دین سے دوری
سوال ۹:جب دین فطری امرہے تو پھرجو ان دین سے دورکیوں بھا گتے ہیں ؟
جوانوں کی دین سے دوری کا موضوع ہما رے معاشر وں میں ہمیشہ دینی علما ء ، دین داروں اور متدیّن خاندانوںکے لیے تشویش کا باعث رہا ہے اور جوانوں کے لئے بھی یہ بہت بڑا خطرہ رہاہے، یہ بدبختی آج کی پیدا شدہ مشکل نہیں ہے بلکہ پہلے دور میں بھی تھی اور ہمیشہ انسانی معاشروں کا اس سے واسطہ رہا ہے، البتہ آخری صدیوں میں خصوصا ًبیسویں صدی سے دین سے دوری دنیا کے اکثر حصوں پر چھاچکی ہے اورآج جو الحا دی فلسفی مکا تب فکر ( جیسے مادیت پسند و میڑیل ازم، ڈیا لٹیک یا اگز یسٹینشا ازم الحادی)یا دین کے مخالف آئیڈیالوجی (جیسے کمیونزم ، لبرل ازم ، سیکو لرازم وغیرہ)یہ سب اس منحوس حقیقت کی پیدا وار ہیں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ انسان جو کہ دین کا شو ق رکھتا ہے اور اس کے اندر سے دین کے سا تھ فطری وتکوینی ارتبا ط برقرارہے ، کیوںدین سے دوربھا گتا ہے اور کیوں دین سے دوری نوجو ان نسل میں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے ؟
ہما ری نظر میں دین ِ الٰہی میں ایسا کوئی عنصرموجودنہیں ہے جواس سے دور ی کا باعث بنے، اگر لوگ دین کی صحیح معرفت حا صل کر لیں اور دین حق کا صحیح ادراک کر لیں تو وہ کبھی بھی دین سے دور نہیں بھا گیں گے ، اس کے علا وہ عقل و عشق جو کہ انسا نی زندگی کے اہم رکن ہیں اور تما م جا ذبہ و دا فعہ انہی کی بنیا د پر حا صل ہو تا ہے ،یہ دونوں دین کے متن میں واقع ہیں اور دین دونوں کے ساتھ با قی ہے، دین جس طرح انسانی ذہن کو غذا فر اہم کر تا ہے اسی طرح اس کے د ل کو حیات حرکت اور نشا ط عطا کر تا ہے، لہٰذا دین سے دوری کی وجہ دین کے اندر سے نہیں بلکہ دینی تعلیما ت سے ہٹ کر یعنی با ہر سے تلاش کرنا ہوگی ۔
یقینا بہت سے عوامل و اسبا ب دین سے دور ی کاسبب بنتے ہیں لیکن ان سب کو دو قسموںمیںتقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
الف: ما حو ل سے مربو ط عوامل جیسے اجتما عی، اقتصادی، ثقافتی اور سیا سی مشکلا ت
ب: انسان کے اندرونی و ذہنی عوامل
مختصراً یہاں پرجوانوں میں دین سے دوری کی فقط نفسیاتی وجوہات اورعوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔معرفت کی کمزوری
انسان کی شخصیت کی تشکیل میں جو چیزیں دخیل ہیں ان میں سے ایک اس کا معر فتی پہلو ہے، ہرانسا ن زندگی کے شروع سے آگے بڑھنے کے تما م مراحل میں ہرمرحلے پرمعرفت و شناخت کی صلا حیتوں کا مالک ہو تا ہے ، ماہر ین اس رشد و تکا مل کو تین مرحلوں پر تقسیم کرتے ہیںـ:۱۔حسی و حرکتی مرحلہ( عمر کے پہلے دو سا ل ) ۲۔خا رجی منطقی سرگر می کا مرحلہ (۶سا ل کی عمرتک)۳۔منطقی صوری سرگرمی کا مرحلہ یعنی جس میںوہ نتا ئج اخذ کر سکتا ہے۔
