Ikhlaq o falsifa e ahkamکتب اسلامی

اچھا دوست

سوال۱۲:ایک اچھے دوست کی کیا خصوصیات ہیں اور اچھا دوست کیسے بنا یا جا سکتا ہے ؟
دوست بنا نا او ر دو ستا نہ تعلقا ت رکھنا ایک انسا نی ضرورت ہے، حتیٰ کہ انسان کو مل کر زندگی گذارنے والا (معاشرتی) نہ سمجھیں تب بھی اپنی فطری و ذاتی خواہشا ت کے پو را کر نے کی معقول تدبیر کا تقا ضا بھی دوستی کو نا قابل انکا ر بنا تا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ دوست کے انتخاب کا معیا رکیاہے اور بہترین دوست کے انتخاب کا معیا ر کیا ہے اور بہترین سا تھی کو ن ہو سکتا ہے؟
مسلمانو ں کا مقصود ان کے تما م اعما ل اور رویو ں میں آخرت اور خو شنو دی خدا قرار پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا چاہیں سب سے پہلا سوال یہ پیش آتا ہے کہ کیا اس کام میں خداکی خوشنودی ہے یانہیں ؟کیا خدا اس کا م کی انجا م دہی پر راضی ہے یا نہیں کیو نکہ ہم سب اسی کے بندے ہیں اور اسی کی رضا کے پابند ہیں۔

دوستی کی تین شر ائط
سب سے پہلے دوستی کی بنیا د تین شر ائط پرقا ئم ہے بقیہ شر ائط سے پہلے ا ن کی رعا یت ضروری ہے وہ شخص دوستی کے لا ئق ہے کہ :
۱۔جس کی ملا قا ت سے آپ کو خدا یا د آئے یعنی اس کی ملا قا ت ذکر خداکا سبب بنے ۔
۲۔اس کی گفتگو آپ کی معلو ما ت اور علم میں اضا فہ کر ے اور اس کی ہربات علمی نتیجہ دے ۔
۳ ۔اس کا عمل و کردار آخر ت کی یا د دلا ئے اس طرح کہ آپ کے عمل و کر دار کو آخر ت کے رنگ سے رنگ دے ۔
اگرکسی میں مذکو رہ بالا تین شرائط آپ کو ملیں تو کو شش کریں اس کے ساتھ دو ستا نہ تعلقات قائم کریں اور اس کے وجود کو غنیمت سمجھیں، اگر نہ ملے تو ایسے دوست کو مسلسل تلاش کرتے رہواور جب تک ان خصو صیات والے شخص کو نہ پا لو تب تک ہرکسی سے دوستی نہ کرو ،دوستانہ فضا معنوی کما لا ت حا صل کر نے کے لئے بہت منا سب فضا ہے اور دو ستی دیند اری، عبادت اور علمی وا خلاقی ترقی کا باعث ہونی چاہیے، اس کے مقابل جو دوستی اخلا قی گر اوٹ اور دینی ودنیا وی مفاسدکے ایجا د کرنے کا سبب ہو وہ دوستی نہیں ہے بلکہ دشمنی و عد او ت ہے کہ جس سے بچنا سخت ضروری ہے، عمرکی مناسبت اور معا شر تی طبقہ بھی دوستی ایجا د کر نے کی ابتد ائی شر ائط میں سے ہیں، جن لوگوں کی عمروں میں فرق ہو تا ہے ان میں ایک دوسرے سے علمی و عملی فا ئدے حا صل کرنے کے امکانات کم ہو تے ہیں اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ روحا نی و معنو ی روابط پیدا کر نے کے امکانات ہوتے ہیں، لہٰذا بہتر ہے دوستی میں ان چیزوںکا بھی خیا ل رکھا جا ئے۔(۱)

