غرور کا سر نیچا
۴۶۵ھـ میں سلطان الپ ارسلان نے پورے ایران کو فتح کیا،اس کے بعد وہ ماداراء النہر کو فتح کرنے کے ارادے سے چلا اور دریائے جیحون عبور کر کے اس نے قلعہ رزلم پر فتح کا جھنڈا گاڑ دیا،اس قلعے کے محافظ یوست کوتوال خوارزمی کو سلطان ارسلان کے سامنے پیش کیا گیا،سلطان نے یوسف سے چند سوالات کئے جن کے جواب یوسف نے بڑی تیزی اور درشتی سے دئیے،سلطان نے حکم دیا کہ اس گستاخ کو سخت ترین سزادی جائے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے آجائے۔
اتنے میں یوسف کوتوال اپنے موزے سے ایک چھری نکال کر اچانک سلطان پر حملہ آور ہوا،سلطان کے محافظ اس کو روکنے کے لیے آگے بڑھے مگر سلطان نے تمام محافظوں کو روک دیا اور کہا کہ وہ اسے کچھ نہ کہیں،میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا، سلطان کو اپنی تیر اندازی پر بڑا ناز تھا اور وہ دشمن کو اہمیت دینے پر تیار نہ تھا،سلطان نے اپنے ترکش سے تین تیر نکال کر اس کی طرف پھینکے مگر تینوں تیر خطا گئے،یہ دیکھ کر سلطان تخت چھوڑ کر اس سے دست بدست لڑائی کرنے تخت سے اترنے لگا تو اس کا دامن تخت کے ایک کونے میں پھنس گیا،اتنے میں یوسف کوتوال نے آگے بڑھ کر اس پر اپنی چھری کے پے در پے وار کئے،سلطان کا وفادار سعدالدولہ،سلطان کو بچانے کے لیے آگے آیا تو یوسف نے اسے بھی زخمی کردیا،چند سپاہیوں نے آگے بڑھ کر مشکل سے یوسف کو قابو کرلیا مگر وہ سلطان کو شدید زخمی کرچکا تھا۔
اس دن سلطان نے مرنے سے پہلے کہا:آج کا دن میرے لیے بڑا منحوس ثابت ہوا کیونکہ آج میں دو مرتبہ خود پسندی اور تکبر کا شکار ہوا جبکہ آج سے پہلے میرے اندر اتنی خود پسندی کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی،پہلی مرتبہ میں اس وقت خود پسندی کا اسیر ہوا جب میں نے ٹیلے پر کھڑے ہوکر اپنی فوج کا معائنہ کیا تو میں نے بڑے غرور سے کہا کہ دنیا میں مجھے کوئی شکست نہیں دے سکتا،میں ناقاابل تسخیرہوں اور دوسری مرتبہ میں اس وقت خود پسندی کا شکار ہوا جب یوسف نے مجھ پر حملہ کیا تو میں نے اپنی قوت بازو پر ناز کرتے ہوئے اپنے محافظوں کو روک دیا اور کہا کہ میں اکیلا اس سے نمٹ لوں گا اور یہی خود پسندی مجھے لے ڈوبی۔
آخر کار انہیں زخموں کی وجہ سے سلطان مرگیا اور اسے شہر مرومیں دفن کیا گیا۔
(حوالہ)
(اخلاق روحیص۳۰۵)