یہ تیسرامرحلہ شنا خت و معر فت میں تبدیلی کا دور ہے جو لڑکپن سے شر و ع ہو تا ہے اور جوانی کی ابتدائی حد وں میں مکمل ہو جا تا ہے لہٰذا ایک جو ا ن شخص شنا خت کے لحا ظ سے انتزاعی ہے یعنی عاقلانہ فکر رکھتا ہے اور اس میں نتیجہ گیری کی قابلیت موجود ہوتی ہے، پس وہ ذہنی لحاظ سے مکمل ذہنی صلاحیتوں سے ما لا ما ل ہے، عمر کے اس حصے میں ’’فلسفہ حیات ‘‘ کی طرف میلا نا ت جو انوں کو اخلا قی ، مذہبی اور سیا سی مسا ئل کی طر ف دھکیلتے ہیں ،وہ اپنی مذہبی حقیقت و تشخص کے متلا شی ہو تے ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے مذہبی تشخص کی تلا ش میں فکری بحرا ن کا شکا ر ہو جا ئیں اور اس ما ہیت کو صحیح پا نہ سکیں جس کے نتیجہ میں سرگردانی کی وجہ سے دین سے رو گر داں ہوجا ئیں، اس بحرا ن کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ دینی معار ف جوان کو پیش کئے جارہے ہیں و ہ ا س کی فکر ی سطح کے برابر نہ ہو ں۔
نوجو ان اپنی ذہنی صلا حیتوں کی وجہ سے صرف تقلیدی دین کو قبو ل نہیںکرتا ، اسے توجو بچپن میں دینی اعتقا دات سکھلا ئے گئے تھے وہ انہیں بھی تقلیدی ہو نے کی وجہ سے ایک طرف کر دیتا ہے ،وہ تو ایسے دین کو قبو ل کرنا چاہتا ہے جو اس کی فکری سطح کے مطابق ہو لیکن اکثراوقا ت اسے جو دین کے نا م سے پیش کیا جا تا ہے وہ اسے مطمئن نہیں کرتا ۔
دوسری طرف سے نوجوان یہ چا ہتا ہے کہ تما م دینی اعتقا دات و تعلیمات کو اپنی عقل کے ساتھ پرکھے،وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ تعلیما ت و عقا ئد اس کے عقلی و فکری سا نچوں میں سما سکیں تو صحیح ورنہ غلط ہیں اور انہیں چھوڑ دینا چاہیے، یہ چیز با عث بنتی ہے کہ جو ان کا دینی تشخص صحیح تشکیل نہ پا سکے اور وہ ان عقا ئد کے با رے فکر ی بحر ان کا شکا ر ہو جائے اور وہ اس بحران کی را ہ صرف دین سے گریز کی صورت میںپا ئے ۔
قرآن بھی لوگوں کے کفر و بے ایما نی کی طرف میلا ن کی بڑی وجہ ان کی جہا لت اور معرفت میں کمی کو قرار دیتا ہے، نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فر ما تے ہیں :
وَلَـکِنِّیَ أَرَاکُمْ قَوْماً تَجْہَلُونَ (۱)
میں تمہیں جا ہل لوگ سمجھتا ہوں
حضرت علی ؑ بھی کفر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فر ما تے ہیں:
لوان العباد حین جہلوا وقفوالم یکفرو و لم یضلوا(۲)
۲: سطحی نظر
دینی معا رف کے با رے میںو غلط معلو مات بھی نو جوا نوں کے دین سے گریز کا باعث ہیں، اکثر اوقات دین کو معنویت کے ہم معنی قرار دیا جا تا ہے کہ دین کو صرف انسان کی معنوی ضرورت کی حد تک سمجھا جا تا ہے اور پھر اس میں سے یہ نتیجہ نکا لا جا تا ہے کہ روحانیت ومعنویت کی ضرورت مشکلات اور بحرانوں میں پڑتی ہے، لہٰذا انسا ن کی رو زمرہ کی زندگی میں دین کا کوئی خا ص کر دار نہیںہے۔
دینی معا رف کے با رے میں یہ سطحی نگاہ اور کو تا ہ اندیشی با عث بنتی ہے کہ دین انسا ن کی زندگی سے آہستہ آہستہ خا رج ہو جا ئے اور وہ جو ان جو کہ فلسفہ حیا ت کی جستجو میں ہے جب دیکھتا ہے کہ دین اس کی زندگی کو بامعنی اورباہدف بنا نے میں مؤثر نہیں ہے تو وہ بھی تدریجا ً دین کو کنارے پر کر دیتا ہے اور بسا اوقا ت وہ دین کو ایک اضا فی چیز اور رکا وٹ شما ر کر تا ہے جس کی وجہ سے وہ اس سے رخ مو ڑ لیتا ہے۔
