Nasihatenکتب اسلامی

(حصہ اول)حفاظت ِ نفس

۱۔ اپنے نفس کی حفاظت
یہ توفیقِ الٰہی ہے کہ ہم بارگاہِ ملکوتی امام علی بن موسیٰ الرضا ؑ کے جوار میں طالب علم بہنوں،بھائیوں کے اجتماع میںشریک ہیں، اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اس خاندانِ ولایت کی برکت سے ہم سب کودنیا و آخرت کی حسنات و نیکیوں سے فیضیاب کرے اور قرآن و عترت کے عاشقوں کو اس عظیم فیض سے مستفید کرے۔
ہم جس عمر میں بھی ہوں ہماری اہم ترین مشکل خود ہمارا وجود ہے، جس طرح اسرائیل فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس سرزمین کے مالکوں کووہاں سے باہر نکال دے، اس بات کو سب سمجھتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، اسی طرح ہمارا باطنی و داخلی دشمن یعنی شیطان بھی ایسا ہی کام کرتا ہے، وہ ہمارے وجود کی سرزمین پر قبضہ کر لیتا ہے اور ہمیں اپنے آپ سے باہر نکال دیتا ہے اور خود ہماری جگہ بیٹھ جاتا ہے اور ہمارے ہی بارے میںوہ فیصلہ کرتا ہے اور حکم چلاتا ہے۔
ممکن ہے ایک انسان پوری عمر شیطان کے زیرِ تسلط رہے اور اس کی زندگی کی زمین شیطان کے ذریعے قبضہ کر لی گئی ہو، یعنی شیطان اس کی جگہ بولے، ارادہ وفیصلہ کرے اورحکم چلائے اور وہ شخص سمجھے کہ یہ کام وہ خود انجام دے رہا ہے، شیطان مال، جان، گھر، زندگی سے کوئی سروکار نہیں رکھتا، وہ نہیں چاہتا کہ ہمیں ختم کر دے کیونکہ شیطان کی جنگ چھوٹی جنگ نہیں، بہت بڑی جنگ ہے ۔
چھوٹی جنگ میں دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان کو شکست دے اور قتل کر دے لیکن عظیم جنگ ایسی نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ ہمیں قتل کر دے، وہ ہمیں قید کرنا چاہتا ہے، اس وجہ سے ہمارا اس سے زیادہ اہم کوئی کام نہیں کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں اور اپنے نفس کے محافظ بنیں اور اپنے بارے میں خودفیصلہ کر یں۔ البتہ یہ چھوٹا کام نہیں اس کے لیے گہری عقل اور طہارتِ روح ضروری ہے، اگر یہ دو عناصر جمع ہو جائیں تو انسان کو کہتے ہیں کہ خود اپنے نگہبان بنو یعنی اگر کوئی بہت ہی عقل مند، مفکّر وپاکیزہ ہو تو اسے کہتے ہیں کہ یہیں پر نگہبان و محافظ بن کررہوتاکہ کوئی اور تمہاری جگہ فیصلہ و ارادہ نہ کرے۔
عرفاء کی پوری کوشش یہی ہے کہ:
الف: اس سرزمین کی حفاظت کریں تاکہ غیر قابض نہ ہو۔
ب: اپنے آپ کو میزبان سمجھیں اور اپنی روح کی، امانتِ الٰہی کے عنوان سے حفاظت کریں ۔
ج: کوئی اور ان کی جگہ پر نہ آ بیٹھے اور فیصلہ نہ کرے، یہ مومنین و عارفین کا کام ہے۔
یعنی وہ چاہتے ہیں کہ کوئی غیریا خیالِ خام، کینہ، باطل و گناہ وغیرہ ان کے دل کے پر امن حرم میں داخل نہ ہو سکے، اس قلبی میدان کو پاک کریں اور اپنے لیے خود فیصلہ کریں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ابدیت کے ساتھ مربوط ہیں اور ان کا علم محدود ہے لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ اس رسی کو صرف اللہ کے سپرد کریں تاکہ وہ ان کی جگہ بیٹھے اور ارادہ کرے، اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو اپنے وجود کو ہار جاتا ہے، تینوں مرحلوں میں تباہی سے دوچار ہے، یعنی پہلے وہ راستوں کو غیر محفوظ کرتا ہے، دوسرے مرحلہ میں اس کے حرمِ قلب میںڈاکوو راہزن داخل ہو جاتے ہیں اور بالآخر جب اس سرزمین پر قبضہ کر لیتے ہیں تو گھر کے مالک کو باہر بھگا دیتے ہیں اور اس کے مطلق حاکم و فرمانروا بن جاتے ہیں اور گھر کے مالک کوکہتے ہیں کہ یہ باتیں جو ہم کر رہے ہیں، یہ تیری ہی باتیں ہیں، یہ وہ علوم نہیں جو حوزہ علمیہ ودینی مرکزیا یونیورسٹی میں حاصل کیے جا سکتے ہیں، یہ علمِ وحی ہے اور انبیاء بھی اسی لیے آئے ہیں۔
البتہ انبیائے کرام بیشمار علوم بشر کے لیے ہدیہ لے کر آتے ہیں مگر سب سے اہم یہی ہے، کیونکہ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انسان نہ تو سائنس و ٹیکنالوجی کے وسائل کی پیشرفت سے یاد کر سکتا ہے اور نہ ہی ریاضی و فزکس اور کیمسٹری وغیرہ کے مسائل کی پیشرفت سے ۔
ہم آلات سے استفادہ کرتے ہوئے دوراور جدید کشف شدہ کہکشا ئوں اور جو کچھ زمین میں چھپا ہوا ہے اسے دیکھ سکتے ہیں لیکن معانی کو ان صورتوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکتے ۔
دو آدمی رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ؐ نے انہیں کھانا کھانے کی دعوت دی، انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے، تو آپ ؐ نے فرمایا : نہیں آپ نے روزہ نہیں رکھا ہوا، میں تمہارے نظامِ ہاضمہ میں گوشت کھانے کی علامت دیکھ رہا ہوں، انہوں نے عرض کی: ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور کوئی چیز نہیں کھائی، آنحضرت ؐ نے حکم دیا کہ طشت حاضر کیا جائے اور پھر انہیں حکم دیا کہ قے کریں تو ان کی قے سے گوشت طشت میں آگرا اورجو ان کے تعجب کا باعث بنا، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم نے کوئی چیز نہیں کھائی، تو آپ ؐ نے فرمایا: تم نے مومن بھائی کی غیبت کی ہے، یہ اس کا گوشت کھانے کی طرح ہے، اگر اس کا کوئی مسئلہ تھا تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے کہنا نہ صرف عیب نہیں رکھتا تھا بلکہ آپ پر لازم تھا کہ اس سے بات کرتے اور اس کی رہنمائی کرتے، یہ جو تم نے اس کی (عدم موجودگی میں) عزت برباد کی ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے تم نے اس کا جسم کھایا ہو، وہ تو اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا ۔
قرآن مجید میں ہے:
لَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتاً فَکَرِہْتُمُوہُ (ا)
تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرےہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟اس سے تو تم نفرت کرتے ہو۔
اس بات کو صرف وحی ہی مجسم کر سکتی ہے، اسے تجسم و تمثل اعمال کہتے ہیں، یہ کام سائنسی وعادی علوم کے بس کی بات نہیں ہے، فقط علوم وحی اس کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔
یہاں پر مناسب ہے کہ تنبیہ کے لیے اس نکتہ کو بھی عرض کریں کہ مرحوم استاد علامہ طباطبائی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نقل کرتے تھے :
