مقبول دعا
حضرت یونسؑ نےاپنی قوم میں تیس سال تک تبلیغ کی لیکن صرف دو آدمی ایمان لائے،ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم تھا۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ خدا کا ارشاد ہے:ہم نے جس قوم پر عذاب کا وعدہ کیا ہم نے وہ عذاب کبھی دور نہیں کیا سوائے حضرت یونسؑ کی قوم کے۔
حضرت یونسؑ نے دن رات لوگوں کو دین کی دعوت دی لیکن ان دونوں کے علاوہ کوئی ایمان لانے پر تیار نہ ہوا،آپ ؑنے عابد کی تجویز پر قوم کو بددعا دینے کا ارادہ کرلیالیکن عالم نے عرض کی:آپؑ بددعا نہ فرمائیں،خدا آپؑ کی بددعا کو رد نہیں کرے گا لیکن خدا رحمٰن بھی ہے وہ اپنے بندوں کی یوں ہلاکت پر بھی راضی نہیں ہوگا۔
حضرت یونسؑ نے عابد کے مشورے کو ترجیح دی اور قوم کے لیے بددعا کی۔
خدا نے یونسؑ کو وحی فرمائی کہ فلاں روز،فلاں وقت میرا عذاب نازل ہوگا۔
عذاب کی تاریخ آئی تو حضرت یونسؑ عابد کو لے کر شہر سے چلے گئے لیکن عالم وہاں ٹھہرا رہا،جب عذاب کا وقت آیا اور عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو حضرت یونس ؑکی قوم  بہت گھبرائی،انہوں نے حضرت یونسؑ کو بہت تلاش کیا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیئے۔
عالم نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا:اگر حضرت یونسؑ یہاں نہیں ہیں تو تم ان کے خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگو،شاید اسے تم پر رحم آجائے۔
قوم نے عالم سے پوچھا کہ ہم کیسے گڑ گڑائیں کہ اللہ ہم پر رحم کرے؟
عالم نے سوچ کر کہا:تم لوگ اپنے مال و مویشی سمیت ایک کھلے میدان میں جمع ہوجائو،شیر خوار بچوں کو مائوں سے جدا کردو،مویشیوں کے بچے بھی ان کی مائوں سے الگ کردو اور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
لوگوں نے عالم کے حکم پر عمل کیا،چھوٹے بچے رونے لگے،جانور علیحدہ آوازیں نکالنے لگے،اللہ کا عذاب ظاہر ہونا شروع ہوا اور ہر طرف تاریکی پھیلنے لگی جبکہ قوم یونسؑ رو رو کر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگی،ان کی یہ ادا دیکھ کر خدا کو ان پر رحم آگیا اور آیا ہوا عذاب ٹل گیا۔
عذاب کی تاریخ گزر گئی،حضرت یونسؑ بربادی اور تباہی کا منظر دیکھنے اپنے علاقے میں واپس آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سب لوگ اپنے معمول کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں،آپ ؑنے ایک شخص سے پوچھا کہ قوم یونسؑ کا کیا بنا؟
اس نے کہا:حضرت یونسؑ نے قوم کے لیے بددعا کی تھی اور خدا نے عذاب کا وعدہ بھی فرمایا تھا مگر عذاب کے وقت تمام لوگ ایک میدان میں جمع ہوگئے اور انہوں نے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی تو خدا نے قوم پر رحم کیا اور آیا ہوا عذاب ٹل گیا،اس وقت پوری قوم کو ان کی تلاش ہے اور ہم سب ان کے ہاتھ پر ایمان لانا چاہتے ہیں۔
یہ سن کر حضرت یونسؑ بہت افسردہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:’’وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ  مُغَاضِباً فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَـيْهِ‘‘دریا کنارے تشریف لائے تو ایک کشتی روانگی کے لیے بالکل تیار کھڑی تھی،آپ ؑاس پر سوار ہوئے اور کشتی کے اگلے حصے پر بیٹھ گئے،کشتی چل پڑی جب دریا کے بیچ میں پہنچی تو اچانک ایک بہت بڑی مچھلی نکل آئی،ملاح اس مچھلی کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔
حضرت یونسؑ مچھلی سے خوفزدہ ہوکر کشتی کی پچھلی طرف آگئے مگر وہ مچھلی فوراً پچھلے حصے کی طرف آئی،تمام مسافروں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا۔
ملاحوں نے کہا: معلوم ہوتا ہے کہ اس کشتی میں کوئی ایسا غلام سوار ہے جو اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہے،اس غلام کو چاہیے کہ باقی مسافروں کی جان بچانے کے لیے خود ہی دریا میں چھلانگ لگا دے لیکن کسی نے چھلانگ نہ لگائی۔
آخر کار قرعہ اندازی ہوئی کہ کس شخص کو کشتی سے دھکا دے کر دریا میں ڈالاجائے؟ قرعہ حضرت یونسؑ کے نام پر نکلا۔
حضرت یونس ؑ نے فوراًچھلانگ لگائی اور مچھلی نے انہیں نگل لیا۔
ابی الجارود امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت یونسؑ پورے تین شب و روز مچھلی کے پیٹ میں رہے اور اس عالم میں بھی اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے تھے:’’فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‘‘انہوں نے تاریکیوں میں ندا دی کہ اے اللہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو پاک ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہوں۔
قرآن مجید میں ہے:’’فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنه إِلَى يَوْم يُبْعَثُونَ‘‘اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور مچھلی نے انہیں ساحل پر اگل دیا،جب  آپؑ مچھلی کے پیٹ سے نکلے تو آپؑ کی جلد سے بال اتر چکے تھے اور آپؑ کی جلد بہت نازک ہوچکی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کدو کا درخت اگایا،آپؑ اس کے سائے میں آرام کرتے رہے،آخرکار آپؑ کی جلد مضبوط ہوگئی اور آپ ؑتندرست ہوگئے تو آپ نے دریا کے کنارے چلنا پھرنا شروع کیا،جب اپنی جگہ واپس آئے تو دیکھا کہ کدو کی بیل خشک ہوچکی تھی،یہ دیکھ کر آپؑ بہت غمگین ہوئے،اس وقت انہیں آواز قدرت سنائی دی: اے یونسؑ!کیوں غمگین کھڑے ہو؟
آپؑ نے عرض کیـ:یااللہ!یہ بیل سوکھ گئی ہے،میں اس کے سائے میں آرام کیا کرتا تھا اسی لئے میں غمگین ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے یونسؑ!یہ بیل تم نے اپنے ہاتھوں کاشت نہیں کی تھی اور نہ ہی تم نے اسے پانی دیا تھا،یہ سوکھ گئی تو تم غمگین ہوگئے لیکن ایک لاکھ سے زائد ہماری مخلوق کی بربادی کی دعا کرتے وقت تو تم غمگین نہیں ہوئے،آخر میں نے انہیں پیدا کیا تھا اور انہیں رزق دے کر پروان چڑھایا،وہ میری مخلوق تھے اور میری مخلوق بہت پیاری ہے،اب تم قوم کے پاس واپس چلے جائو،انہیں تمہارا شدت سے انتظار ہے۔
آپؑ حکم خداوندی سن کر قوم کے پاس واپس تشریف لے آئے اور پوری قوم ان کے ہاتھ پر ایمان لے آئی ۔
(حوالہ)
(بحارالانوار)