جو انو ں پر اثر گزاری کی راہیں
سوال ۱۱: دوسروں پر خصوصا ً جو انو ں پر کیسے اثر اندا ز ہو ا جا سکتا ہے ؟
اثراندا ز ہو نا یا متا ثر ہو نا اور ا س کی حد ود و کیفیت کا تعلق انسان کی مختلف جہات میں صلاحیتوں کے سا تھ ہے، سب سے اہم چیز جو اثر انداز ی میں دخالت رکھتی ہے وہ معنو ی و روحانی خصوصیات ہیں جیسے مستحکم ارادہ ، اچھے اخلا ق ، حسن معاشر ت اور علمی قا بلیت اور متاثر ہو نا بھی انسان کی لچک او ر حقیقت جو ئی سے مر بو ط ہے ۔
منفی تاثیرپذیری انسا ن کے اپنے علم وارادہ کی کمزوری کی وجہ سے ہو تی ہے، لہٰذاآپ جتنا اپنے ارادے کو مضبو ط کریں گے اوراچھے صفا ت واخلاق میں اضا فہ کریں گے، اپنے علم و دا نش(خصوصاً دینی،اجتما عی اور ثقافتی مسا ئل ) کوزیادہ کرنے کی کو شش کریں گے، تدریجا ً آپ میں اثراندازہونے کی صلاحیت کا اضا فہ ہوتاجائے گا ۔
ذیل کے نکا ت و اصو ل کی رعایت کرنے سے اثر انداز ی میں اضا فہ کیا جاسکتا ہے ۔
۱۔خلوص اور اس کا اظہار:
دوسروں سے خلوص کے ساتھ محبت کریں اور اس کا ان پراظہا رکریں رسو ل خدا ؐؐ نے فرما یا:
اذااحب احد کم اخا ہ فلیعلمہ فا نہ اصلح لذات البین(۱)
جب آپ میں سے کو ئی کسی سے محبت کر ے تو اسے بتلا ئے ،اس سے تعلقا ت بہتربرقرارہوتے ہیں۔
دلی تعلق اور اس کا اظہا ر تعلقا ت کی بر قراری میں بہت مفید ہے۔
۲۔پرجوش ملا قا ت :
دوسروں کو متو جہ کر نے اوران پراثراندازہو نے کیلئے بہترین ارتباطی ہتھیار ملا قا ت کے وقت پرجوش ہونا ہے، ملا قا ت کی پہلی گھڑی بہت اہمیت کی حامل ہے ،تعلقا ت میں کا میا بی یا ناکامی کا فیصلہ اسی میں ہو جا تا ہے ، سلام کرنا تبسم کے ساتھ، اس کی احوال پر سی کر نا اور ا س کااحترا م کرنا اس کے دل میںجگہ پانے کے لئے بہت موثر ہے او ر اسلامی تعلیمات میں بھی اس طریقہ کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔
۳۔مثبت ابتداء:
مقابل والے شخص میں ایک یا چند مثبت نکا ت کی مو جودگی پر اس کی خوب تعریف کریں اور کبھی بھی رابطہ کی ابتدا ء اس کی کسی منفی خصوصیت سے نہ کریں یہ بھی مضبوط روابطہ کی تشکیل میں بہت موثر ہے ۔
۴۔کسی پربراہِ راست تنقیدنہ کریں:
اگرمقا بل سے کو ئی غلطی یالغزش واقع ہوجائے تو اس پر اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں جب کو ئی نصیحت اشا رہ وکنا یہ میںکی جا ئے تو زیا دہ جلدی اثر کر تی ہے بجا ئے اس کے کہ اس کی غلطی یاگنا ہ کوذکرکے اس پر تنقید کی جائے کیونکہ کسی پر اس کی غلطی یا گناہ ذکر کر کے تنقید کر نے سے خطرہ ہے کہ وہ جری ہو جائے اور گستا خی کر دے اور اس کے کا م کی بر ائی اس کی نظرمیں غیراہم ہو جائے اور وہ اس کی تو جیہ کرنے لگے یا کسی اور طرح مقابلہ و مزاحمت کرنے لگے، لہٰذا ایک ہمد رد دوست یا عقلمند مشیر کی طرح اس سے بر تا ؤ کریں ،حضرت علی علیہ السلام فر ما تے ہیں :