جمعرات عصر کے وقت اور شب ِجمعہ مومنین کی کافی تعداد نجفِ اشرف میں وادی السلام کی قبور کی زیارت کے لیے جاتی تھی، وادیٔ السلام (حرم مطہر حضرت امیر المومنین ؑکے عقب میں ) وسیع قبرستان ہے اور اگر کوئی دور سے نجف اشرف کا نظارہ کرے تو اسے یہی نظر آئے گا کہ حضرت امیرالمومنین ؑ کا وجودِ مبارک آگے اور تمام مومنین ان کے پیچھے سوئے ہوئے ہیں،علامہ طبا طبائی فر ماتے ھیں بعض علماء جو اہلِ قبور کی زیارت کے لیے جا رہے تھے،انہوں نے بزرگانِ اہل معرفت میں سے ایک بزرگ کو دیکھا جو نجف اشرف میں خواص کے نزدیک (اس وجہ سے ) معروف تھے کہ وہ باطنی آنکھ رکھتے ہیں،وہ وادی السلام کی زیارت سے واپس آرہے ہیں، راستے میں ان سے سوال کیا گیاکہ آپ نے کیا دیکھا ؟ کیونکہ جانتے تھے کہ وہ ایک عام شخص نہیں کہ جائے، تلاوتِ قرآن کرے اور واپس پلٹ آئے بلکہ وہ عارفانہ جاتے اور عاشقانہ لوٹتے ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیا دیکھا ؟ تو انہوں نے فرمایا کچھ نہیں، وہاں گئے ہیں، فاتحہ پڑھی، زیارت کی اور واپس پلٹ آئے، لوگوں نے اصرار کیا کہ بتایئے آپ نے کیا دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں جب وادی السلام میں داخل ہوا (آپ جانتے ہیں کہ عمومی قبرستانوں میں ہمیشہ کچھ قبریں تیار ہوتی ہیں، وادی السلام ریتلا علاقہ ہے اور بہت سی قدیم قبریں خراب اور گر چکی ہیں تو تازہ کھودی گئی قبریں اور پرانی قبریں سب اس طرح کھلی تھیں کہ اندر صاف نظر آتا تھا) میں نے ان قبروں کی چھان بین کی لیکن سانپ، بچھو نہ دیکھا، کوئی رینگنے یا ڈسنے والا جانور نہ دیکھا، تو قبروں سے پوچھا کہ علماء ہمیں بتاتے ہیں کہ قبر میں سانپ، بچھو ہیں لیکن یہاں تو اب کچھ بھی نہیں، تو قبروں نے جواب میں کہا : ہاں یہاں پر سانپ اور بچھو ہیں لیکن ہمارے لیے نہیں ہیں، ہر شخص انہیں اپنے ساتھ لاتا ہے ۔
یہ معانی نہ توعام دینی مراکز میں قابل درک و فہم ہیں اور نہ ہی یونیورسٹی میں، مسلمان کی توہین، لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ، ہتکِ حرمت، کسی کی آبروریزی، ملت پر ظلم، بیت المال میں تجاوزیہ سب سانپ و بچھو کی صورت میں ظاہر ہونے کی نہ سائنس تشخیص کر سکتی ہے اور نہ عام فقہ و فلسفہ اور نہ ہی دیگر علوم ۔
دینی مراکزکے علوم صرف اس کے امکان کو ثابت کرتے ہیں لیکن قدرتِ تمثیل نہیں رکھتے، یہ کسی اور راہ کا تقاضا کرتی ہے، بہرحال ہمارا اہم ترین مسئلہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی حفاظت کریں اور دیکھیں کہ آیا ہم اپنی جگہ پر ہیں یا کوئی دوسرا ہماری زندگی کی زمین پر قابض ہے اور ہماری طرف سے کلام کرتا ہے اور ارادہ و فکراور بات کرتا ہے۔
اپنی حفاظت کے لیے چند کام انجام دینا ضروری ہیں :
الف : ہمارے وجود و حرمِ امن میں کوئی بیگانہ نہ آئے اور شیطان داخل نہ ہو، امام صادق ؑ فرماتے ہیں :
اَلْقَلْبُ حَرَمُ اللّٰہ فَلاٰ تُسْکِن فی حَرَم اللّٰہِ غَیْرَاللّٰہ (۲)
دل حرمِ الٰہی ہے پس حرمِ الٰہی میں غیر اللہ کو جگہ نہ دو
ب: ضروری ہے کہ خدا قلب میں حاضرو ظاہر ہو، وہ فیض رسانی کرے اور ہماری جگہ ارادہ و فیصلہ کرے، اس بنا پر (ضروری ہے کہ ہم ) اس عظیم مہمان کے لیے مقدمات فراہم کریں ۔
ج : جب ایسے عظیم مہمان کی میزبانی کریں تو کہیں :
روزی رخش ببینم و جان تسلیم وی کنم
ایک دن اس کا دیدار کروں اور جان اسکے سپردکردوں
ضروری نہیںکہ ہم مریں اور مرتے وقت روح و جان کو اس کے سپرد کریں بلکہ جب ہم خدا کو گھر کا واقعی مالک سمجھیں، تو کہیں : خدایا ! تو ہماری جگہ فیصلہ کر، ہم نے تجھ پر توکل کیا ہے یعنی تو ہمارا وکیل ہے، ہماری باتیں تو کر اور کوشش کریں، توکل سے آگے مقامِ رضا تک پہنچیں۔
پسندم آنچہ راجاناں پسندد
وہی پسند کرتا ہوں جسے میرا محبوب پسند کرتا ہے
کہ میں کون ہوں رضا سے بلند تر جو کہوں کہ تیری رضا پر راضی ہوں
حکم آنچہ تو اندیشی لطف آنچہ تو فرمائی
تیری ہر فکر حکم ہے اور تیری ہر بات لطف ہے
یہ مقامِ تسلیم ہے، یہ تیسرا مرحلہ پہلے اور دوسرے مرحلے کے بعد ہے اور ایک انسانِ کامل کا آخری مقام ہے کہ جس تک انبیاء و اولیاء پہنچے ہیں اور ہمیں بھی اس کی طرف دعوت دی ہے۔
دوسری طرف شیطان کوشش کرتا ہے اور وہ کینہ، حسد، اختلاف، ہوس اور تمام اخلاقی رذایل کے ذریعے دل کے حرمِ امن میں داخل ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ماحول بناتا ہے اور ہمیں شکست خوردہ کرتا ہے اور پھر ہماری جگہ خود بیٹھتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ جو میں کہتا ہوں وہ تیری بات ہے ۔
مرحوم کلینیؒ اور دوسرے بہت سے بزرگانِ اہلسنت و شیعہ نے رسول اکرم ﷺ، وآئمہؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جو حدیث قرب النّوافل کے نام سے معروف ہے، قربِ نوافل یعنی انسان نہ صرف واجب کام کرے بلکہ مستحب کام بھی انجام دے تاکہ محبوبِ خدا بن سکے۔
’’مٰا یتقَرَّبُ الیَّ عبدٌ مِنْ عِبادی بِشی ئٍ أحَبُّ اِلیَّ ممّاافتَرضْتُ عَلیْہِ واِنَّہُ لیَتَقرَّبُ اِلیَّ بِالنّافِلَۃحتّی أَحبَّہُ فَاذا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمعَہُ الّذی یُسمِعُ بِہٖ وبَصَرَہُ الَّذی یُبصِرُ بہٖ ولِسانَہُ الّذی یَنطِقُ بِہٖ وَیَدَہُ الّتی یَبْطِشُ بھا‘‘ (۳)
انسان واجب و مستحب اعمال کی وجہ سے آہستہ آہستہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے، جو یہ کہا گیا ہے

’’اَلصَّلٰوۃُ قُرْبٰانُ کُلِ تَقٖی‘‘ (۴)
نمازہرمتقی کی قربانی ہے
یعنی ہرباتقویٰ انسان نماز کے ساتھ قربانی کرتا ہے ہروہ عمل جو انسان کو خدا کے نزدیک کرتا ہے وہ اس کی قربانی ہے، یہ جو دسویں ذی الحجہ یا عیدِ قربان کے دن لوگ منیٰ یا غیرِ منیٰ میں بکرے ذبح کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ عمل خدا کے ساتھ تقرب کا ذریعہ ہے، وگرنہ نماز یا روزہ، صحیح دروس و تعلیم، تعلّم، لوگوں کی خدمت کرنا سب کے سب اگر رضائے خدا کے لیے ہو تو قربانی ہیں۔
نماز کے بارے میں حضرت امام رضاؑ سے منقول ہے :
َلصَّلٰوۃُ قُرْبٰانُ کُلِ تَقٖی
زکات کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے، اگر کوئی مالدار ہے تو زکات مال انفاق ہے، عالم ہے تو اس کی زکات خطابت و تحریر ہے، جمال رکھتا ہے تو اس کی زکات عفاف و پاکدامنی ہے، اگر کوئی جوان زیادہ خوبصورت ہے تو اس کی زکات زیادہ پاکیزگی ہے، سب کو پاکدامن ہونا چاہیے لیکن زیادہ خوبصورتی زیادہ پاکیزگی کی متقاضی ہے، اگر کوئی شجاع ہو تو ضروری ہے کہ دوسروں سے زیادہ جہاد کرے ۔
زَکٰاۃُ الشَّجٰاعَۃِ الْجَہٰادُ فیٖ سَبیٖلِ اللّٰہ (۵)
شجاعت کی زکات اللہ کی راہ میں جہاد ہے
جو عزت دار و صاحبِ مقام ہے تو اس کی زکات لوگوں کی خدمت کرنا ہے ۔
انسان واجب و مستحب اعمال کے ذریعے خدا کے قریب ہوتا ہے، جب خدا کے نزدیک ہوتا ہے تو محبوبِ خدا بن جاتا ہے، اسکے بعد روایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
حتّی اُحبَّہُ فَاذا اَّحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمعہُ الّذی یُسمِعُ بِہٖ وَ بَصَرَہُ الّذی یُبْصِرُبہ و ِلسانَہُ الَّذی یَنطِقُ بِہٖ وَیَدَہُ الّتی یَبْطِشُ بھا(۶)
