امرباالمعروف کا مقام
سوال۴۵:امرباالمعروف اورنہی عن المنکر،حکومت اسلامی اور امور حکومت میں حکمرانوں کی طرف سے کس قدر قابل قبول ہے؟
اس بارے میںدو نکات کو الگ کر کے علیحدہ علیحدہ گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ۔
۱۔اسلامی حکومت کے حکمرانوں اور حکومتی کارندوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سامنے کیا موقف اختیار کرنا چاہیے ؟
۲۔مذکورہ افراد عملی طور پر کیا کرتے ہیں اور اسلامی حکومت میں حقائق کس صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں ؟
اسلامی حکمرانوں کو درج ذیل امور کی پابندی کرنا چاہیے :
۱۔وہ معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ لوگ اچھے طریقے سے ان کے اعمال اور کردار پر نگرانی کرتے ہوئے صحیح اور غلط کی پہچان کر سکیں اور بوقت ضرورت آسانی کے ساتھ مسئولین اور ذمہ دار افراد کو ضروری ہدایات دے سکیں اور ان کی راہنمائی کر سکیں ۔
۲۔لوگوں کی ہدایات و تجاویز اور ان کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرپر سابقہ حالت کو خاطر میں لائے بغیر تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ غور وفکر کریں اور اس پر تحقیق کریں، اگر ضروری تحقیق کے بعد انہوں نے لوگوں کی بات کو درست پایا تو کمال شجاعت اور بہادری سے اُسے قبول کر لیں اور ان کی بات مان لیں اگر ان کی باتیں غلط ثابت ہوں تو ان کا نرم وملائم لہجے میں منطقی جواب دیں اور بزرگواری کے ساتھ سلوک کریں ۔
رہی یہ بات کہ اسلامی حکومت کے اندر حکمران کس قدر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو قبول کرتے ہیں ، اس بارے میں کہنا چاہیے کہ حکمرانوں اور حاکمین کا لفظ کلی اور کسی حدتک مبہم ہے ، یعنی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے ، اس سے مراد کون سے اور کس درجے تک کے افراد موردِ نظرہیں ، افراد بہت زیادہ مختلف ہیں اور قطعی جواب دینا (جو سب افراد کو شامل ہو)مشکل ہے۔
البتہ معاشرے کے بہترین اور حتی الامکان حقیقت شناس اور حقیقت پسند افراد کو حکمرانی کے لیے انتخاب کرناچاہیے،ان کے چنائو میں جتنی زیادہ احتیاط کی جائے گی اتنا ہی امرباالمعروف اور نہی عن المنکرکی قبولیت کی مقدار بڑھ جائے گی ۔
تاریخ میں اس حوالے سے اسلامی حکومت نے کیاتجربات پیش کیے ہیں اس بارے میں کہا جائے کہ اسلامی حکومت کا اعلیٰ ترین نمونہ رسول خداﷺاور امیر المومنینؑ کی حکومت تھی ، رسول اکرمﷺ کی الٰہی حکومت کے دور میںآپؐ کا کردار اس قدر عوامی تھا اور آپ ؐ نے ایسا ماحول اور فضاء بنا رکھی تھی کہ آنحضرت ؐکی عظمت کے باوجود ہر شخص آسانی کے ساتھ اجتماعی مسائل میں آپؐ کے طرز عمل کے متعلق اظہار رائے کر سکتا تھا ۔
آنحضرت ؐ کے حقیقی جانشین حضرت امیر المومنین علی ؑ کا بھی یہی طرز عمل تھا ۔ حضرت امیر المومنینؑ کا رویہ اور طرز عمل اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے ، آپ ؐ معاشرے کی تربیت اس انداز سے کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے اور مسئولین کے درمیان فاصلہ محسوس نہ کریں اور بلاتکلّف اپنی باتوں کو ان کے سامنے بیان کر سکیں ۔
امیرالمومنینؑ کے افضل ترین اقوال میں سے ایک ( جو بہترین انداز سے عوام اور حکمران کے درمیان رابطے سے پردہ اٹھاتا ہے ) یہ ہے :
مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں ہے کہ تم یہ خیال کرو میں چاہتا ہوں کہ تم میری تعریف کرو اور مدح سرائی کروپس تم مجھ سے ایسے بات نہ کرو جیسے جابروں سے بات کی جاتی ہے میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے بڑھا چڑھا دوتم اپنے آپ کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو (۱) اس قسم کا طرز عمل عوام اور معاشرے کو شخصیت عطا کرتا ہے اور انہیں رائے کا
اظہار، تنقید اور اجتماعی لحاظ سے اعلیٰ سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے لیے آمادہ کرتاہے،اسی طرح کا رویہ امام خمینی قدس سرہ کے کردار میں بھی نظر آتا ہے ، وہ کہتے ہیں :
پوری ملت کو نگرانی اور نظارت کرنی چاہیے وہ نظررکھیں اگرمیں نے ایک قدم غلط اٹھایا یا ٹیڑھا رکھا تو ملت کا فرض ہے کہ مجھے کہیں کہ تو نے غلط قدم اٹھایاہے ، اپنے آپ کو سنبھال۔ (۲)
نیز وہ کہتے ہیں :
ایک مسلمان کو اس طرح ہونا چاہیے کہ جو بھی ہو خواہ خلیفہ مسلمین ہی کیوں نہ ہو اگر مسلمان اُسے دیکھے کہ وہ غلط قدم اٹھا رہا ہے یا انحراف کی طرف جا رہا ہے تو وہ تلوار کھینچ لے اور اُسے صحیح قدم اٹھانے پر مجبور کرے۔ (۳)
(حوالہ جات)
(۱) وقد کرھت ان یکون جال فی ظنکم انی احب الاطراء و استماع الثناء ۔۔۔ فلا تکلمونی بما تکلم بہ الجبابرۃ ۔۔۔ ولاالتماس اعظام لنفسی ۔۔۔ فلا تکفوا عن مقالۃ بحقٍ او مشورۃ بعدل ، نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۲۱۶
(۲) دیکھئے ، امام خمینی ؒ ، صحیفہ نور ، ج ۷ ، ص ۳۱ ، ۳۵ (۳) حوالہ سابق ، ص ۳۴