، آپ اجازت دیتے ہیں کہ ان کو اسلحہ بیچیں یا نہیں؟ حضرتؑ نے جواب دیا جو تحلیل و تجزیہ کے بعد تین فتوئوں میں ظاہر ہوا، فرمایا:
۱ ۔ بیچو
۲ ۔ دونوں گروہوں کو بیچو
۳ ۔ دفاعی اسلحہ بیچو نہ کہ تباہ و قتل کرنے والا
ڈھال، زرہ وغیرہ بیچو لیکن تیر، تلوار، نیزہ نہ بیچو، اس کو کہتے ہیں وہ بنیادی علم جو ان ملکوتی انجینئرز کے پاس ہے۔
اس علم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ چین تک جائو اور اسے یاد کرو، یعنی ہر علم جو انسان کو اخلاقِ الٰہی سے متخلق کرتا ہے، فزکس ہو یا ریاضی، طب ہو یا فقہ اگر اس اصلی خاصیت کو رکھتا ہو تو اہمیت رکھتا ہے لیکن اگر انسان کو خدا کے نزدیک نہیں کرتا تو جو کچھ بھی ہو اگرچہ علمِ دین ہی کیوں نہ ہو فائدہ نہیں رکھتا ۔