خدا وندِ متعال مقامِ ذات و صفات میں نہیں کیونکہ یہ ممنوعہ علاقہ ہے بلکہ مقامِ فضل و فیضِ خاص میں فرماتا ہے:
میں اس شخص کی بولنے والی زبان ہو جاتا ہوں، اس کی زبان وہی کہتی ہے جو میں چاہتا ہوں، اس کے کان وہی سنتے ہیں جن کے سننے پر میں راضی ہوں۔
انسان واجب و مستحب اعمال کے انجام دینے سے ماحول فراہم کرتا ہے تاکہ خدا کا میزبان بنے، اپنی شکست کے بعد جب گھر کا واقعی مالک جو خداوندِ متعال ہے اس کی جگہ آتا ہے تو اس کی جگہ وہی فیصلہ کرتا ہے، دیکھتا اور سنتابھی ہے، ایسا انسان ابدیت کے راستے کو پا لیتا ہے۔
وجودِ مبارک حضرت امیر المومنین ؑ جو خود انسان کامل ہیں اور انسان کے بارے میں کامل معرفت رکھتے ہیں، جن کی اکثر رہنمائی اسی بارے میں ہے،آپ ؑفرماتے ہیں :
اِتَّخَذُ والشَّیْطَانَ لأَِمْرِھُمْ مِلاکاً وَاتَّخَذَھُمْ لَہُ أَشْرَاکاً فَبَاضَ وَ فَرَّخَ فِی صُدُورِھِمّ وَدَبَّ وَدَرَجَ فِی حُجُورِھِمْ فَنَظَرَ بِأَعْیُنِھِمْ وَ نَطَقَ بأَلسِنَتِھِم(۷)
انہوں نے اپنے ہر کام کا کرتا دھرتا شیطان کو بنا رکھا ہے اور اس نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہے،اس نے ان کے سینوں میں انڈے دئیے ہیں اور بچے نکالے ہیں اور انہی کی گود میں وہ بچے رینگتے اور اچھلتے کودتے ہیں ،وہ دیکھتا ہے تو ان کی آنکھوں سے اور بولتا ہے تو ان کی زبانوں سے۔
شیطان ابتداء میں فریب دیتا ہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ حرمِ دل میں داخل ہوتا ہے، کبھی انسان گناہ کرتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے، پھر استغفار کرتا ہے اور آنسوئوں کے چار قطرے گراتا ہے اور گناہ کا جبران کرتا ہے، کبھی ایک گناہ انجام دینے کے بعد اس سے لذت حاصل کرتا ہے اور اس گناہ کی تاویل کرتا ہے، کہتا ہے یہ گناہ نہیں تھا، آہستہ آہستہ کہتا ہے کہ یہ کام صرف برا نہیں بلکہ یہ اچھا کام ہے، جب کہا کہ یہ اچھا کام ہے یعنی اس نے اپنے حرمِ دل کو شیطان کے لیے کھول دیا ہے ۔
اس وقت شیطان اس پر محیط ہو جاتا ہے، اسی طرح شیطان دل کے اندر انڈے دیتا ہے، باض و فرخ باض یعنی اس نے انڈے دیے، آغاز میں انڈے دیتا ہے پھر انہیں بچوں میں تبدیل کرتا ہے، یہ ایسی چیز نہیں کہ انسان مشین کے ذریعے جان سکے کہ شیطان آ گیا ہے اور اس نے انڈے دیے ہیں، صرف جو شخص ملکوتی نگاہ رکھتا ہے وہ دیکھتا ہے ۔ جب انڈے دیتاہے تو یہی انڈے شیطان کے بچوں کی صورت میں ظاہر ہو کر متحرک ہوتے ہیں ۔
ایک وقت آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے اندر شور و غوغا ہے جو آپکو حرکت دیتا ہے اور آپ پرسکون نہیں ہیں، جب حضرت علی ؑ کے کلام کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ غوغا و شور شیطان کے بچوں کا پیدا کردہ ہے ۔
بُرے خیالات اندرونی ہلچل کو پیدا کرتے ہیں، شیطینت بھی یہی ہے، یہ افسانہ و خیالات نہیں، یہ شور و غوغا جو ہم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، یہی ہے، انسان جب اس مقام پر پہنچتاہے تو راستے کی تبدیلی کے لیے جتنی کوشش کرے تبدیل نہیں کر سکتا، کیوں ؟ کیونکہ شیطان نے آکر آشیانہ بنایا، انڈے دیے، انڈے بچوں میں تبدیل ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ صاحبِ خانہ کو ایک گوشہ میں قید کر لیتے ہیں اور اس کے ہاتھ پائوں باندھ دیتے ہیں اور پھر:
فَنَظَرَ بِأَعْیُنِھِمْ وَنَطَقَ بَأَلسِنَتِھِمْ
ان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اوران کی زبان سے باتیں کرتا ہے ۔
اس وقت (بے چارہ ) انسان نہیں سمجھتا کہ بولنے والا شیطان ہے ۔
وہی شیطان جو خدا کے مقابلے میں کھڑا ہوا اور کہا :
أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ (۸)
میں اس سے بہتر ہوں
وہی آج تیری زبان میں بولتا ہے وگرنہ تو ایک مسلمان و شیعہ ہے، کس طرح یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میرا نظریہ یہ ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ کام کروں، ایسا لباس پہنوں، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس طرح گھر سے نکلوں، یہ سب شیطان کے ارادے ہیں جو انسان کے ذریعے عملی ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ کبھی بھی خود سے غافل نہ ہوں، مبادا کوئی اور تمہاری جگہ لے لے اور تصمیم گیری کرے اور تم سمجھو کہ تم خود ایسا کر رہے ہو، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میرا نظریہ یہ ہے، درحالانکہ اس نظریہ کو امیر المومنین ؑ کے کلمات سے تقابل کریں توآپ دیکھیں گے کہ آپ ان کے مقابلہ میں بات کر رہے ہیں یا اگر قرآن کے ساتھ تقابل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ تمہاری بات مخالفِ قرآن ہے ۔
سورہ نساء کے آغازمیں ہے :
إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَارا(۹)
جو لوگ یتیموں کے مال نا حق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھر تے ہیں ۔
جو شخص ملکوتی نظر رکھتا ہے وہ ان حقائق کو دیکھتا ہے جیسا کہ بعض بزرگوں نے اپنی کتابِ تفسیر میں لکھا ہے :
انسان جب تک جوان ہے اس دنیا کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتا ہے لیکن جب کچھ زیادہ عمر ہوتی ہے تو دیکھتا ہے کہ کسی چیز سے محبت نہیں رکھتا،جیسے خام پھل درخت کے ساتھ سختی سے چپکا ہوا ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعداگرباغبان اسے نہ توڑے تو وہ خود گر پڑتا ہے، پھل جب پختہ ہو جاتاہے (جیسے انسان آخری عمر میں) توآہستہ آہستہ خوشہ و شاخ کو چھوڑدیتا ہے، خواہ میٹھاسیب اور ناشپتی ہویا کڑواپھل لیکن بالآخر شاخ کو چھوڑ دیتا ہے ۔
ہم سب اسی طرح ہیں، جب کچھ بڑی عمر میں آتے ہیں تو دنیا سے یہ تمام محبت آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے، اس وقت ضروری ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آگے بڑھیں اور وہ بھی ابدی مقام کی طرف، ایک دو سال یا ایک ملین یا کروڑ سال نہیں بلکہ لامحدود ہے ۔

۲۔ اللہ کی طرف حرکت (۱۰)
سورہ مبارکہ نحل کی آیت ۱۲۵ میں ارشاد ہوا ہے :
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَن
(اے رسول)حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں
راہِ خدا کی طرف حکمت کے ذریعے دعوت یعنی حکیمانہ زندگی بسر کرنا تاکہ لوگ آپؐ کی سنت و سیرت سے حکمت کو سیکھ سکیں، یہ دعوت نامہ اس راستے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔اگر ہمارا کوئی ادارہ ہو اور لوگوں کو اس میں آنے کی دعوت دیں تو دعوت کا ایک خاص طریقہ ہے لیکن اگر کہیں کہ لوگوں کو حکمت کے ذریعے راہِ خدا کی دعوت دیں یعنی راہ خدا میں حکمت ہے، راہِ خدا ہی موعظہ ہے کیونکہ الٰہی راستوںکے معاملے میں راستہ، مسافر کا غیر نہیں ہے، یعنی را ہ اور مسافر دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔
