دین سے انحراف
سوال ۱۰:دین سے انحرا ف کا مقا بلہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور نوجوانوں میں موجود اس مرض کا علاج کیسے ممکن ہے؟
دین سے دوری کو روکنا
دین سے دوری کو روکنے یا اس کے علا ج کے لئے جوانوں کے نفسیاتی پہلوؤں اور ذاتی خصوصیات کو سامنے رکھنا ہو گا،یہ با ت بہت ہی اہمیت کی حا مل ہے کہ جو انوں کو دینی معا رف کس اندازمیں پیش کئے جا رہے ہیں ،لہٰذا اصل سوا ل یہ ہے کہ جو انو ں کو کس طرح دینی معارف کی تعلیم دی جا ئے تا کہ ان کی دین کے حوالے سے شنا خت و معرفت کی کمی دور ہو سکے ؟ اس سوال کدین سے انحراف ہے جو اب کے لئے چند امورپرتوجہ ضروری ہے ۔
۱۔جو انوں کی شنا خت و پہچان:
تعلیم و تربیت کے اصولوں میں سے ایک اصول اپنے مخا طب کی صحیح شنا خت ہے ایک خطیب ، فلم سا ز یا مصنف اپنے مخاطبوں کو نہ پہچانے اور اسے معلو م نہ ہو کہ وہ معرفت ، جذبے اور استعداد کے کس مرحلے میں ہیں ہے تو اس کے مطالب اگر چہ علمی لحاظ سے بڑے دقیق و قیمتی ہوں ، مؤثر نہیں ہو ں گے ،کیونکہ ان کے مطالب یاتو مخاطب کی شناخت کی سطح کے نہیں ہیں یا پھراس کی ضروریات اور میلا نا ت سے میل نہیں کھا تے لہٰذا مخا طب میں ان مطالب کو سمجھنے اور یا د کرنے کاشو ق ہی مو جود نہیں ہو گا ،پس مخا طب کی نفسیاتی ،ذہنی اور اجتماعی کیفیا ت کو سمجھنا ضروری ہے ۔
۲۔بہترین روش و طریقہ کی شنا خت :
ایسے تعلیمی و تربیتی طریقے معلو م ہونے چا ہئیں جو مخا طب سے مناسبت رکھتے ہوں ،کلی طورپردینی تعلیما ت میں طریقے ذکر کئے جا تے ہیں ، طریقۂ تبلیغ ، طریقہ ٔ تدریس ، روش تربیت اورمشورہ، نو جوانوں کی معرفتی اور جذبا تی کیفیت کے پیش اور نظر وہ روش زیا دہ دلچسپ اورجاذب ہو تی ہے جس میں درج ذیل خصوصیا ت موجود ہوں۔
۱۔ جس میں ارتبا طی عنصر زیادہ مضبو ط ہو ۔ ۲۔ جس میں دو طرفہ ارتبا ط ہو
یعنی جو ان صرف پیغام سننے والا ہی نہ ہو بلکہ وہ حسب ضرورت خود بھی ارتبا ط بر قر ار کرے،پیغام پہنچا نے والا بھی جو ان کی ضرور ت کے مطابق پیغام کو جوا ن کے جذبا ت اور معرفت و شنا خت کو سامنے رکھ کر اسے پہنچائے ۔
۳۔ جس میںجوا ن کی ضروریا ت اور جذبا ت کا زیا دہ خیا ل رکھا گیا ہو ۔
۴۔ جس میں جوا ن کو رد عمل دکھا نے کا مو قع دیا گیا ہو ۔
مشو رہ کا طریقۂ کار
مذکو رہ با لاچا ر طریقوں میں سے جس طریقے میں اوپر والی خصوصیات سب سے زیا دہ پائی جا تی ہیں وہ روشِ مشورہ کا طریقہ کار ہے۔ (۷)