جب آپ کسی نو جوا ن کو اس کی غلطیوں پر ڈانٹ رہے ہوں تو خیال رکھیں کہ اس کی بعض غلطیوں سے چشم پو شی کریں اور اسے تمام اطراف سے مورد مذمت قرار نہ دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے رد عمل کا سامنا کر نا پڑ جا ئے اور وہ ضد و ہٹ دھر می پر اتر آئے ۔(۲)
۵:اپنے بارے میں واضح کرنا
دوسروں پر تنقید سے پہلے اپنی شکست اوربعض ناکامیوں کوبیا ن کریں اورپھران حالا ت میں آپ نے اصلا ح احوا ل کے لئے جو طریقے اپنا ئے یا کو ششیں کیںہوں ان کا بھی تذکرہ کریں او راس طر یقے سے آپ اس کے نز دیک ہو جائیں گے اور ایک بے تکلفی کی فضا پیدا ہو گی، یہا ں مختلف موضو عا ت کے با رے میں اپنی معلو مات کااظہا ر کر یں اور اپنے ما ضی کی کچھ مشکلا ت کو بیان کریں یہ آپ کے ارتبا ط کے لئے مفیدچیزہے ،اپنے آپ کو کھو لنے سے اس کے اضطراب وجھجھک میں کمی وا قع ہو گی اوروہ محسو س کرے گا کہ مصائب و مشکلا ت اور نا کامیوں میں وہ تنہا مبتلا نہیں ہے ۔
لیکن خیا ل رہے کہ اس روش میںزیادتی وا قع نہ ہو جا ئے ورنہ ہو سکتا ہے اس کی تما م تر تو جہ اپنی مشکلا ت کی بجا ئے آپ کی مشکلا ت پر مرتکز ہو جائے اور دوسری طرف سے صورتحال یہ ہو جائے کہ آپ اپنے را زدوسروں پر کھو لنے لگیں ۔
۶۔اچھا سامع ہونا:
کو شش کریںآپ اچھا سننے والابنیں ، اس طرح کا ما حو ل بنا ئیں کہ دوسرے اپنے با رے آپ سے با ت کرسکیں، اگر کوئی محسو س کرے کہ کو ئی اس کی با تیں تو جہ سے سننے والا ہے تو وہ آسانی سے اپنے احسا سا ت وجذبا ت آپ کے سامنے کھول دے گا اور آپ کے ساتھ رابطہ پید اکر لے گا، یہاں سننے والا اس پر اچھی طرح اثر اندا ز ہو سکتا ہے ،رسولِ خدا ؐ بہت اچھے سامع تھے اور آپؐ کی یہی پسند یدہ خصلت آپؐ کی لوگو ںکے درمیان مقبولیت اور محبوبیت کا بہت بڑا سبب تھی جس کی وجہ سے حضرت ؐ نے لوگوں پر اپنے گہرے اثرات چھو ڑے۔
۷۔جذبات واحساسات کا اظہار:
ایک مؤ ثر رابطہ برقر ار کر نے کے لئے بہترین سبب مخاطب کے جذبات کو اچھے طریقے سے پرکھ کر انہیں واضح کرنا، اس کہنے والے کے لئے اپنے احسا سا ت ظا ہرکرناتا کہ اسے پتہ چل جائے کہ آپ ا س کی با ت سمجھ چکے ہیں اور اسے اہمیت دے رہے ہیں۔
اچھا سا مع وہ ہے جو مثبت جذبا ت کا اظہا رکرکے اپنی تا ثیر میں اضا فہ کر سکے اور جذبات کے اظہار کیلئے جیسے اس کی با ت کی تا ئید کے طورپرسرکا ہلانا، اس کی با ت پر تعجب کے طور پر آنکھیں زیادہ کھو ل کے چہرے پرتناؤلے آنا، زبان سے اسے شا با ش دینا اور بعض عمو می طور پرکہے جانے والے تائیدی کلما ت جیسے بہت خو ب ، وا ہ واہ وغیرہ سے استفادہ کرنا ،دوسرے لفظوں میں مخا طبوں کی گفتنی و نا گفتنی پیغا ما ت کے جواب میں آپ اپنا سچا رد عمل جو کہ صداقت و ہمدردی پر مشتمل ہو گا،ا ظہار کریں تا کہ انہیں ا حسا س ہو کہ ان کی بات توجہ سے سنی گئی ہے اس طرح وہ مزید کھلیں گے۔