ہم عملی راستوں اور طبیعی سفروں میں مسافر، راستہ اور مقصد رکھتے ہیں، مثلاً اگر کوئی مشہد جانا چاہتا ہے، زمینی یا ہوائی راستے سے سفر کرتا ہے تاکہ روضۂ رضوی کی زیارت سے مشرف ہو۔
ایک مسافر یعنی حرکت کرنے والا ہے اور ایک راستہ یعنی ہوائی یا زمینی ہے اور ایک مقصد، منزلِ مقصود ہے، کیا راہِ خدا بھی اسی طرح ہے ؟ یعنی راستہ، مسافر، منزلِ مقصود سے الگ ہے؟ الٰہی راستوں میں راہ اور مسافر ایک ہی ہے، اگر مسافر ممتاز ہو تو اس کا راستہ ہی مقصد ہوتا ہے، یہ باتیں توضیح طلب ہیں شایدیہ وضاحت ممکن ہے آیۃ مبارکہ ۱۲۵ سورہ نحل کی مختصر تفسیر ہو۔
انسان اگر چاہے کہ وہ اہلِ سیرو سلوک ہو تو کیا عقائد، اخلاق اور فضائلِ نفسانی میں حرکت کے بغیر کوئی راستہ ہے ؟ کیا عقائد، اخلاق اور فضائل نفسانی ہماری روح سے جدا ہیں ؟ کیا ہم جو راستہ چلنے والے ہیں کوئی اور چیز ہیں ؟ کیا علوم، اوصاف اور افعال کوئی اور چیز ہیں ؟ یاکہ نہیںبلکہ یہ راستہ خود ہمارے اندر ہے، ہم اس کے مسافر ہیں ۔
مراھمراہ و ھم راہ است یارم ۔۔۔۔
(میرا ہمراہ اور میری راہ میرا محبوب ہی ہے)
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اگر کوئی حرکت کرنا چاہے تو مسافر راستے سے الگ کوئی چیزہو، اگر کوئی ہوائی و زمینی سفر کرے اور سیر و تفریح و دنیا و مافیھاکی سیر کرلے لیکن اپنے نفس و ذات میںتبدیلی نہ لائے تو وہ ایک جامد پتھر ہے کہ جس نے کوئی حرکت نہیں کی، اگرکوئی اپنے اندر حرکت کرے تو جہالت سے علم اور عقل کی طرف سفر کرے گا گویا کہ وہ عالم وعاقل ہوگیااور اس نے واقعاً سفر و سیر و حرکت کی ہے، اگر ان دونوں راستوں میں سے کسی کو بھی طے نہ کرے تو وہ در اصل اسی منزل پر رک جاتا ہے اور اصلاً اس نے حرکت ہی نہیں کی ہے، پس روحانی و معنوی سفر میں مسافر و راہ ایک ہی ہوتے ہیں۔
اگر کسی نے اپنے اندر بالکل سفر نہ کیا ہو تو وہ ایک بیس سالہ بچہ ہے، پھر تیس سالہ ہو جائے گا اور پھر ستر سالہ و اسی سالہ ہو جائے گا اور کوئی حدِّ اکثر عمر تک پہنچے تو ایک سو سالہ بچہ ہو کر مر جائے گا، اس نے سفر کیے، بہت سے مقامات دیکھے لیکن اس نے اپنے اندر بالکل حرکت نہیں کی، کبھی انسان اپنے اندر سیر کرتا ہے اور متحوّل و تبدیل ہو کر ایک ہی رات میں سو سال کا راستہ طے کرلیتا ہے ۔
راہِ خدا جس کی طرف رہبرانِ الٰہی نے لوگوں کو دعوت دی وہ زمین و آسمان،ہوا و دریا کا راستہ نہیں بلکہ راہِ خدا’’ علم ومعرفت ‘‘اور’’ عدل اور فضائل ‘‘ہیں اور یہ انسان کی روح میں ہیں، پس اللہ کی طرف حرکت میں مسافر اورراستہ ایک ہی ہیںاور اگر ہم انشاء اللہ اہلِ حرکت ہوں تو یہ ہمارے جیسے معمولی افراد کے لیے ہے، لیکن بہت کم لوگوں کے لیے راستہ ہی منزل ہے، وہ جب ذاتِ مقدسِ الٰہی کو دیکھتے ہیں تو اوصاف و اسماء حسنٰیٔ الٰہی میں اور درحقیقت مقصد میں حرکت کرتے ہیں، یہ جو دعائے عرفہ،دعائے ابو حمزہ ثمالی اور اہل بیت ؑ کی دیگردعائوں میں آیا ہے : کہ ’’بِکَ عَرَفْتُکَ و اَنْتَ دَلَلْتَنیٖ عَلَیْکَ‘‘
میں نے تیرے طفیل تیری معرفت حاصل کی اور تو نے ہی میری اپنی طرف رہنمائی فرمائی۔
یہ لوگ خدا کو پا لیتے ہیں اور اس کے اسماء و صفات، جمال و جلال میں غرق ہیں ایسے مردانِ الہٰی کے لیے منزلِ مقصود ہی راستہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیا اس راستے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے یا یہ راستہ ہمارے حصے میں نہیں ؟ آئمہ اہل بیت ؑجو خود اس راستے پر حرکت میں غرق ہیں، اپنے شاگردوں کا ہاتھ تھامتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں آپ بھی اس راستے کے ایک گوشہ کو طے کریں، بعض آیاتِ قرآنِ کریم بتاتی ہیں کہ یہ راستہ ہمارے لیے بھی کھلا ہے البتہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر ہیں اور ہم پہاڑ کے دامن میں، وہ معصومانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہم اشتباہ کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا:
ایسا نہ ہو کہ تم پہاڑوں، درختوں، آسمان و زمین کے مشاہدہ اور علائم و نشانیوں کے ذریعے اللہ کو پہچانو، اگر وہ محبوب اس علامت و نشانی سے زیادہ قریب ہو توپھر بھی تم علامات و نشانیوں کے پیچھے ہو ۔
مثلاً اگر کوئی شخص باہر سے مشہد شہر میں داخل ہوتا ہے اور حرمِ مقدس کو تلاش کرتا ہے تو سڑکوں کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ حرم کی رہنمائی کے لیے جو بورڈ لگا ہوا ہے وہ کس طرف ہے، چونکہ وہ حرم تک نہیں پہنچا اس لیے بورڈ رہنما کا محتاج ہے، لیکن اگر حرم کے اندر اور ضریح مبارک کے پاس دعا و مناجات میں مشغول ہے تو اس وقت وہ کیا بورڈ یا علامت کی تلاش کرے گا؟ کیا معاذ اللہ ذات باری تعالیٰ مثلِ حرم ہے ؟ یایہ کہ ہر جگہ اس کا حرم ہے ؟ اگر :
’’ وَھُوَالَّذِی فِی السَّمٰائِ اِلٰہٌ وَفِی الْأَرْضِ اِلٰہٌ‘‘
وہ اللہ وہ ہے جو آسمان و زمین کا معبود ہے
’’ فَأَیْنَمٰا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ‘‘
پس جدھر بھی رخ کرو اددھر اللہ کی ذات ہے
’’وَلِلّٰہٖ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‘‘
اور مشرق ہو یا مغرب دونوں اللہ ہی کے ہیں
’’ وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مٰا کُنْتُمْ‘‘
وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو۔
تو اب اگر کوئی حرم الہٰی میں ہو تو پھر بھی علامت وبورڈ کے پیچھے دوڑتا ہے ؟ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں پر خدا حاضر و ظاہر نہ ہو ؟
اصولی طور پر استدلال کرنا اور دلیل چاہنا اس لیے ہے کہ انسان ایک محبوب و مقصود رکھتا ہے اور علامت و نشانی کے ذریعے اسے پہچاننا چاہتا ہے اور اس تک پہنچنا چاہتا ہے، اگر آپ کسی کو پہچاننا چاہیں تو تعارف کراتے ہیں کہ فلاں شخص کا قیافہ یہ ہے، علمی اسنادیہ ہیں اور اس کا سابقہ یہ ہے، اوصاف کے ذریعے آپ اس کا تعارف کراتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص تمہارے پاس حاضر ہو تو پھر اس کا تعارف،قیافہ و علامت،کہ اس کا قد درمیانہ ہے یا نہیں، کے ذریعے نہیں کراتے، آپ خود اس شخص کو پہچانتے ہیں تو پھر ضروری نہیں کہ کوئی آپ کو اس شخص کا تعارف کرائے کہ فلاں شخص کا قد بڑا ہے یا درمیانہ اور اس کا رنگ ایسااور بال ایسے ہیں ۔
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا : ’’انسان معرفت شناسی میں غائب کو وصف کے ذریعے پہچانتا ہے ‘‘یعنی پہلے صفت اور پھر موصوف کو پہچانتا ہے، لیکن مشاہدہ میں پہلے موصوف اور پھر صفت کو پہچانتا ہے، فلاں شخص کو دیکھتا ہے، اس کے بعد سوال کرتا ہے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ کی تعلیم کتنی ہے ؟