اس طریقہ میں ابتدا ء سے ہی دو طر فہ رابطہ ہو تا ہے کیو نکہ ہر شخص اپنی ضروریا ت اور اعتما د کی بنیاد پر مشیر کی طرف رجو ع کر تا ہے ،اگر دو طر فہ رابطہ نہ ہو تو مشورے کی صورت پیدا ہی نہیںہو سکتی ، دوسرے لفظوں میں شخص کی اندرو نی ضرورت اسے مشیر کے پا س لاتی ہے نہ کہ کسی کے مجبو ر کرنے سے وہ آیا ہے ۔
مشیرمیں تین عنصر ہو تے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک شخصیت کی تشکیل کا ایک رکن قرار پاتا ہے ۔
۱۔عنصرِ محبت و عطو فت ۲۔ عنصر جذبا ت ۳۔ عنصر معرفت و شنا خت
۱۔عنصرِمحبت و عطوفت
مشیر کو چا ہیے کہ مشو رے کے لئے آنے والوں کے ساتھ روابط پیدا کرے اور محبت و عطوفت کے روابط چا ر خصوصیّتوں پر مو قو ف ہیں ۔
۱ ۔قلبی ہم آہنگی :
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے با طنی تجر با ت کے ادرا ک اور ان میں شریک ہو نے کی قدرت رکھتا ہو یعنی خو د کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر ان کے اندر کی دنیا تک پہنچ سکے اور اندرونی معرفت و شناخت کو پا سکے ۔
۲۔بغیر کسی شرط کے مثبت قبولیت:
مشیر کو چا ہیے کہ وہ مشورے کے لئے آنے والوں کے ساتھ دو ستا نہ تعلقا ت استحار کرنے کے لئے کسی شر ط و قید کے بغیر ان کا احترام کر ے کیونکہ وہ انسا ن ہے اور مثبت ما ہیت رکھتا ہے دوسرا یہ کہ اگر بغیر کسی شرط و قید کے ان کا احترام کیا جائے گا تو وہ آسا نی سے پیغا م کو دریا فت کر یں گے اور اس کے مقا بل زیادہ مز احمت نہیں کر یںگے ،اسلام ِبھی اپنا پیغام ِہدایت پہنچا نے میں اسی اصو ل پر کا ر بند ہے۔
۳۔صداقت:
صدق ِدل رکھتا ہو،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے احسا سا ت و افکا ر سے آگا ہ ہے اور دوسروں کو ان میں شر یک کر تا ہے، جن میں صدا قت ہوتی ہے وہ بناوٹی بر تا ؤ نہیں کر تے۔
۴۔دلچسپی سے سننا:
مشو رے کے لئے آنے والوں کی با تیں مکمل دلچسپی سے سنے یعنی انہیں دھرا ئے، بیچ میں وضا حت طلب کرے ،اس طرح کرنے سے مشیردرحقیقت آئینہ کی طرح شخص کو اس کے افکا ر دکھا تا ہے، یہ چیزان دونوں کے درمیا ن صمیمی روابط ایجادکر نے میں بہت مو ٔثرواقع ہو تی ہے ، (۸)مشورے کے عنصر میںشخص کے جذبات (جواس کی ضرورتو ں کے ترجما ن ہو تے ہیں)پر توجہ کی جاتی ہے، اس کی ضروریات پر تو جہ کر نا مر بّی اور تربیت پا نے والے کے د ر میان تعلیم و تر بیت کو آسان بنانے کا ذریعہ ہے ،مثال کے طور پر کو ئی طا لب علم طب کے شعبے سے متعلق ہے یا انجینئرنگ کے شعبے سے ہے تو وہ کو شش کرے گا کہ ہرحالت میں کلا س میں شرکت ضرورکرے تاکہ جوضرورت کی معلو مات ہیں ان میں مہارت پیدا کرے، تووہ اپنے آپ سے کہتا ہے مجھے ان کلا سوں میں ہر حا ل میں شریک ہو نا