۸۔احترام دینا :
دوسروں کی شخصیت کا پا س رکھتے ہو ئے انہیں احترام دیں ،آپ ایساکا م کریں کہ اسے اپنی شخصیت و اہمیت کا احسا س ہو۔
۹۔غیرمشروط مثبت احترام :
آپ ایسا ظا ہر کریں کہ وہ سمجھے آپ اس کی ذا ت کی وجہ سے اسے احترام دے رہے ہیں اور اس کے نقا ئص و عیوب اس احتر ام سے ما نع نہیں ہیں ،آپ کی یہ مثبت احترامی پا لیسی اسے اپنی قدر و قیمت کا احسا س دلا ئے گی اور آپ کی با ت کی تا ثیر کے امکانات اس سے بڑھ جائیں گے لہٰذا اس کا اس کی ذا ت کی وجہ سے صد ق ِدل سے احترام کریں ۔
۱۰۔جذبہ و رغبت:
آپ جو مثبت کا م کر نا چاہتے ہیں اس کے با رے میںمخا طب میں شدید رغبت پیداکریں اور اس کی انجا م دہی کے لیے ضروری نفسیا تی ما حو ل ایجا د کریں ،مخا طب میں معمو لی سی بہتری کی بھی خو ب تعریف کریں، اسے شا با ش دیں، آپ اس طرح اظہا ر کریں کہ وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ مثبت راستے پر گا مز ن ہو چکا ہے اور اب وہ اپنی مشکلات کو اچھے طریقے سے حل کرسکتا ہے۔
۱۱۔پسندیدہ برتاؤ:
آپ جس اچھے رویے کی دوسروں سے تو قع رکھتے ہیںاسی کو خود بھی اپنا ئیں یعنی جو با ت آپ اپنے لئے چاہتے ہیں دوسروں کے لئے بھی وہی چاہیں ۔
۱۲۔زبردستی سے اجتنا ب:
اپنے نظریات دوسروں پر زبر دستی نہ ٹھو نسیں لو گ ایسے شخص کی با ت نہ سنتے ہیں اور نہ اس پراعتما د کرتے ہیں،(۳)لہٰذا ان کو حکم دینے کے بجا ئے اپنے نکتہ نظر کو سوا ل کی صورت میں پیش کریں کیونکہ لوگ حکم کو پسند نہیں کرتے۔
۱۳۔تحفہ دینا:
بعض دفعہ ہدیہ و تحفہ کے ہتھیا ر سے بھی فا ئد ہ اٹھا نا پڑتا ہے کہا گیا ہے ’’الانسان عبد الاحسان ‘‘ لوگ احسان کے غلام ہیں، دوسروں پر احسان و بھلا ئی کرنے سے ان پراثراندازی کے امکا نا ت کئی گنا بڑھ جاتے ہیں لہٰذا آپ دوسروں سے جوکا م کروانا چاہتے ہیں اس پر انہیں خو شحا ل کریں ۔
رسول خدا ؐؐ سے روایت ہو ئی ہے کہ:
تہا دوافان الھدیۃ تضعف الحب وتذھب بغوائل الصدر(۴)
ایک دوسرے کو تحفے تحا ئف دو اس سے محبت دو گنا ہو جا تی ہے اور دل کے کینے ختم ہو جاتے ہیں ۔
جب تحفہ دینے سے محبت پید ا ہو جا ئے تو اس کے ذریعے اس کے اعتما د کو حا صل کیا جاسکتا ہے جس سے آپ بہتر طورپر اثر اندا ز ہو سکیں گے ۔
۱۴۔خوش گفتاری:
خوبصور ت گفتگو کو سحر و جا دو سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ انسا ن کے دل کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے، لہٰذا آپ بھی مؤثرگفتگو کیلئے لفظوں کے انتخاب میں خوب دقت کریں، مختصر جملے ہوں لیکن خوبصورت عبارت کے ساتھ۔