۳:محدودیت کا احساس
بعض جگہوں پر نوجو ان کو دین کی اس طرح پہچان کر وائی جا تی ہے کہ گو یا اس کی واقعی اورحقیقی ضروریات کو پو را کر نے میں دین ما نع ہے ،اس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ نوجوا ن دین سے گریزاں ہو جا ئے ،جو ا ن کی حا لت اس طرح ہو تی ہے کہ اس میں طر ح طرح کی خواہشات خصوصا ً جنسی خوا ہش عروج پر ہو تی ہیں اور ا س کے ساتھ ساتھ با ہرکے اسبا ب و عو امل بھی ا س کی شہو ت کو بھڑکاتے ہیں ،اب اگر دین کا ایسا تصور پیش کیا جا ئے جس سے معلو م ہو کہ دین نوجوان کی ان خوا ہشا ت کو دبا تا ہے اور انہیں پورا کرنے کا کو ئی طریقہ نہیں بتلاتا تو فطری سی با ت ہے کہ نوجو ان دین سے گریز کر ے گا، کیو نکہ وہ دین کے ما ننے کو خواہشات کی سر کو بی کے بر ابر سمجھتا ہے، اس کے علا وہ استقلال و آزادی اور پیروی و تقلید کے مخالف جذبات جو ان کی روح کی خصوصیات میں سے ہیں وہ تقلید و پیر وی کا دور گزا ر کر مرحلۂ استقلال پر پہنچا ہے، اب وہ چا ہتا ہے کہ اپنے ارادے واختیارکیساتھ راستہ منتخب کرے، اخلاقی نظرسے بھی وہ تقلیدی اخلاقی (Heteronomy) (۳)کا مرحلۂ گزار چکا ہے اور اخلاق خو د پیروی (Autonomy) (۴)کے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے لہٰذا وہ ہرمانع سے چاہیے وہ تخیلاتی ہی کیوںنہ ہو گریزاںہے ،اب وہ چا ہتا ہے کہ اپنی رفتار،کردار اور فکرکے انتخا ب میں آزاد ہو اگر چہ اس کی صحیح اخلا قی تربیت کا نہ ہونا اس کی استقلا لیت ، خو اہشا ت کی بے چون وچرا پیروی اورحدسے بڑھتی ہوئی جنسی خوا ہش کے جذبا ت اس کے لئے انتہا ئی خطر نا ک ہیں ،لیکن پہلے جو چیز بھی اس کی محدودیت و کنٹرو ل کا با عث ہو اس کے لئے نا پسندیدہ ہو گی مگر یہ کہ جو ا ن کی خوا ہشا ت کو صحیح طریقے سے پو را کرنے کے دینی راستے، صحیح طورپرنو جو ا ن کو سمجھا ئے جا ئیں ۔
۴:منا سب نمو نہ عمل کا نہ ہونا
انسا ن خصوصا ً نوجو ان کی کر دار سا زی اور تربیت میں دلکش نمو نہ عمل بہت مؤ ثر ہے،لڑکپن اور جو انی کے دور میں خا ندا ن کی تاثیر کافی کم ہو جا تی ہے بلکہ کبھی جو ان اور خا ندان میں مخا لفت و چپقلش پید ا ہو جا تی ہے، لہٰذا اب جوان اپنی اعتقادی و اخلا قی تشکیل میں اپنے خا ندا ن اور بچپن کے اساتذہ کے علا وہ قابل ِ پیروی نمونے و آئیڈیلز تلا ش کرتا ہے اور خا ندا ن سے با ہر اس کے لئے قابل پیروی نمونے اور دوست ہیں، ان دونو ں میں سے وہ نمونے جو جوان کے لئے قابل ِقبو ل ہیں زیادہ مؤثر ہیں کیونکہ دوست خو د بھی اپنی اخلا قی اقدار کی تشکیل میں قابل ِقبو ل نمونے کے محتا ج ہیں۔