ہے دینی معلم و مربی کو بھی اسی طرح کاا حسا س اپنے شا گر د و مخا طب میں پیدا کر نا چاہیے ، پیغمبرِ اسلام ؐ نے اپنی رسالت کے آغا ز میں لو گو ں سے فر مایا ’’قولوا لا الہ الا اللّٰہ تفلحوا‘‘(۹) فلاح اور راستگاری لوگو ں کی حقیقی خوا ہش ہے پیغمبر اکرم ؐ نے لوگوں کی اسی حقیقی خواہش پر تو جہ فرمائی اور لوگوں کو تو جہ دلا ئی کہ وحدانیت جو کہ دینی اعتقا دات کا حقیقی جو ہر
ہے، آپ کو آپ کی اس ذاتی و فطری خواہش تک پہنچا سکتی ہے اور آپ کی سعا دت صرف دینی تعلیمات پر توجہ ہی میں ہے، جب کہ خو د یہ تعلیمات تمہاری سرشت و فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگ و مو ا فق ہیں ۔
قرآنِ کر یم نے اس حقیقت کو بیا ن فر ما یا ہے :
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ(۱۰)
اپنی تما م تر تو جہ خدا پر ستی والے دین کی طرف موڑ لو اس حا ل میں کہ با طل دین سے ہٹ کر اپنا رخ دین حق کی طر ف مو ڑ لو یہ وہی فطرت ہے جس پر خد ا نے لوگو ں کو خلق کیا ہے خدا کی تخلیق میں کو ئی تبدیلی نہیں ہو تی یہ سید ھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
در حقیقت رسولِ خدا ؐ نے لوگوں سے رابطہ پیدا کر نے کے بعد عنصر خو اہش پر تو جہ فرمائی اور یہی چیزباعث بنی کہ لوگ جو ق در جو ق حضر ت کی طرف کھنچے چلے آئے اوروحی کےصاف و شفاف چشمے سے اپنی پیا س بجھا نے لگے او ر یہ با ت تو جہ کے قا بل ہے کہ حضو ر اکرم ؐ پر ایمان لانے والوں میں اکثریت جو انو ں کی تھی۔
۲:جذبا تی عنصر
یہ عنصر لوگو ں کے جذ بات پر مشتمل ہے کہ جو کسی کے رفتا ر و کر دارکو ہد ف کی سمت میں فعال کر تے ہیں۔
مشورے کے نمو نہ عمل میں یہ ضروریا ت ،احسا سات اور میلا نا ت مشیر کے لئے مو رد تو جہ ہو تے ہیں کیونکہ ان پر تو جہ کئے بغیر وہ شخص کی صحیح رہنمائی نہیں کرسکتا، یہ زندگی کی ابتد ائی ضروریات سے شر و ع ہو کر اعلیٰ انسا نی ضروریات تک، جیسے خو بصورتی کی شناخت کی خواہشات ، کمال طلبی ، عشق اور جا و دانگی وغیرہ سب کو شا مل ہیں ۔
وہ چیزجوطریقہ ٔ کارمشو رہ کو دوسرے طریقہ کار معا ہمارا کے مقا بل میں زیادہ مفید بنا تی ہے یہ ہے کہ جب مشیر کے قریبی روابط آنے والوں کے ساتھ استوار ہو جا تے ہیں تو ان کے احسا سا ت، میلانات اور ضروریات کے بیا ن کو زبا ن مل جا تی ہے، اب مشیر کا کا م یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے احسا سا ت و ضرو ریات اُسے بیا ن کر دیئے ہیں تو یہ انہیں پور ا کر نے کی صحیح را ہ کی انہیں نشاندہی کر ے ، انسان کی اعلیٰ انسا نی ضروریات جیسے