پس اگر کسی غائب کو پہچاننا چاہیں تو پہلے وصف اور پھر موصوف کو پہچانتے ہیں لیکن اگر شاہد کو پہچاننا چاہیں تو پہلے موصوف اور پھر صفت کو پہچانتے ہیں ۔
امام جعفر صادق ؑ نے اپنے شاگردوں سے معرفت شناسی کے بارے میں اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد فرمایا :
کہ اس کی قرآنی مثال یہ ہے کہ برادران یوسف ؑ اس تلخ تاریخی واقعہ کے ارتکاب کے کئی سال بعد مہنگائی و قحط کی وجہ سے یوسفؑ تک پہنچے تو انہیں پہچان نہ سکے، ان کا خیال تھا کہ یوسفؑ کنویں میں مرچکے ہیں، جب انہوں نے یوسفؑ کو دیکھا تو دیکھنے کے بعد کہا: تو یوسفؑ ہے ؟ پہلے انہیں پہچانا، پہلے اس خوبصورت شخص کو دیکھا پھر نتیجہ حاصل کیا اور کہا تم یوسفؑ ہو؟ کسی اور سے نہیں پوچھا کہ یوسفؑ کون ہے تاکہ وہ تعارف کرائیں، پہلے خود ان کو دیکھا اور کہا تو یوسفؑ نہیں ہے؟
تو انہوں نے کہا: ہاں
امام صادق ؑ فرماتے ہیں :
آپ اس قرآنی تعبیر کو دیکھیں یہ کہتے ہیں : أاِنَّکَ لأنْتُ یُوسُفُ یعنی کیا تو یوسفؑ ہے؟ انہوں نے یہ نہیں کہا ’’أیوسف أنت ‘‘ یعنی کیا یوسفؑ تو ہے ؟بلکہ کہا تو یوسفؑ ہے ؟ اگر کلمہ یوسف انت پر مقدم ہوتا تو یہ یوسف کی تلاش میں ہوتے اور یوسف کو پہچاننا چاہتے اور یوسف کے ذریعے تطبیق کرتے اور کہتے وہ یوسف تم ہو ؟ لیکن انہوں نے اس راستے سے سوال نہیں کیا، انہوں نے پہلے انت کو دیکھا پھر کہا کیا تو وہی یوسف ہے ؟
انت کا یوسف پر مقدم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ پہلے انہوں نے ذات کو دیکھا بعد میں نام کی معرفت حاصل کی، اگر خدا قرآن میں فرماتا کہ ایوسف انت کیا یوسف تم ہو ؟ تو معلوم ہوتا کہ (انہوں نے ) پہلے یوسف ؑکو پہچانا بعد میں ذات کی معرفت حاصل کی لیکن قرآن نے اس راستے کو طے کیا، آپ فارسی میںخدا یا عربی میں اللہ کہنے سے پہلے اسے دیکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں تو اللہ ہے، نہیں کہتے کہ اللہ تو ہے ۔
ذاتِ باری تعالیٰ سب کے لیے شہود ہے، کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے، اپنی معرفت سے پہلے ہم اسے پہچانتے ہیں، کسی چیز کی معرفت سے پہلے اس کو جانتے ہیں، بلکہ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہم جاننے کو جاننے سے پہلے اسے جانتے ہیں، کیونکہ اگر کوئی حقیقت لامحدود ہو تو اس کا فیض ہر جگہ حضور و ظہور رکھتا ہے اور کسی غیر کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتا، ہم جاننے کو جاننے سے پہلے اسے جانتے ہیں، لہٰذا خدا کا انکار محال ہے یعنی ممکن نہیں کہ کوئی خدا کا منکر ہو، صرف لوگ نہیں جانتے کہ خدا کیا ہے ؟ کون ہے ؟ ایسی حقیقت ہمارے ساتھ ہے اگر ہم اس کے ساتھ ہوں تو پہلے اسے دیکھیں پھر اس میں حرکت کریں، یہ وہی ’’سیرمن اللہ، الی اللہ، فی اللہ‘‘ ہے ۔
یہ وہی ! مراہمراہ و ہم راہ است یارم ہے، (میراہمراہ اور میری راہ میرا محبوب ہی ہے )یہ سب مناجات و اذکار میں موجود ہے ۔
کبھی آئمہؑ ہمیں خدا کے ساتھ ’’دلال‘‘کرنے کی اجازت دیتے ہیں، دلال یعنی ناز کرنا ہے جوایک دوست دوسرے دوست کے ساتھ کرتا ہے، کبھی ہمیں کہتے ہیں کہ بندگی و ذلت کا اظہار کرو کہ اکثر دعائیں و مناجات اس طرح ہیں اور کبھی حکم فرماتے ہیں کہ اب قربِ الٰہی کو حاصل کر لیا ہے تو خدا کے ساتھ ناز کرنے کی اجازت بھی رکھتے ہو، یہ جو ماہِ مبارک رمضان کی دعا میں ہے (مدلاً علیک) یہ ادلال و ناز برداری کرنا ہے ۔
یہ جو مناجات شعبانیہ میں ہم کہتے ہیں : اے خدا میں چاہتا ہوں کہ ناز کروں اور میرا ناز یہ ہے کہ :
اِلَہِیِ اِنْ أَخَذُتُنِیِ بِجُرْمِی أخَذْتُکَ بِعَفْوِکَ وَاِنْ أَخَذْتَنِی بِذُنُوبِی أَخَذْتُکَ بِمَغْفِرَتِکَ وَاِنْ أَدْخَلْتَنِی النَّارَاعْلَمْتُ أھْلَھَاأَنَّی أحِبُّکَ(۱۱)
اگر قیامت میں مجھے جلانا چاہو گے اور کہو گے کہ تو نے کیوں گناہ کیا ہے ؟ تو میں بھی کہوں گا کہ تو نے بخشا کیوں نہیں، اگر میںنے گناہ کیا تو تو بخش کیوں نہیںدیتا ؟ اس کو کہتے ہیں’’ ناز کرنا‘‘ اور یہاں تک کی ہمیں بھی اجازت دی ہے ۔
یہ سب اس کے لیے ہے جو حرم میں داخل ہو چکا ہو، ہدف کو دیکھ رہا ہو اور ہدف کے اندر حرکت کر رہا ہو، ایسے شخص کے لیے یہ راستہ کھلا ہے ۔
امام جعفر صادق ؑ نے اپنے شاگردوں کو یہ راستہ سکھایا اور فرمایا :
آپ کا ایک یوسفؑ گم ہو چکا ہے، یعقوبؑ کی طرح اس کی تلاش کرو، ایک وقت برادرانِ یوسفؑ کی طرح اسے دیکھتے ہو پھر اس کے یوسف ہونے کا نتیجہ حاصل کرتے ہو، ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آنکھ کھولیں، اگر ہم نے آنکھ کھولی تو پوری کائنات ہم سے ہمکلام ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس راستے کو طے کیا ہے وہ ہماری طرح ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم سب ظاہری طور پر ایک جیسی زندگی بسر کرتے ہیں، وہ بیوی رکھتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، لباس پہنتے ہیں اور ہماری طرح زندگی بسر کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا ایک جوہری فرق ہے ۔
آپ فرض کریں کہ کوئی ایسے کمرے میں زندگی بسر کرتا ہے جہاں چھت، کھڑکی، پردہ وغیرہ ہو، یہ سب نعماتِ الٰہی ہیں لیکن یہ صرف اپنے آپ کو دکھاتی ہیں، باہر کو نہیں دکھاتی کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے لیکن اگر کوئی ایسے حال میں ہو جس کی چھت، دیواریں، پردے سب شیشہ ہوں تو شیشہ ٹوٹنے سے پہلے بتاتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے، پس پردہ اورشیشہ میں کیا فرق ہے ؟ دونوں نعمتیں ہیں لیکن پردہ کی مشکل یہ ہے کہ صرف اپنے آپ کو دکھاتا ہے، جب پھٹ جاتا ہے اور ہم اکھاڑ پھینکتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے ۔
عارف کا ہمارے ساتھ فرق یہ ہے، ہم نعمت، سلامتی، عمر، مال و مقام رکھتے ہیں اور چارکلمات درس، پڑھے ہیں لیکن یہ سب ہمارے لیے پردہ ہیں، پردہ اچھی نعمت ہے لیکن وہ فقط خود کو دکھاتا ہے ۔
عرفاء شیشے میں زندگی بسر کرتے ہیں، یعنی دروازہ، دیوار، چھت ہے، محفوظ ہے لیکن وہ اس کے باہر بھی دیکھتے ہیں ۔
جب ہمارے سر میں درد ہوتا ہے اور ہم مریض ہوتے ہیں تو کیوں کہتے ہیں، یا اللہ، کیونکہ یہ سلامتی و صحت پردہ ہے، جب یہ پردہ پھٹتا ہے تو اس کے پیچھے ہم قدرتِ الٰہی کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں یا اللہ، جب تک یہ سر نہ پھٹے یعنی یہ پردہ نہ پھٹے، اس وقت تک اس کے عقب کو ہم نہیں دیکھتے۔