۱۵ ۔عملی تبلیغ:
کسی پرا ثرڈالنے میں انسان کا اپنا عمل بہت مو ثر ہے ،اما م صادق ؑ نے فرمایا :
کونوادعا ۃ النا س بغیر أ لسنتکم
لوگوں کو نیکی و بھلائی کی طرف زبان کے علاوہ عمل کے ساتھ دعوت دو۔(۵)
لوگوں کاعمل و کر دا ر سب سے زیا دہ دوسروں کے ذہنوں میں اپنے نقو ش چھو ڑتا ہے یہا ں تک کہ کہا گیا ہے کہ جو ان پر اثرانداز ہونے کے لئے با تیں کم کرو اور عمل زیا دہ کرو۔
۱۶۔جو ان کی پہچان:
جوانی کے دورکی خصوصیا ت کے بارے مکمل پہچا ن حا صل کر کے اس دور کے تقاضوں اور خصوصیا ت کو سامنے رکھتے ہو ئے ان کے ساتھ ارتبا ط یا اثرانداز ہونے پر اقدام کریں، لہٰذا جوانوںکے ساتھ مؤثر روابط پیداکرنے کے لئے دورِ جوانی کی ضروریات اوراجتما عی ونفسیا تی مختلف خصوصیات کے بارے میںوسیع معلومات کا حا صل کرنا ضروری ہے۔
۱۷۔اختلاف و تفاوت کو مد ِنظررکھنا:
افراد کے درمیا ن فرق و اختلاف کے بارے میں بھی متو جہ رہنا چاہیے ،کبھی بھی دو افراد کو ایک دوسرے پر قیا س نہیں کیا جا سکتا ، اگر کسی ایک میں ایک مثبت چیزپا ئی جا تی ہے تو آپ کے پاس آنے والے میں اس چیز کے نہ ہونے پر اسے سر زنش و ملا مت نہیں کی جا نی چاہیے۔
۱۸۔مطابقت و موافقت:
مطابقت کی روش مؤثر روابط کے پرانے طریقوں میں سے ایک ہے ،جو ان کے ساتھ مطابقت کے لئے اس کی صورت حال میں اپنے آپ کو قراردینا ہو گا یعنی کو شش کریںدنیا کو جوان نظر سے دیکھیں مثلاً ایک جوان چاہتا ہے کہ معاشرے کے ساتھ چلنے کے ذریعے وہ اپنے استقلال کو حا صل کر سکتا ہے، اس کے ذہن کی دنیا ایسے مضامین سے بھری پڑی ہے جو اس کی ضروریات کے ترجمان ہیں ،اب اگرا س کی دنیا سے بے توجہی کر تے ہو ئے صر ف اس کی چند ضروریات کو سامنے رکھ کر اس کے ساتھ رو ابط پیدا کر نا چاہیں تو قوی احتما ل ہے کہ مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
۱۹۔سوچ ابھارنا:
اپنے رجوع کرنے والوں سے خصو صا ً اگر وہ جو ان ہیں تو ان سے مربوط معاملات کے بارے ان سے مشورہ طلب کریں یعنی کو شش کریں ا س کی فکر کو اس مطلوبہ کام کے بارے فعا ل کریں اور آپ ایسا طریقہ اپنا ئیں کہ خود وہ اپنی سو چ کو استعمال کرتے ہو ئے صحیح راہ ِحل کو پا لے۔
۲۰۔دلی ہمد ردی:
پریشا نی و اضطرا ب کی حا لت میں اس سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کریں،(Empathy) اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی اندرونی کیفیت کا ادر ا ک کر کے اس میں شریک ہو جا نے کی صلاحیت ہو، اس طریقے سے خود کو اس کی جگہ قراردے کر اس کی اندر کی دنیا اورتجربات تک پہنچا جا سکتا ہے، اس طرح سے شخص دوسروں کے مختلف اندرونی