حقیقت کی تلا ش کما لِ مطلق ، حسن و زیبا ئی اور معنو یت وغیرہ کو دین اور الٰہی معا رف کی ضرورت کی شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے، مشیر آنے والوں کو پہلے یہ بتلا ئے کہ اس کی حقیقی ضرورت کا مصدا ق دینی تعلقا ت ہیں،جب اس میں شنا خت و معرفت کی یہ سطح حا صل ہو جا ئے تو وہ یہ با ت پا لے گا کہ اس کی معنو ی پیا س کو صرف الٰہی معار ف ہی سیرا ب کر سکتے ہیں اور ا س کی اعلیٰ انسانی ضروریات کاحصو ل صرف راہِ ہد ایت و سعادت ہی سے ممکن ہے ۔
۳:معرفت و شناخت کا عنصر
مشیر کو آنے والے کی فکری سطح ِاور معرفت کا خیا ل رکھنا ہو گا او ر اپنے مطالب کو منطقی صورت میں اس کی فکر ی سطح وشنا خت کو مد نظر رکھتے ہو ئے مر تب کرے ، دینی رہنما کو دوباتوں کا خیا ل رکھنا چاہیے ۔
۱۔ مخا طب کی معرفت و شنا خت میں تحو ّل کی سطح کو سامنے رکھے ۔
۲۔ دینی تعلیما ت و معا ر ف کو مخاطب کے فہم کی سطح کے منا سب تر تیب دے۔
علم النفس کے ما ہرین خصوصا ً جو انوں میں معرفت کی ترقی و رشدکے محققین جیسے پیاژہ سمجھتے ہیں کہ جو ان میں فکر ی و معرفت کا تحول انتزاعی و صوری سطح کا ہو تا ہے یعنی وہ تجزیہ و تحلیل اور استدلال کے ذریعے نتیجہ نکا لنے کی قدرت کے حا مل ہوتے ہیں۔ (۱۱)اور عقلی و سطح فکری میں کا فی ترقی کرچکے ہو تے ہیں،ا س روش میں مشیررجوع کرنے والے کی سطح معرفتی میں قرار پا تا ہے، لہٰذا دینی تعلیمات و معا رف کو ان کی فکر ی سطح کے منا سب مر تب کر تا ہے تاکہ بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت انجا م پا سکے،حضور اکرم ؐ کی تعلیم و تر بیت کا بھی یہی اندا ز تھا کہ لوگوں کے ساتھ ان کی سمجھ کے مطا بق گفتگوفرماتے تھے وہ فرماتے۔(۱۲)
انامعا شرالانبیا ء امرنا ان نتکلم النا س علی قدر عقولھم(۱۳)
ہم انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگو ں کے سا تھ ان کی سمجھ کے مطابق گفتگو کریں
رسو ل خدا ؐاور شفقت کا عنصر
رسولِ اکر م ؐ کی عملی سیرت یہ تھی کہ آپ لوگو ں کے ساتھ قلبی تعلق بغیر کسی شر ط و قید کے صداقت کی بنیادوں پر قا ئم فر ما تے اور ان کی با تیں پو ری تو جہ سے سنتے اس کے بعد دینی معارف ان کے لیے بیا ن فر ما تے ،قر آن میں ارشاد ہے :
لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ (۱۴)