اگر خدا نہ کرے ہمیں کوئی ناگوار حادثہ پیش آئے اور عزت سے ذلت میں جا گریں تو اس وقت کہتے ہیں یا اللہ کیوں ؟ کیونکہ جب تک ہم معزز تھے، یہ عزت پردہ تھی اور ہمیں اپنے عقب میں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی جونہی یہ پردہ پھٹا تو ہم نے دیکھا کہ معاملہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ کی پوری کوشش یہ ہے کہ بتائے یہ سب نعمتیں ہیں اور ان میں حلال سے استفادہ کرو لیکن اگر شیشے کے محل میں زندگی بسر کر سکتے ہو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایسے محل میں زندگی بسر کرو جو دروازے، دیوار، کھڑکی سے بنا ہوا ہے ۔
دروازہ نعمت ہے لیکن ترکھان کی نشاندہی نہیں کرتا مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ بڑھئی آئے، دروازہ ٹوٹنے سے پہلے کیوں نہیں کہتے کہ بڑھئی آئے ؟ دیوار جب تک خراب نہ ہو، معمار کی نشاندہی نہیں کرتی لیکن شیشہ ٹوٹے یا نہ ٹوٹے بالآخر اپنے عقب کی نشاندہی کرتا ہے، مردان خدا سادہ زندگی میں نعمات رکھتے ہیں لیکن یہ نعمات ان کے لیے پردہ نہیں ۔
ہم غالباً نصب وعزل کے دن میں فرق کر تے ہیں، ہم جو کہ دو سطروںکے ابلاغ سے آتے ہیں اور دو سطروں کے ابلاغ سے چلے جاتے ہیں(ایک ہی دستخط سے نوکری اور ایک ہی دستخط سے چھٹی)ہمیں ان دونوں کو شیشہ سمجھنا چاہیے۔
ہماری اکثریت صحت ومرض کی حالت میں فرق محسوس کرتی ہیں، درحالانکہ سورہ مبارکہ فجر میں خدا فرماتا ہے کہ لوگ یا صحت مند ہیں یا مرض میں مبتلا ہیں۔
فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاہُ رَبُّہُ فَأَکْرَمَہُ وَنَعَّمَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَکْرَمَنِ
oوَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَہَانَن (۱۲)
مگر جب انسان کو اس کا رب آزمالیتا ہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے تو کہتا ہے :میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے اور جب اس آزمالیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے :میرے رب نے میری توہین کی ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ بعض کو صحت دیتا ہوں تاکہ اسے آزمائوں اور بعض کو بیماری میں مبتلا کرتا ہوں اور آزماتا ہوں، اب جب کہ ہم یہاں پر بیٹھے ہیں تو صحت و سلامتی کے ساتھ ہیں اور وہ جو ہسپتال میں بسترِ بیماری پر ہیں وہ بیماری میں مبتلا ہیں ۔
اجر جنت میں ہے، دنیا میں جو کچھ بھی دیتے ہیں آزمائش ہے، اس بناء پر اگر کوئی موحدانہ زندگی بسر کرتا ہے، تمام حلال نعمات سے اسراف کے بغیر استفادہ کرتا ہے وہ ان سب کو شیشہ و آئینہ جانتا ہے، آئمہؑ کے تمام فرامین کی بنیادیں قرآنی ہیں اور ہمارے لیے حیات بخش ہیں جو ہماری زندگی کو آئینہ کی طرح شفاف کرتی ہیں ۔
امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں : الْعَالِمْ مَنْ عَرَفَ قَدْرَہُ وَکَفَی بِالْمَرْئِ جَھْلاً الَّا یَعْرِفَ قَدْرَہٗ (۱۳)
’’عالم وہ ہے جو اپنی قدر و منزلت کو جانتا ہو اگر کوئی اپنی قدر و منزلت کو نہیں جانتا تووہ اپنے اندرونِ نفس میں سفر نہیں کرتا ‘‘
جس طرح قرآن کی ہر آیت دوسری آیت کی تفسیر اور تشریح کرتی ہے ۔
احادیث اہل بیت ؑ بھی اسی طرح ہیں ( یُفَسَّرُ بَعْضُہُ بَعْضاً )، یعنی بعض احادیث دوسری بعض کی تفسیر کرتی ہیں،امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں:
اِنَّ ھَذِہِ الْقُلُوبَ أَوْعِیَۃٌ فَخَیْرُھَا أَوْعَاھَا (۱۴)
یہ قلوب ظروف کی مانند ہیں اور بہترین دل وہ ہے جس کی ظرفیت وسیع ہو
انسان سمندر کی مانند نہیں، سمندر کس قدر پانی جمع کرتا ہے ؟ بالآخر محدود ہے اور پانی سے بھر جاتا ہے لیکن روحِ انسانی سمندر کی طرح نہیں کہ بھر جائے، پھر فرمایا :
’’کُلُ وِعٰائِ یَضیٖقُ اِلّٰاوِعٰائَ الْعِلْمِ‘‘
ہرظرف کی حد ہے سوائے علم کے ظرف کےظرفِ علم سمندر کی طرح نہیں کہ پانی گرائو تو بھر جائے، ظرفِ دل ایک ملکوتی ظرف ہے کہ جس قدر بھی علم (مظروف) اس میں داخل ہو وہ دو کام کرتا ہے :
۱ ۔ دل (ظرف) علم (مظروف) کے ذائقہ وبو کو حاصل کر لیتا ہے (انسان عالم بن جاتا ہے ) ۔
۲ ۔ اس ظرف کے عمق، طول وعرض کو وسیع کرتا ہے، جب مادی مظروف کسی جگہ داخل ہوتے ہیں تو اس جگہ کو گھیر لیتے ہیں اور کسی دوسرے کے لیے جگہ نہیں چھوڑتے لیکن ملکوتی مظروف جب کسی جگہ داخل ہوتے ہیں تو اس کو وسیع کرتے ہیں تاکہ دوسرے بھی اس میں داخل ہو سکیں، فرماتے ہیں: ہر ظرف مظروف کے آنے سے تنگ ہو جاتا ہے لیکن نفس انسان جو ظرف عالم ہے، مظروف کے آنے سے وسیع ہوتا ہے، وہ طالب علم جو سو مسئلہ یاد کرنے کی قدرت رکھتا ہے، جب سو مسئلہ یاد کر لیتا ہے تو یہ قدرت بھی رکھتا ہے کہ
ہزار مسئلہ یاد کرے اور اگر ماہر ہو جائے تو دس ہزار مسئلے بھی یاد کر سکتا ہے، پس انسان کی کوئی حد نہیں ۔
اگر کوئی اس عظیم ظرف کو خالی رکھتا ہے یا قصوں، افسانوں اور طنز و مزاح سے پر کرتا ہے، کیا اس کے لیے صدافسوس نہیں ؟ حضرت امیر المومنین علی ؑ نے اپنے فرزند سے فرمایا:
ایسا نہ ہو کہ محافل میں کوئی ایسی بات کرو کہ دوسرے ہنسیں، تم انسان ہو، چھوڑو کوئی اور یہ کام کرے،
اگر کوئی ظرف دل میں کچھ نہیں ڈالتا یا بیہودہ باتیں ڈالتا ہے تو یہ گندے نالے کی مانند ہے، لیکن اگر معارف و علوم ڈالتا ہے جیسے علومِ ریاضی وغیرہ اور سب سے بلند تر علومِ قرآنی و عرفانی ڈالتا ہے تو اس وقت (اس نے) ظرفِ دل کو آب ِحیات سے پُر کیا ہے، افسوس ہے کہ بدن جنت میں نہ جائے، وہ ہاتھ جو اللہ کی طرف دعا کے لیے اٹھتا ہے، وہ پیشانی جو راہ خدا میں زمین پر گرتی ہے، افسوس ہے کہ جنت میں نہ جائے ۔
قدر کا جودوسرا معنی بیان کرتے ہیں وہ’’ اہمیت ‘‘ہے، یعنی انسان کو اپنی اہمیت معلوم ہونی چاہیے، آئمہ طاہرینؑ نے ایک روایت میں فرمایا :
اِنَّ لِاَنْفُسِکُمْ ثَمَنا وَھِیَ الْجَنَّۃ اَلٰافَلاٰ تَبیٖعوُ ھٰااِلّٰابِھَا (۱۵)
نہ صرف تمہاری روح جنت کی اہمیت رکھتی ہے بلکہ تمہارا بدن بھی جنت کی اہمیت رکھتا ہے۔

۳۔ حق کی باطل سے تشخیص
ہمیں اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود اصل مشکل کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، فرعی مشکلات کچھ مدت کے بعد حل ہو جاتی ہیں، خواہ وہ مشکل عملی ہو یا علمی لیکن بعض معاملات ہیں جو آسانی سے حل نہیں ہوتے، جب تک انسان مرے نہیں اور عالم تبدیل نہ ہو جائے اور ملکوت وعالمِ برزخ میں داخل نہ ہو اس کی مشکل حل نہیں ہوتی اورجس وقت حل ہو جاتی ہے تو پھر قابلِ علاج نہیں ہوتی۔
اس بناپر اس معاملہ میں دو چیزوں کے بارے میں غور و فکر اور بحث کرنی چاہیے،
ایک فرعی مسئلہ ہے جو کچھ مدت یا طویل مدت کے بعد حل ہو جاتا ہے اور دوسرا اصلی و بنیادی مسئلہ ہے کہ اگر ان میں مشکل پیش آئے تونہ صرف یہ کہ آسانی سے حل نہیں ہوتا بلکہ مرنے کے بعد ایک نئی مشکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت معالجہ کا کوئی راستہ نہیںہوتا ۔