اچھے دوست کا معیار
مذکو رہ با لا شر ائط کے علا وہ قرآ ن اور رو ایات اہل بیتؑ میں ایک اچھے دوست کے بہت
اہم معیا رات بھی ذکر کئے گئے ہیں کہ ہم اختصا ر کے ساتھ بعض کو یہا ں ذکر کر تے ہیں ۔
۱۔ وہ شخص جو خداکویادرکھے اور اس کا مقصد صرف خدا تک پہنچنا ہو۔
۲۔ عقل مند ہوکیونکہ حضر ت علی ؑ نے فر ما یا اکثر اچھا ئیا ں عقل مند وں اور سمجھ داروں کے ساتھ دوستی میںہیں ۔(۲)
۳۔ خا ئن ، ظالم اور چغل خور نہ ہوکیونکہ اما م صا دقؑ نے فر ما یا تین طرح کے افرا د سے بچو، خیانت کار، ظالم ا ور چغل خور کیو نکہ جو آپ کی خا طر دوسروں سے خیا نت کر تا ہے ایک دن وہ آپ سے بھی خیانت کر ے گا،جو شخص آپ کی خا طر دوسروں کے حقو ق پاما ل کر تا ہے اور ظلم کا عادی ہو جا تا ہے تو ایک دن تمہارے ساتھ بھی ظلم کرے گا اور چغل خور جیسے دوسروں کی با تیں آپ کے سامنے ذکرکرتا ہے تو وہ آپ کی با تیں بھی دوسروں تک پہنچائے گا۔(۳)
۴۔ وہ جو کچھ اپنے لئے پسند کر ے آپ کے لئے بھی وہی پسند کر ے اور جو چیز اپنے لئے ناپسندکرے اسے آپ کے لیے بھی ناپسند کرے، رسولؐ خدا نے فرمایا جو شخص جو کچھ اپنے لئے پسند کرے وہ آپ کے لئے پسند نہ کر ے تو اس کی دوستی و رفاقت میں کوئی فا ئد ہ نہیں ہے۔(۴)
۵۔ قطع رحم کر نے والا نہ ہوکیونکہ اما م محمد باقرعلیہ السلام نے فرما یامجھے میرے بابا سجا دؑ نے نصیحت فرمائی:
اے بیٹا ان لوگو ں کی دوستی سے بچو جو قطع رحم کر تے ہیں ،کیونکہ قرآن مجیدمیں ان پر تین با ر لعنت کی گئی ہے۔(۵)
اگر کوئی شخص اپنے خا ندا ن والوں سے صحیح تعلقا ت نہیں رکھتا جب کہ وہ ایک خاندان ایک ثقا فت اور ایک خون سے تعلق رکھتے ہیں تووہ شخص غیروں کے ساتھ کیسے خا لص دوستی رکھ سکتا ہے ۔
۶۔نکتہ چین و عیب جو نہ ہو
حضرت علی ؑنے فر ما یا ایسے افرا د کی دوستی و رفا قت سے بچو جو دوسرے کے عیو ب و نقا ئص پر زیادہ توجہ رکھتے ہیں کیونکہ ایسے افراد کا دوست بھی ان کے ضرر سے محفو ظ نہیں رہ سکتابلکہ وہ اس کی عیب جو ئی سے بھی با ز نہیں آتے۔(۶)

۷۔بدکردارنہ ہو
حضرت علی ؑ نے فرما یا :
بدکرداروں کی دوستی دوسروں کی نسبت جلدی ختم ہوجاتی ہے ۔(۷)
۸۔دشمن ِ خدا نہ ہو :
حضرت علی ؑ نے فر ما یا :
مبا دا دشمن ِخدا کو دوست بنا لو یا دوست خد ا کے علاوہ کسی پر اپنی دوستی و محبت نچھاور کر و جو شخص جس سے محبت کر تا ہے وہ اس کے ساتھ محشور ہو گا۔ (۸)

دوست کی آزما ئش کے طریقے
دوستوں کو آ زما نے کے لئے روایات میںمتعدد درج ذیل طریقے ذکر ہو ئے ہیں ۔
۱۔ اچھے دنوں اور برے دنو ں میں اس کی دوستی میں کوئی فرق نہ پڑے ،اما م محمد با قر ؑ فرماتے ہیں:
سب سے برا دوست وہ ہے جو تمہا رے اچھے دنو ں میں تمہا را دوست رہے اوربرے دنو ں میں ساتھ چھو ڑ جا ئے۔(۹)
دوست مشمار آنکہ در نعمت زند
دوست آن باشد کہ گیر د دست دوست

لا ف یا ری و برا در خواندگی
درپریشا ن حا لی و در ما ندگی(۱۰)
۲۔ غصے کی حا لت میں آ پ کی برائی نہ کر ے، امام صا دق علیہ السلام نے فر ما یا ’’جو دوست تم سے تین دفعہ نا راض ہو اور تمہا ری بر ائی نہ کر ے اور تمہیں گا لیا ں نہ دے تو اس کی قدر کر و اس کی دوستی کو با قی رکھو۔(۱۱)

۳۔نما زکواہمیت دے قرآن فرماتا ہے
’’اے ایما ن والو جن اہل کتا ب اور کفا ر نے تمہارے دین کا مذاق اڑایا ہے ان سے دوستی نہ کرو جب تم نماز کی آواز بلند کرتے ہوتو وہ اس کا مذ اق اڑاتے ہیں کیونکہ وہ سخت نادان و بے عقل ہیں‘‘ ( ما ئدہ / ۵۷)
وامش ند ہ آنکہ بی نما ز است
کو فر ض خدا نمی گذار د