بے شک تمہارے پا س ایسا رسو ل آیا ہے جسے تمہا را زحمت میں پڑنا گراں گزرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اسلام ؐ تمہا رے بہت نز دیک اور تمہا را مکمل ادراک رکھتے ہیں، اگر تمہیں کو ئی چھوٹی سی مصیبت بھی پیش آئے تو اس پر بہت گراںگذرتی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ کو امت کے ساتھ انتہا کا انس و محبت تھا، اس کے علا وہ آپؐ ہر انسان کا احترام کر تے تھے حتیٰ کہ وہ بھی جواپنی نا دا نی کی وجہ سے آپ کی تو ہین کے مر تکب ہوتے اس پر بھی آپ مثبت برتا ؤ فرما تے، حضوراکرم ؐ اس کی بیماری میں اس کی عیا دت کو جاتے یہی عمل لوگوں کو اسلام کی طر ف راغب کرنے کا باعث بنا،حضور کے عمل و برتاؤ میں صداقت و خلو ص اس حد تک تھا کہ قرآن فرما تا ہے:
حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ (۱۵)
تمہا ری ہد ایت پر سخت شا ئق ہیں اور مومنین پر مہربا ن و رحیم
حضور ؐنہ صرف یہ کہ لوگوں سے بہت محبت فر ما تے کہ جن کی ہد ایت آپ ؐکا مطمع ِ نظر تھی اور ان کے سا تھ مخلصانہ رو ابط بر قر ار کرنے کے لئے ان کی با توں کو ا س حد تک مکمل تو جہ سے سنتے کہ مخالفین و منافقین نے آپ کو ’’اذن ‘‘ ( کا ن ) کہنا شر و ع کر دیا تو قر آن نے فر ما یا :
ہُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَیْْرٍ لَّکُمْ (۱۶)
وہ (تمہاری بات سننے والے )کان ہیںاور یہ کان تمہارے لئے مفید ہیںاور خیر کا باعث ہیں ۔
تو جہ سے سننا دوسرے بہت سے ارتبا طی طریقوں کی طرح دو طر فہ ہے ،صرف یہ کا فی نہیں ہے کہ سننے والا سر اپا گو ش ہو بلکہ اس کی با تو ں سے جو وہ سمجھتا ہے اس کا خلا صہ اس کہنے والے سے ذکر کرے تا کہ اطمینا ن ہو جائے کہ اس نے اس کی با ت کو پا لیا ہے ،دوسر ی طر ف سے تو جہ سے سننے کی وجہ سے ارتباط کی برقراری کے بارے میں تسلی و اطمینان ہو جاتا ہے جس سے با ہمی تفا ہم و تعلق میں اضا فہ ہو تا ہے،تو جہ سے سننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں اسے توجہ سے سن رہا ہوں نہ یہ کہ جو آپ کہہ رہے ہیں میں اس کے موافق ہوں ۔
مشورہ کے لوازمات
اچھا سننے کا فن : ایک اچھا سامع ہو نے کے لئے ذیل کے امو ر ضروری ہیں۔
الف۔ تو ضیح و تشریح :جو با تیں آپ نے سنی ہیں انہیں وضا حت کے ساتھ کہو تا کہ آپ کو اطمینا ن ہوجا ئے کہ اس کی با ت آ پ نے صحیح سمجھ لی ہے ۔
ب: احسا سا ت کا اظہا ر : جب آپ کا مخا طب غصے میں ہو آپ اس کے سا تھ ہمدردی کا اظہا ر کریں اس طرح اگر اس میں جو ش و جذ بہ ہے تو اس کے مطا بق آپ بھی ردِعمل کا اظہار کریں۔
ج: مطالب کا دھر انا: آپ کہنے والے کی با تو ں کا خلا صہ اس کے سا منے دھرائیں۔
د: جملہ بندی:کہنے والے نے ممکن ہے مطلب کو مختلف جملو ں میں کہا ہو آپ اس کے مختلف مطالب کو ایک جملے میں بیان کریں ۔
