اسلامی حکومت کے مدارج صورتیں اور ڈھانچہ
امامت اورخلافت
سوال۱۰:امامت اور خلافت کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کریں کہ ان دو کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟کیا یہ ایک دوسرے کے متضادہیں؟
اگرامامت اور خلافت کے لغوی معنی کو سامنے رکھیں توپھریہ آپس میں متضاد نہیں بلکہ مترادف ہیں اور خلیفہ کو امام بھی کہا جاتا ہے، لیکن اگر ان کے پس منظرکو دیکھیں جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں دو مذہب وجود میں آئے اور ان دو واقعات اوردو قسم کی قیادتوں کو ملاحظہ کریںاوربالخصوص اسلامی نصوص میں تعیّن کیے گئے معیاروں اوراصولوںکومدنظررکھیں تو پھرواضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ دین جس نظامِ حکومت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے وہ نظا مِ امامت و ولایت ہے۔
اس کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے : ۔
پہلا:قرآن دلالت کرتا ہے کہ امامت ایک الٰہی عہدہ اور منصب ہے ، یہ صرف ان افراد کے لیے ہے جو بہت خاص صلاحیتوں اور خصوصیات کے حامل ہوں ۔
قرآن فرماتاہے:
وَاِذِابْتَلٰی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ۔ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ ۔ قَالَ لاَ یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ (۱)
جب ابراہیم ؑکو اس کے ربّ نے مختلف ذریعوں سے آزمایا اور وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو اللہ نے اسے فرمایا:میں نے تجھے لوگوں کا امام اور رہبر بنایاہے،ابراہیمؑ نے عرض کیا:میری نسل میں سے بھی امام قراردے،اللہ نے فرمایا:میرایہ عہد ظالموں کونہیں پہنچے گا،(تیری اولادمیں سے صرف ان افرادکویہ عہدہ ملے گاجوپاک اورمعصوم ہوں گے۔
اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ۔
۱۔امامت ، الٰہی عہدو پیمان ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے ۔
۲۔ظالمین (خواہ نظریاتی ہوں یا عملی لحاظ سے ) اس منصب کے قابل اور لائق نہیں ہیں اگرچہ وہ الوالعزم پیغمبر جناب ابراہیم ؑ کی نسل سے ہی کیوں نہ ہوں ۔
۳۔روایات و احادیث دلالت کرتی ہیں کہ امامت اور رہبریت آئمہ اہل بیت ÷ کیساتھ مختص ہے۔
ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور حدّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر احادیث اہلسنت کی معتبر کتب میں بھی پائی جاتی ہیں :
مثلاًرسول خدا ؐنے فرمایا :
لا تزال ھذہ الامۃ مستقیما امرھا ، ظاھرۃ علی عدوّھا حتی یمضی منھم اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش (۲)
اس امت کے معاملات درست ڈگر پر چلیں گے جب تک ان پر بارہ خلفاء حکمرانی نہ کریں اور وہ سب قریش سے ہیں ۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس امت کے امور درست رہیں گے جب تک بارہ افرادان پرحکمران رہیں۔(۳)
اس طرح کی روایات شیعہ اور سنی کتب میں بکثرت موجود ہیں ، ان روایات کی تفسیر میں دیگر احادیث بھی نقل ہوئی ہیں ، جیسا کہ امام جوینی ( امام الحرمین ) نے عبداللہ بن عباس سے بیان کیا ہے کہ پیغمبر ِاکرم ﷺؐ نے فرمایا :
انا سید النبیین و علی ابن ابی طالب ؑ سید الوصیین وان اوصیائی بعدی اثنا عشری اولھم علی بن ابی طالب و آخرہم المہدی (۴)میں تمام نبیوں کا سردار ہوں اور علی بن ابی طالبؑ تمام اوصیاء کے سردارہیں اور میرے بعد میرے بارہ اوصیاء ہوں گے جن میں سے پہلے علی بن ابی طالب ؑاور آخری مہدیؑ ہوں گے۔(۵)
سوم: ولایت فقیہ کے دلائل جن پر علیحدہ سے بحث و گفتگو کی ضرورت ہے ۔
(حوالہ جات)
(۱)سورہ:بقرہ آیت : ۱۲۴
(۲) منتخب کنز العمال ، ج ۵ ، ص ۳۲۱ ، تاریخ ابن کثیر ، ج ۶ ، ص ۲۴۹ ، تاریخ الخلفاء سیوطی ،ص ۱۰ ، کنز العمال ، ج ۱۳ ، ص ۲۶ ، الصواعق المحرقہ ، ص ۲۸
(۳) ندوی ، شرح صحیح مسلم ، ج ۱۲ ، ص ۲۰۲ ، الصواعق المحرقہ ، ص ۱۸ ، تاریخ الخلفاء سیوطی ، ص ۱۰
(۴) فرائد السمطین ، ش ۱۱۶۴ (۵)اس بارے میں مزید آگاہی کے لیے دیکھیں ، عسکری ، علامہ سید مرتضیٰ ، امامان این امت دوازدہ نفرند