گر چہ دھنش زفا قہ با ز است
از قر ض تو نیز غم ندا رد(۱۲)
۴۔ سختی و آسا ئش دونوں حا لتو ں میں اہلِ خیر و نیکی رہے، حضر ت علی ؑ نے فر ما یا ’’دوستوں کا مشکلا ت میں امتحا ن لیاجا تا ہے۔(۱۳)
جوانی پا ک با ز پا ک روبود
چنین خوا ندم کہ دریا ی اعظم
چون ملا ح آمد ش تا دست گیر د
ھمی گفتی میا ن موج و تشو یر

کہ با پا کیزہ رو ئی در گر و بود
بہ گر د ابی در افتا دند با ہم
مبا دا کاند رین حا لت بمیرد
مرا بگذار و دست یا ر من گیرد(۱۴)
۵۔انسا ن کی قدرت و اقتد ار کے ختم ہو نے کے ساتھ اس کی دوستی ختم نہ ہو جا ئے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرما یا:
جب انسا ن میں قدرت نہ رہے تو اس وقت دوست و دشمن کی پہچان ہوتی ہے۔(۱۵)
آخر میں دو نکا ت کا ذکر ضر وری ہے :
پہلا : یہ مذکو رہ بالا شر ائط سب نسبی ہیں ( ایک دوسرے کے ساتھ مقا ئسہ کر تے ہو ئے انہیں پا یا جاسکتا ہے ) کو ئی شخص ایسا نہیں ملے گا کہ جس میںیہ سب شر ائط وہ بھی بطو ر کامل مو جود ہو ں، لہٰذا اپنے حا لا ت اور دوسری ترجیحا ت کو دیکھتے ہوئے دوستوں میں ان شرا ئط کو تلا ش کیا جائے،اگرآپ کے کسی دوست میں ان شرائط میں سے کوئی ایک نہ ہو تو اس سے آپ دوستی ختم نہ کر یں بلکہ اس کی اصلا ح و تر بیت کی کو شش کریں اور یہ چیز خود دوستوں کا ایک دوسر ے کے مقا بل وظیفہ و ذمہ دا ری ہے ،البتہ یہ تب ضروری ہے کہ وہ دوست آپ کی اصلا ح کی کو شش سے منفی اثر نہ لے۔
دوسرا : انسا ن صرف دوسروں میں ان صفا ت کو تلا ش نہ کر ے بلکہ خود بھی ان شرا ئط کی رعایت کی کو شش کرے ،تب اسے معلو م ہو گا کہ کس طرح اس سے نا پسند ید ہ صفا ت ختم ہو چکی ہیں اور اچھی صفات اس میں پیدا ہو چکی ہیں، اس کے علاوہ ان صفات سے مزّین ہو نا بہترین سبب ہو گا کہ انسان اپنے جیسے دوست بنا ئے کیو نکہ نیک سیرت افراد نیک سیر ت افرا دسے عشق و محبت کرتے ہیں اور ان سے دو ستی کی تلا ش میں رہتے ہیں اور جب انہیں ایسی صفات کسی میں نظر آتی ہیں تو فورا ً ان سے تعلقات بنا لیتے ہیں مو لا نا رو می کے بقول :
نا ر یا ن مر نا ریا ن جا ذبند

نوریا ن مر نو ریا ن را طا لبند (۱۶)

(حوالہ جات)
(۱)مزید تفصیلا ت کے لئے دیکھیں : الف بابازادہ: آئین دوستی دراسلام، ب : سید ہادی مدرسی: دوستی ودو ستان ،پ: محمدی ری شہری دوستی درقرآن وحد یث ترجمہ سیدحسن اسلامی
(۲)غررالحکم حرف الالف
(۳)بحارالانوار ، ج ۷۱ /ص ۱۹۸
(۴) بحار الانوار،ج۷۵،/ص۱۹۸
(۵)تفسیر الثقلین ج۱/ ص ۴۵
(۶) غررا الحکم با ب الالف
(۷) منتخب میز ان الحکمۃ ج۱ / ص ۲۲۵
(۸)منتخب میز ان الحکمۃ ج۱ / ص ۲۲۵
(۹) میزا ن الحکمۃ ج ۱ / ص ۵۳
(۱۰) سعدی شیرازی
(۱۱) بحا ر الانوا ر ج ۷۸ ، /ص ۲۵۱
(۱۲) سعدی شیرا زی
(۱۳) غرالحکم لفظ فی
(۱۴) سعدی شیرازی
(۱۵) غرر الحکم ، حر ف عین ، لفظ عند۶
(۱۶) مثنو ی معنو ی دفتر روم

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button