ہ: اپنے ذہنی تصورات کا بیان :آپ اپنے آ پ کو اس شخص کی جگہ رکھ کر دیکھیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں ۔(۱۷)
۲: معرفتی نفسیا ت اور تربیت کے بارے میںمعلو ما ت حا صل کرنا
یہ چیزمشیر کیلئے بہت ضروری ہے اور اس کے لئے اسے نفسیات کے موضوع پر مختلف کتب کا مطا لعہ کرنا ہو گا جیسا کہ ایک خطیب کو فن خطا بت کے بارے میں مطالعہ اور تمرین کی ضرورت ہوتی ہے آپ اگر جوانو ں سے سروکا ر رکھنا چاہتے ہیں اور انہیںاسلامی تعلیمات کی تعلیم دینا چاہتے ہیں توآپ پر لازم ہے کہ ان کی ضروریات اور مسا ئل سے آگاہی و واقفیت حا صل کریں اور جوانوں کی نفسیات شناسی کی دنیا میں وارد ہو جا ئیں ،اس کے علا وہ دینی تعلیمات پر بھی آپ کاتسلط ہونا ضروری ہے اور انہیں نوجوان کی فکری سطح کے مطابق منطقی و معقول اندا ز میں پیش کر نے پر بھی قا در ہوں۔
’’مشیر کے کام‘‘
مشیر کا اصلی مقصد دین سے انحر اف کو روکنا یا اس کا علا ج کر نا ہے اور اس ہد ف تک پہنچنے کے لئے اسے ذیل کے کا م کر نا ہو ں گے ۔
۱۔ جوانوں میں دینی تعلیمات کے با رے میں معرفت کی تقویت کر نا ۔
۲۔ دین کے با رے ان کے ذہن میں مو جود سابقہ تعلیما ت کو تبد یل یا اصلا ح کرنا ۔
۳۔ دین کو ضا بطۂ حیا ت کے طور پر پیش کر نا ۔
۴۔ انسان کی حقیقی سعاد ت تک پہنچنے کے وا حد را ستے کے طور پرد ین کو پیش کر نا ۔
۵۔ اُن کا مل شخصیا ت کی مثالیں پیش کر نا جنہوں نے دینی تعلیما ت کے زیر سا یہ ترقی کی ۔
۶۔ دین کو زندگی کے تما م پہلو ؤں میںعملی کرنا ۔
۷۔ انحراف کے اسبا ب کی پہچان کر وا نا ۔
مذکو ر ہ با لا نکا ت کے علا وہ ذیل کے امو ر پر بھی جو انوں کی تو جہ مبذول کرا نا بہت مفید ہے !
۱۔ انہیں یہ بات سمجھا ئیں کہ خدا کے ساتھ رابطہ اور معنو یت کا حصول صرف دینی تعلیمات پر عمل ہی کے ذریعے ممکن ہے اور خدا کے ساتھ تعلق اوررابطہ صرف زندگی کی مشکلات ہی میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ خدا کے ساتھ رابطے کی مکمل تجلی، زندگی کے تما م نشیب و فر از میں نظر آنی چاہیے ، جو انوں کو یہ بات سمجھا نی چاہیے کہ زند گی کے اچھے دنو ں میں یا د خدا میںرہیں تا کہ مشکل دنو ں میں خدا ہمیں تنہا نہ چھو ڑے اور ہما ری مدد کرے ۔
۲۔ جو انوں کے دینی جذبات ابھا رنے کے لئے ضر ور ی ہے کہ ان پر دینی اعتقا د کے اعلیٰ آثارو نتا ئج (فردی و اجتما عی زندگی میں ) واضح کیے جائیںتا کہ ا ن میں خدا کی طرف رجو ع کے جذبات و میلا نا ت پید ا ہو ںاور وہ دین کو خدا کا قیمتی تحفہ سمجھ کر قبو ل کر یں ۔