ابا ل ، اضطراب اور مشکلات کا بہترادراک کر سکتا ہے، یو ں وہ بھی اپنے جذبات کو اپنی گفتگو میں بیا ن کر دے گا اور بہتر و پا ئید ا ر ارتبا ط پیدا ہو گا،ایسی صورت حا ل میں شخص اس کی باتوں کے بارے میں بہترغوروفکرکرتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی مشکلات کی اصلی وجہ معلوم کر کے اسے حل کر سکتا ہے،خد اند تعالیٰ نے پیغمبرِاکرم ؐ کی صفت یوں بیا ن فر ما ئی:
لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْم(۶)
آپ کی طر ف تم میں سے ایسا رسو ل آیا ہے کہ تمہا ری مشکلات اسے شا ق گذرتی ہیں وہ آپ کی ہد ایت کا بڑا ہی خواہشمند ہے اور مو منین کی نسبت بہت شفقت و رحم کر نے والا ہے۔
اس آیت میں ’’ مِّنْ أَنفُسِکُم ‘‘ سے لو گوں سے بہت گہرا ارتبا ط مر اد ہے، گو یا لوگو ں اور معاشرے کا ایک حصہ رسول اکرم ؐ کی صورت میں ظہور پذیر ہو گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو جب کوئی تکلیف یا مشکل پیش آتی ہے تو حضور ؐ کے لئے سخت ناگو ا ر ہو تی ہے ،وہ لو گو ں کے حوالے سے غیرجانبدا رنہیں ہیں بلکہ ان کے غم میںشریک ہیں ،حضور ؐ کی یہ با طنی صفت باعث بنی کہحضورِاکر م ؐ لوگوں کے دلو ں میں جگہ پیدا کر لیں اور اس کی وجہ سے آپ کی تاثیر ان پر کئی گنا بڑھ گئی۔
۲۱۔لچک :
عین سنجیدگی اور اصول پسندی کے با وجود منا سب حد تک لچک کا رویہ بھی با قی رہنا چاہیے، یہ توقع کبھی نہ رکھیں کہ کسی کی رفتا ر و کر دا ر میں اصلاح یک دم حا صل ہو سکتی ہے بلکہ اس کے لئے وقت چاہیے، لہٰذا اسے منا سب وقت اور مو قعہ دیا جا ئے تا کہ وہ آپ کی با توں سے متاثر ہوکراپنے اند ر آہستہ آہستہ تبدیلی شر وع کر ے ۔
خدا وندتعالیٰ نے بھی رسول اکر م ؐ کی اس صفت پر تعریف فر ما ئی اور اسی صفت کو آپ کی کامیابی کی ایک وجہ قرار دیا ہے ارشا دہوتا ہے ۔
فَبِمَارَحْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِک(۷)
خداکی رحمت سے آپ لو گو ں پر بہت مہربا ن اورنرم دل ہیں اگرآپ تندخو اورسخت دل ہو تے تو لوگ آپ کے اطراف سے تتربترہوجا تے ۔
لہٰذاگرآپ حضوراکرمؐ کی مانندمثبت تاثیرپیداکرناچاہتے ہیں تودوسروں کی نادانیوں اورنقائص پرآپ کوبردباری اورلچک کا مظاہرہ کرناہوگا۔
(حوالہ جات)
(۱) محمد ی ری شہری ، دوستی در قر آن و حدیث ترجمہ سید حسن اسلامی / ص ۶۲
(۲) عبد الحمید بن ابی الحدید شر ح نہج البلا غہ ج ۲۰ / ص ۳۳۳
(۳) تفصیلا ت کے لئے دیکھیں : الف ڈیل کا رنگی ، آئین دو ستیا بی ، ب : سید ھا دی مدرسی ، دوستی و دوستا ن ، پ : محمد ی ری شری ،دوستی در قرآن و حدیث
(۴) دوستی درقرآن و حدیث ص ۹۸ ، حدیث / ۲۷۸
(۵) اصول کا فی با ب الصدو ق و ادا ء الامانۃ
(۶)توبہ آیت ۱۲۸
(۷)آل عمران ۱۵۹