فکری معاملات میں کہ ہم نہیں جانتے کہ کون حق کہتا ہے اور کون باطل، فکری و عملی مباحثہ کے کچھ عرصہ کے بعد بالآخر ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کون حق ہے اور کون باطل، قرآن کریم فرماتا ہے :
أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ أَن لَّن یُخْرِجَ اللَّہُ أَضْغَانَہُمْ(۱۶)
جن کے دلوں میں(نفاق)کا مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا دل کے کینوں کو کبھی ظاہر نہ کرے گا۔
کیاوہ لوگ جن کے دل مریض ہیں اُنہیں اس بات کا خوف نہیں کہ وہ اپنی زبان، قلم،ہاتھ اور فکر و غیرہ کے ذریعے سے خود کو پہچا نوا لیں گے اور دوسرے لوگ ان کے باطن سے آگاہ ہو جائیں گے، بعض لوگ حق کے ساتھ کینہ و دشمنی رکھتے ہیں، وہ جس قدر بھی طاقتور ہوں اس کینہ و عناد کو مخفی نہیں رکھ سکتے، آخر کار ایک نہ ایک دن واضح ہو جا تا ہے، بنابریں اگر ہم اس طرح کی مشکل دوسروں کے ساتھ رکھتے ہوں یا وہ ہمارے ساتھ رکھتے ہوں تو یہ بہت اہم بات ہے لیکن بہر حال دو سال نہیں تو دس سال کے بعد قابل ِ حل ہے۔
خَلَد گر بہ پاخاری آسان بر آرم چہ سازم بہ خاری کہ دردل نشیند
اگر کانٹا وغیرہ ہاتھ پائوں یاحتیٰ کہ آنکھوں میں چلاجائے وہ قابل علاج ہے، لیکن کانٹا اگر دل میں چلاجا ئے تو کیا کیا جا ئے؟
جب تک ہم میں سمجھ بوجھ کی طاقت رہتی ہے ہم جان سکتے ہیں کہ کونسا گروہ حق پرہے اور کون ساباطل پر ہے، لیکن اگر ہماری سمجھنے کی قوت ختم ہو جا ئے یا اُسے نقصان پہنچ جا ئے تو پھر کیا کیاجا ئے؟ اگر ہر چیز کو گھڑی کے ذریعے تشخیص دیں اور گھڑی ہی خراب ہو جائے تو پھر کیا کیا جا ئے؟ بنا بریں ہمیںہمیشہ دو امور کا سامنا کر نا پڑتا ہے، ایک یہ کہ اس بات کو سمجھیں کہ کونساواقعہ حق ہے اور کونسا باطل ہے، دوسرے یہ کہ اس بات کو جانیں کہ ہم کس کے ساتھ ہیں اور یہ دوسری بات پہلی بات سے زیادہ اہم ہے، یعنی ہمیشہ متوجہ رہیں کہ جس ترازو اور پیمانہ کے ذریعے ہم افراد، اعمال اور حوادث کو جانچتے ہیں وہ خراب نہ ہو۔
اوائل انقلاب میں بعض کے لیے مشخّص نہ تھا کہ کون درست کہہ رہا ہے اور کون غلط، دھماکے ہو ئے، قتل و غارت ہوئی، کئی افراد شہید ہو گئے اور بالآخر شہداء کے پاک خون نے ثابت کر دیا کہ حق کس کے ساتھ ہے اور بہت سارے اشخاص امام و انقلاب کے حامی ہو گئے، بعض حتیٰ کہ حزبِ جمہوری اسلامی، وزیر اعظم اور عدالت ِ عظمی کے دفاتر میں دھماکوںکے بعد بھی اوراب جبکہ ہر چیز واضح ہو گئی ہے، وہ نہیں سمجھ پا رہے اور انقلابِ اسلامی کاساتھ نہیں دے رہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ان کے وجودمیں حقیقت جانچنے کا پیمانہ خراب ہو گیا ہے، خراب ترازو و پیمانہ گھاس اور لوہے کو ایک جیسا دکھاتا ہے۔
اب بنیادی بات یہ ہے کہ ہم کیا کریںکہ ہمارے وجود کا پیمانہ اور گھڑی خرا ب نہ ہو، قرآنِ کریم میں ارشادِ خداند تعالیٰ ہے کہ علمی نظر سے امکان ہے کہ بعض اشخاص کے وجود کا پیمانہ خراب ہو جا ئے اور عملی طور پر ہم نے دیکھا ہے اور دیکھتے ہیں کہ
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالاًo الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعا(۱۷)
(اے رسولؐ)تم کہہ دو کہ کیا ہم اُن لوگوں کا پتہ بتادیں جو لوگ اعمال کی حیثیت سے بہت گھاٹے میں ہیں (یہ)وہ لوگ (ہیں)کہ جن کی دنیاوی زندگی کی سعی و کوشش سب اکارت ہو گئی اور وہ اس خام خیال میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں۔
واقعہ کر بلا انہیں افراد کے حوالے سے ایک واضح مصداق ہے، ۳۰ ہزار افراد جو کوفہ اور اسکے اطراف سے آئے ہو ئے تھے یہ وہی افراد تھے یہ جو سالہاسال حضرت علی ؑ کے منبر کے سامنے بیٹھا کرتے تھے اور حضرت کے وعظ سنا کرتے تھے، یہ لوگ اپنے خیال میں رضائے خدا کے حصول کیلئے آئے تھے اور انہوں نے امام حسینؑ کو کربلا میں شہید کیا۔
’’کُلٌ یَتَقَرَّبونَ اِلی بِدَمِ الحُسَین ؑ‘‘
وہ سب امام حسین ؑ کے قتل کے ذریعے قرب خدا حاصل کرنا چاہتے تھے
فقط ان کے سردار جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے؟ وہ رَے کی حکومت وغیرہ کیلئے آئے تھے، وگرنہ اس انبوہ ِ کثیرنے فقط رضائے خدا کے لیے اور جنت میں جانے کے لیے امام حسین ؑ اور ان کے انصارو اعوان کو شہید کیا، ان کے وجود کا پیمانہ خراب ہو گیا تھا، یعنی واقعاً حق اور باطل کی تشخیص کی قوت اُن میں ختم ہو چکی تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری شیطان کے ساتھ جنگ کا محور کہا ں ہے؟ باطنی شیطان کے ساتھ ہماری جنگ میں پہلی رکاوٹ کہاں ہے؟کون ہمارے ساتھ جنگ کر رہا ہے اور ہم سے کیا چاہتا ہے؟
ہمارے ساتھ جنگ کے لیے جو مقابلے میںہے وہ ایسا فرد ہے کہ مخلوقات ِ خدا میں اُس سے زیادہ غضبناک اوروحشت ناک اور کوئی نہیں ہے، ہٹلر اور چنگیز خان جیسے لوگوں کا غضب و غصہ مشخّص ہے، انہوں نے زیادہ سے زیادہ دس لاکھ یابیس لاکھ لوگوں کو قتل کیا، بہر حال دو چار افراد کوزندہ بھی چھوڑا ہو گا، یہی صدام ملعون، اگرچہ اس نے ایران ِ اسلامی پروحشیانہ حملہ کیا لیکن اپنے خاص افراد کے ساتھ نرمی سے پیش آتا تھا، اپنے اوپر (اپنی خام خیالی میں ) رحم کرتا تھا، کوئی چنگیز اور کوئی صدام بھی،شیطان کی مانند نہیں ہے۔
امیر المومنین حضرت علی ؑ نے فرمایا ’’شیطان نے چھ ہزار سال خدا کی عبادت کی یہاں تک کہ وہ فرشتوں کے برابر مقام تک پہنچ گیا۔
وَکَانَ قَد عَبَدَ اللَّہَ سِتَّۃَ آلَافِ سَنَۃٍ لَا یُدْرَی أَمِنْ سِنِی الدُّنْیَا أمْ مِنْ سِنِی الْ آخِرَۃِ(۱۸)
اس (شیطان)نے چھ ہزار سال خدا کی عبادت کی اور معلوم نہیں کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ چھ ہزار سال دنیاوی ہیں یا اخروی۔
یہ بھی معلوم نہیں کہ چھے ہزار سال دنیاکے سالوں میں سے ہیں (کہ جس کا ہر دن ۲۴ گھنٹوں کا ہے ) یا کہ آخرت کے سالوں میں سے ہے (کہ جس کا ہر دن دنیا کے ۵۰ ہزار سالوں کے برابر ہے )
فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ (۱۹)
ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے
اگر دنیا کے سالوں میں سے کم ازکم ہو تو حساب کریں کہ کس قدر ہو جاتا ہے۔
شیطان نے اپنی اس استکباری عادت اور متکبرانہ اندازکی بنا پر، جو کہ حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے امتحان کے موقع پر ظہور پذیر ہو ا،اس نے اپنی چھ ہزار سال کی عبادت کو جلا کر رکھ دیا، اس طر ح کا ایک غضبناک موجوداس طرح کے غصہ و غضب کے ساتھ، ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرے گا؟
شیطان نے قسم کھائی ہے کہ وہ اولاد ِ آدم ؑ کو احتناک کرے گا ۔