۳۔ انہیں یہ با ت سمجھا ئیں کہ دینی معا رف اگر آپ کو حا صل ہو جا ئیں تو اس سے رکاوٹ ڈالنے والے عوامل جیسے اضطراب ، پریشا نی یا ذہنی دبا ؤ جیسے مسا ئل پر بھی قابو پا سکتے ہیں ،یوں آپ ایک پر سکو ن زندگی گزاریں گے ۔
۴۔ خا لص دینی معا رف اور دیند اروں کی عملی سیرت کے ذریعے انہیں خدا وند تعالیٰ سے ارتبا ط کے صحیح طریقے بیا ن کریں، ایسے طریقے جو جو ان کو عقلی راستے سے بھی اور عشق کے را ستے سے بھی حقیقتِ مطلق کی طرف رہنما ئی کریں۔(۱۸)
۵۔ جوانوں کو بتلا ئیں کہ دینی تعلیما ت پرعمل انسان کو عزت نفس ، شخصیت اور خوداعتما دی عطاکرتا ہے اوراس کی تمام تگ و دو کی صحیح جہت میں رہنما ئی کر تا ہے ، وہ اس ہد ایت کے پرتومیں دوسروںکوجذب کرسکتے ہیں،اپنے اجتما عی روابط کو عظمت عطا کرسکتے ہیں اورایک کا میا ب معاشرتی زندگی کے خطوط معیّن کر سکتے ہیں ۔
۶۔ انہیں متو جہ کیا جائے کہ اولیا ء الٰہی کی سیرت اور بز رگا نِ دین کے حالا ت کا مطالعہ ا ن کے لئے بہترین نمو نۂ عمل بن سکتا ہے اور انہیںنمونہ بنا تے ہوئے خدا وندتعالیٰ کی قربت کے بہترین طریقے حاصل ہو سکتے ہیں ۔(۱۹)
۷۔ جو انو ں کو یہ بات سمجھا ئی جا ئے کہ خا لق ازلی کے زیا دہ سے زیاد ہ قریب ہو نے کا را ز اس کے واجبا ت کے اوپر عمل اور اس کے محر ما ت کو تر ک کر نے میں مضمر ہے۔
(حوالہ جات)
(۱) ہود / ۲۹
(۲) میز ان الحکمۃ ج ۲ / ص ۱۵۳
(۳) یعنی دوسر ے کی پیرو ی یہ ایک ذہنی حا لت ہے کہ جو شخص اخلا قی احکا م دوسروں سے لیتا ہے۔
(۴) یعنی اپنی پیروی اس میں شخص اپنے معین کردہ اصول و اخلاق کا پیر و ہو تا ہے۔
(۵) حسن بن شعبہ ، حرانی ، تحف ا لعقول/۸۲
(۶) بحا ر الانوا ر ج ۱۰ / ص ۲۱۹ حدیث ۱۴
(۷)مزید تفصیلات دیکھیں : ابو القا سم : بشیری ، مشا ور، الگو ؤئی بر تر در آموز ش دینی جو انا ن ( فصلنا مہ معرفت آذ ر ما ہ ۸۳ شما رہ ۸۴)
(۸)برای آگاہی بیشتر نگا،کارل،ہافمن (ودیگران)روان شناسی عمومی از نظریہ کار برد،ج۲،ص ۲۲۹۔۲۲۸
(۹)فروغ ابدیت، جعفر سبحانی ج۱ ، / ص۱۳۶۰
(۱۰) سورروم آیت۳۰
(۱۱) رابرٹ بیلر کار بر د روان شنا سی در آمو زش ترجمہ پر وین کد پور ج۱ /۱۸۰
(۱۲) رابرٹ بیلر کار بر د روان شنا سی در آمو زش ترجمہ پر وین کد پور ج۱ /۱۸۰
(۱۳) بحا ر الانو ار ج ۱ / ص ۸۵ نقلی از در اآمدی بر نظا م تربیتی اسلام / ص ۵۸
(۱۴) توبہ آیت۱۲۸
(۱۵) توبہ /۱۲۸
(۱۶) توبہ آیت/۶۱
(۱۷)کریس کول ، کلید طلائی ارتباط ترجمہ محمد رضا ال یٰسین
(۱۸)مجمو عہ مقا لات اولین ہمایش نقش دین در بھدا شت روان ( قم : دفتر نشر نو ید اسلام چاپ اول ۱۳۷۷)
(۱۹) اولین ہمایش بین علل نقش دین در بھدا شت روازن