حجاج کا انجام
راغب اصفہانی اپنی کتاب محاضرات میں لکھتے ہیں کہ:ایک دن حجاج بن یوسف اپنے گھر سے جامع مسجد کی طرف جا رہا تھا کہ اس نے بہت چیخ و پکار سنی ،پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے؟اسے بتایا گیا کہ یہ قیدیوں کی چیخیں ہیں جو دھوپ کی تمازت کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں۔
اس ملعون نے کہا:’’اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ‘‘دور ہوجائو اور مجھ سے بات نہ کرو۔
حجاج نے سورہ مومنون کی آیت پڑھی اور اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب دوزخی جہنم سے نکلنے کی خواہش کریں گے تو پروردگار کی آواز آئے گی کہ دور ہوجائو اور مجھ سے بات نہ کرو۔
لفظ اخسا عربی لغت میں کتے کو دھتکارنے کے لیے بولاجاتا ہے ،حجاج کی موت کے بعد جب قیدیوں کو گنا گیا تو ان میں ایک لاکھ بیس ہزار مرد اور بیس ہزار عورتیں تھیں، ان میں چار ہزار عورتیں ایسی تھیں جن کے بدن پر لباس تک نہیں تھا اور یہ قیدی ایک ہی چار دیواری میں بند تھے،قید خانے کی چھت نہیں تھی،جب کوئی قیدی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے چہرہ چھپاتا تو سپاہی اسے پتھر مارتے تھے،انہیں جو کی روٹی میں ریت ملا کر کھلائی جاتی تھی اور پینے کے لیے کڑوا پانی دیا جاتا تھا۔
حجاج بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کا خون بہانا اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا۔
ایک دن اس ملعون نے روزہ رکھنا چاہا تو نوکروں کو حکم دیا کہ اس کے لیے من پسند سحری اور افطاری کا انتظام کیا جائے،چنانچہ اشارہ فہم نوکروں نے اس کے لیے ایسی روٹیاں تیار کیں جنہیں سادات کے خون سے گوندھا گیا تھا،اس ملعون نے انہیں روٹیوں سے سحری و افطاری کی،اس ملعون کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہتا تھا کہ وہ واقعہ کربلا میں موجود نہ تھا ورنہ وہ شمر سے بھی بڑھ کر ظلم کرتا۔
حجاج نے کوفہ و بصرہ کے درمیان شہر واسط کی بنیاد رکھی تھی جہاں وہ نو ماہ سے زیادہ عرصہ قیام نہ کرسکا اور ۵۳ برس کی عمر میں واصل جہنم ہوگیا۔
ابن خلکان لکھتے ہیں کہ حجاج کو ’’مرض آکلہ‘‘لاحق ہوگیا،اس کے جسم کے اندر کیڑے پیدا ہوگئے،ایک طبیب کو بلایا گیا تو اس نے گوشت کی ایک بوٹی ریشم کے دھاگے کے ساتھ باندھی اور حجاج سے کہا کہ وہ گوشت کی بوٹی نگل لے،حجاج نے بوٹی نگل لی،کچھ دیر بعد ریشم کی ڈور کو کھینچا گیا تو اس بوٹی پر بہت سے کیڑے چمٹے ہوئے تھے۔
خدا نے حجاج کے جسم پر سردی کو مسلط کردیا،اس کے اطراف میں دن رات کوئلوں کی انگیٹھیاں جلائی جاتی تھیں لیکن وہ پھر بھی سردی سے چلاتا رہتا تھا،اس نے حسن بصری سے اپنی تکلیف بیان کی تو انہوں نے فرمایا:میں نے تجھے بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کے قتل سے باربار منع کیا تھا لیکن تو باز نہ آتا تھا آج تو اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
حجاج نے کہا:میں خدا سے یہ دعا نہیں کرتا کہ وہ مجھے دوزخ سے آزاد فرمائے، میری اس سے سے بس اتنی سی دعا ہے کہ جلدی سے میری روح قبض کرلے تاکہ میں دنیا کی تکلیف سے چھٹکارا پالوں۔
قاضی نور اللہ شوستری مجالس المومنین میںلکھتے ہیں کہ موت کے وقت حجاج رونے لگا،اس کے وزیر نے رونےکا سبب پوچھا تو کہنے لگا:میں نے لوگوں پر بہت ظلم کیا ہے اور بالخصوص اولاد پیغمبرؐ پر میں نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں،خوشامدی وزیر کہنے لگا:امیر آپ کیوں گھبراتے ہیں؟آپ نے جو کچھ بھی کیا ہے دلیل کے تحت کیا ہے اور اسے کسی طرح بھی ظلم نہیں کہا جاسکتا،حجاج نے کہا:اگر قیامت کے دن مجھے حکومت دے دی جائے اور تو اس دن بھی میرا وزیر ہو تو وہاں بھی یہی دلیل ہمیں کام دے گی،سنو میں بخوبی جانتا ہوں کہ میری موت کا وقت آچکا ہے اور دوزخ میرا انتظار کر رہی ہے،خدا نے چاہا تو دوزخ میں بھی ہم دونوں کی جوڑی قائم رہے گی۔
(حوالہ)
(روضات الجنات ص۱۳۳)