’’لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لأَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہُ إَلاَّ قَلِیْلاً(۲۰)
اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دی تو قلیل تعداد کے سوا میں اس کی سب اولاد کی جڑیں ضرور کاٹ دوں گا۔
احتناک یعنی کسی کو گلے سے پکڑ لینا، ماہر گھڑ سوار جو گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور گھوڑے کی لگام اور حنک کو اپنے اختیار میں لیتا ہے اس کام کوکہتے ہیں احتناک۔
شیطان نے کہا میں اولاد ِ آدم ؑ پر سوار ہو کر ان کے گلے میں لگام ڈالوں گا اور اُسے اپنی گرفت میں لوں گا، جس نے اپنی چھ ہزار سال کی عبادت کو اسطرح آگ لگا دی وہ ہمارے ساتھ کیساسلوک کر ے گا؟ شیطان نہ تو ہماری جان چاہتا ہے اور نہ ہی ہماری زمین، جان اور زمین پر قبضہ کرنا بیرونی دشمن کا کام ہے اور جہاد ِ اصغر سے مربوط ہے، شیطان ہمارے ایمان اور عزت کے درپے ہے، اسکی پوری کوشش یہ ہے کہ اولاً انسان کو اپنا اسیر بنائے اور اس کا ایمان چھین لے تا کہ وہ کافر ہو جا ئے ثانیاً اسے بے آبرو اور بے حیثیت کر دے، بالآخر کافر انسان بھی آبرو رکھتا ہے اور اسکے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے، شیطان چاہتا ہے اس آبرو کو بھی ختم کر دے، شیطان ہمارے دین اور آبرو کو ہم سے چھیننے کیلئے کیا کرتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کرنے والی قوت کو ختم کر دیتا ہے اور اسے ہم سے چھین لیتا ہے، یعنی انسان حق اور باطل کی تشخیص کی طاقت کو گنوا دے، اسکی پوری کوشش ہے کہ ہماری جگہ پر وہ خود قابض ہو کر اپنی مرضی کے مطابق ہمیں امر و نہی کرے، انبیاء واولیا کی خواہش و وظیفۂ الٰہی ہے کہ وہ اصلی مقام کو اپنے اختیار میں لیں اور الٰہی فرامین و الفاظ کو ہماری زبانوں پر جاری کریں تا کہ ہمیں فرشتوں کا ترجمان بنائیں اور شیطان کودور کردیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ اپنی حفاظت کرو۔

۴۔تقویٰ کی رعایت:
مرحوم علامہ مجلسی ؒ بحار الانوار میں امام محمد باقر ؑسے نقل کر تے ہیں
’’من عَمِلَ بَما یَعْلَم عَلَّمَہُ اللّہ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۲۱)
وہ(انسان)جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے خدا اس کو اس چیز کا علم بھی عطا کردیتا ہے کہ جسے وہ نہیں جانتا۔
یعنی اگر کوئی،جن چیزوں کو جانتا ہے ان پر عمل کر ے تو خداوندتعالیٰ اُسے تو فیق دیتا ہے کہ جو کچھ وہ نہیں جانتا وہ یاد کر لے، ہم بہت سارے حلال اور حرام کا موں کو جانتے ہیں، اگر ان پر عمل کریں تو جو کچھ نہیں جانتے ان کےجاننے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اور اسے یقینی امر جانئیے کہ اگر انسان خدانخواستہ مکروہات اور پھر گناہان ِ صغیرہ کا ارتکاب کرے تو وہ آہستہ آہستہ کبیرہ گناہوںکابھی مرتکب ہو جاتاہے، یہ تعبیر جو سورہ مبارکہ احزاب میں مذکور ہے کہ خداوند تعالی فرماتا ہے!
وہ مرد یا عورت جوکسی نا محرم کی آواز سن کر تحریک ہو جا تے ہیں، اُن کے دل مریض ہیں یہ ایک اٹل حقیقت ہے، قرآنِ کریم کی بات فصل الخطاب اور پتھر پر لکیر ہے۔
إِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ(۲۲)
یہ قرآن یقیناً فیصلہ کن کلام ہے اور یہ ہنسی مذاق نہیں ہے۔
اور اسمیں ذرہ برابر مذاق اور غیر سنجیدگی نہیں ہے۔
بعض کے دل مریض ہیں اگر کسی نے خدانخواستہ نامحرم کے ساتھ رابطہ بر قرار کیا، نامحرم کی طرف نگاہیں اٹھائیں، اس کا دل مریض ہے، یہ درحقیقت نزلہ زکام جیسی چھوٹی بیماریوں کی مانند ہے جن کا اگر علاج نہ کیا تو خطر ناک اور مہلک بیماریوں میں تبدیل ہو جائیں گی، چھوٹی چھوٹی بیماریوں میں بھی اگر پر ہیزاور احتیاط نہ کی جائے توہلاکت کا امکان موجود ہے۔
امیر المومنین حضرت علی ؑکے نورانی فرمان میں موجود ہے کہ جنگ کے آغاز میں کوئی تلوار نہیں نکالتا،پہلے سخت حملوں کا تبادلہ ہوتا ہے، پھر تھپڑو غیرہ اور پھر آہستہ آہستہ تلوار تک نوبت آجاتی ہے، بہت ساری ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ کونسی بُری ہیں اور کونسی اچھی ہیں۔
جن کے بارے میں معلوم ہے کہ بُری ہیںانہیں انجام نہ دیں تو روح آہستہ آہستہ ملکوتی امور کی عادی ہوجاتی ہے اور پھر ہمارا حال بہتر ہو جاتا ہے اور اچھے خواب بھی نصیب ہوتے ہیں۔
۵۔ قناعت اورشادی:
شادی کے مسئلہ میں بہتر یہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ قانع اور سادہ راستہ منتخب کرے، خداوند تعالیٰ سورہ مبارکہ نحل میںارشاد فرماتا ہے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃ(۲۳)
اگر کوئی مومن ہو اور نیک عمل انجام دے وہ چاہے عورت ہو یا مرد،اسے ہم حیات ِ طیبہ عطا کرتے ہیں۔
اس نورانی آیت کے ذیل میں، حیات ِ طیب کی تعبیر قناعت سے کی گئی ہے۔
اگر آپ دوسروں کی تاریخ ِ زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آج کل بعض لوگوں کے لیے جو امکانات ہیں،انہیں میسر نہ تھے ہم چاہتے ہیں کہ آغاز ِ زندگی میں تمام تر سہولیات حاصل ہو جائیں البتہ یہ مشکل ہے اور ممکن ہے خدانخواستہ انسان کو بعض گناہوں کی طرف دھکیل دے، بہترین راستہ وہی قناعت کا راستہ ہے، ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے قناعت کی لذت کو نہیں چکھا ہے اور ہم خیال کرتے ہیں کہ سب کچھ رکھنا ہی لذتیں ہیں، البتہ بطورِ کلی لذیذ بھی ہے مگر انسان روحِ قناعت کے تحت بعض چیزوں سے بے نیاز ہو، اس سے بہتر ہے کہ ان کے ذریعے سے بے نیاز ہو، اگر حلال طریقے سے مل جائیں تو بہتر ہے،اگر نہ ملیں تو شروع میں سادگی سے بسر کریں، جب قناعت کی لذت کو چکھ لو تو پھر
طالبِ علمی والی زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے، انشاء اللہ روحِ قناعت بھی ہم میں ایجاد ہو اور کچھ صاحبانِ بست وکشاد بھی چارہ اندیشی کریں۔

(حوالہ جات)
(۱) سورۃ حجرات آیت ۱۲:
(۲)بحار الانوار ج ۷۰ ص ۲۵
(۳)۔ اصول کافی،ج ۲ ص ۳۵۲
(۴) الفروع الکافی،ص ۲۶۵
(۵) شرح غرر الحکم ج۔ ۴ ص ۱۰۶
(۶)اصول کافی ج ۲، ص ۳۰۲
(۷) نہج البلاغہ خطبہ ۷
(۸)سورہ ص آیت ۸۷۶
(۹) سور ہ نساء آیت ۱۰
( ۱۰) مشہدیونیورسٹی کے اساتذہ سے خطاب (۲۰۰۱تقریباً)
(۱۱) مفاتیح الجنان، مناجات شعبانیہ
(۱۲)سورہ فجر آیت ۱۵،۱۶
(۱۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج۷، ص ۱۰۷
(۱۴) نہج البلاغہ،حکمت ۱۴۷
(۱۵)۔غرر الحکم حدیث ۴۶۲۳
(۱۶)۔ سورہ محمدؐ آیت ۲۹
(۱۷)سورہ کہف ۔ آیات ۱۰۳،۱۰۴
(۱۸)نہج البلاغہ،خطبہ ۱۰۹
(۱۹)سورہ معارج ۔آیت ۴
(۲۰)سورہ اسراء آیت۔۶۲
(۲۱)بحار الانوار ج ۷۸،ص ۱۸۹
(۲۲) سورہ طارق ۔آیت ۱۳،۱۴
(۲۳)سورہ نحل آیت ۹۷

Related Articles

Back to top button