ایسی صورت حا ل میں اگر آپ کے پا س ایسے عمل کے نمو نے نہ ہو ں توجو ان حیرت و سرگردانی کا شکا ر ہو جا ئے گا اور اس کا نفسیاتی تعاد ل اخلاقی قدروں سے خارج ہو جائے گا ، بسااوقات وہ غیر حقیقی نمونے کے پیچھے چلا جا ئے گا یاناتجربہ کا ر دوست اس کا نمو نۂ عمل بن جائیںیادھوکہ با زوں کے چنگل میں پھنس جا ئے گا ،جو ان جوانو ں کی تا ک میں رہتے ہیں یو ں جو ان دین سے منحر ف ہو جا ئے گا۔
۵:سرزنش میں زیا دتی
استقلا ل، آزادی اورعدالت کی تلا ش دور جو انی کی اہم خصوصیات ہیں، جوان ان خصوصیا ت کے ثا بت کرنے کے لئے بوڑھو ں سے مقا بلہ کر تے ہیں ،لیکن اس مقابلے کا مطلب اخلا قی قدروں کو پس پشت ڈا لنا نہیں یا ضدبا زی نہیں ہے بلکہ خو د جو ان کے لئے اثباتی پہلو رکھتا ہے،یہا ں پر بڑوں سے جو غلطی ہو تی ہے وہ جوا نوں کی سرزنش و ملامت ہے یہ سر زنش و ڈانٹ ڈپٹ ذہنی طور پر بھی انہیں توڑ دیتی ہے اور ان کے جذبہ استقلال کو بھی تبا ہ کر یتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے اند ر ضد و سرکشی کے جذبات ابھر نے لگتے ہیں ۔
امیرالمومنین علیہ السلام اس با رے فر ما تے ہیں:
الافراط فی الملا مۃ یشت نیران اللجاج (۵)
ملا مت و سر زنش کی زیا دتی ہٹ دھر می کی آگ کو بھڑکا تی ہے
لہٰذا جو ان کے جذبۂ استقلال کا مقابلہ سر زنش سے کر نا انتہائی خطر نا ک نتا ئج رکھتا ہے ، اور ان میں سے ایک نتیجہ یہ ہے کہ جو ان معا شر تی اقدار سے باغی ہوجاتا ہے اور اخلا قی اقدار اوران کے سر چشمے سے منہ پھیر لیتا ہے اور دینی معاشروں میں چونکہ اقدار کا سر چشمہ دین ہوتا ہے لہٰذا جوان دین سے منحرف ہو جا تا ہے ۔
۶:ضروریات پو ری نہ ہونا
جوانی میں خوا ہشات شدت کی بلندی پر ہوتی ہیں اور جوا ن ان کو پوراکرنا چاہتا ہے ، ان ضرورتوں کو پورا کرنا نو جوا نوں کے کر دار اور رشد و تکا مل کو اعتدلال میں رکھنے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان کو پو را نہ کرنا نہ صرف یہ کہ اس کے رشد و تکا مل میں ما نع ہے بلکہ اس کے کردار میں بھی بہت سی خرابیوں کابا عث بنتا ہے، کفر ( ایک اعتقادی خرابی کے عنوان سے ) جس طرح جہالت و ضعف ِمعرفت سے پید ا ہو تا ہے اسی طرح فقر سے بھی پیدا ہو تا ہے،اسی وجہ سے معصومین ؑ نے فر ما یا ہے:’’ کہ فقر کے احتما لی نتا ئج میں سے ایک کفر اور دینی انحرا ف بھی ہے ‘‘ ۔
رسولِ خدا ؐنے شا دی کی اہمیت کے حوا لے سے فر ما یا :
من تز وج فقد احرز نصف دینہ فلیتق اللہ فی النصف البا قی (۶)
جس نے شا دی کر لی اس نے اپنا نصف دین بچا لیا اور وہ با قی نصف دین میں تقویٰ الٰہی اختیا ر کرے ۔
معلو م ہو ا کہ ایک منا سب شادی کے حا لا ت پیدا نہ ہونے سے گنا ہ و زوا ل ایما ن کے مقدمات فر اہم ہو جا تے ہیں اور یہ چیز تدریجا ً دین سے مکمل انحرا ف کی صورت اختیار کر لیتی ہے بنابریں جو ان کی جسمانی و ذہنی ضروریات پو ری کر نا اس کی نفسیا تی صحت کے لئے ضرور ی ہے اور انہیں پور انہ کر نا نہ صرف یہ کہ اس کی صحت و سلامتی کے لئے خطر نا ک ہے بلکہ بہت سی اور خرا بیوں کا بھی باعث ہے ۔