Nasihatenکتب اسلامی

شہود ِالٰہی

سوال ۶۸:۔ حضرت موسیٰ ؑ شہود میں قوی تر تھے یا اہل بیتؑ؟
خداوندِمتعال آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا، آواز و آہنگ بھی نہیں کہ کان سے سنا جا سکے، بو بھی نہیں کہ ناک سے سونگھا جا سکے، وہ مادیات سے منزہ اور مجردِ محض ہے، انسان صرف مشاہدہ قلبی کے ذریعے اس مجردِ محض وجود کوکسی حدتک بلکہ اپنی ذات کی وسعت کی حدتک نہ کہ ذاتِ خدا کی شناخت کی حد تک، پہچان سکتا ہے، یعنی حقیقتِ انسان حضرتِ حقِ تعالیٰ کی حقیقت کے ساتھ اسی قدر کہ جس قدرمحدود، لامحدود کے ساتھ رابطہ برقرار کر سکتا ہے، وجودی رابطہ برقرار کرتا ہے اور اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔
عمدہ یہ ہے کہ اگرشاہد کا درجہ شہودی قوی ہو تو اس ذات کو قوی تر مشاہدہ کرتا ہے اور اگر ضعیف ہو تو ضعیف تر مشاہدہ کرتا ہے، وجودِ مبارک حضرت موسی ؑ اپنی وسعتِ وجودی کے مطابق ذاتِ مقدس الٰہی سے مرتبط تھے، اہل بیت ؑ اس بارے میں عالی ترین مقام تک پہنچتے ہیں کیونکہ ہر پیغمبراپنی کتاب کے مطابق پیغام لاتا ہے اور اس کا درجہ وجودی اسی کتاب کے برابر ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم گزشتہ کتابوں کا مصدق ہونے کے علاوہ ان سب پر حاوی ہے اوربرتری رکھتا ہے، اہلِ بیت ؑ قرآن کے مساوی ہیں اور درجات وجودی میں کوئی درجہ قرآن سے پیچھے نہیں ہیں، وگرنہ ان میں جدائی حاصل ہو گی، درحالانکہ پیامبرِاکرم ﷺ نے فرمایا:
لَنْ یَفْتَرِقٰاحَتّٰی یَرِدٰاعَلَیَّ الْحَوض (۱)
موسیٰ ؑ حدِ تورات میں تھے اور اہلِ بیتؑ حدِ قرآن میں، قرآن تورات پرحاوی ہے، قہری طور پر قرآن کے مساوی افراد بھی دوسری آسمانی کتابوں کے مساوی افراد پر حاوی ہوں گے، ان براہین سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ مقامِ اہل بیتؑ گزشتہ انبیاء سے برتر اور نتیجہ کے طور پر ان کا شہود بھی قوی تر اور بیش تر ہے۔
ہم اپنے آپ کو شہودی طور پر درک کرتے ہیں نہ کہ حصولی و مفہومی طور پر،’ میں‘ اور ’ہم‘ کا مفہوم ذریعہ درک نہیں ہے اور ہمارے ذہن سے غائب ہے، درحالانکہ ہم اپنی ذات سے ہر گز غائب نہیں اور ہمیشہ اپنی ذات کو ثابت اور واحد پاتے ہیں۔
جو شخص مریض ہے اور ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ بیماری کی حقیقت کو جانتا ہے لیکن جب بتاتے ہیں تو ڈاکٹر اس بیماری کی صورت کو ذہن میں رکھتا ہے اور علمِ حصولی سے بیمار کی بیماری سے باخبر ہوتا ہے، خود بیمار علمِ شہودی سے اپنی مرض کو پا لیتا ہے، شہودِ قلبی اس احساسِ باطنی کی سطح میں نہیں بلکہ بہت بلند ہے اور مذکورہ مثال فقط اس لیے (دی گئی) ہے کہ کسی حد تک شہودِ قلبی ذہن کے نزدیک ہو۔

(حوالہ )
(ا)قال رسول اللہ : فی آخر خطبۃ یوم قبضہ اللہ عزوجل الیہ انی قد ترکت فیکم امرین لن تضلو بعدا ما ان تمسکتم بھما کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی فان الطیف الخبیر قد عھد الی انھما لن یفترقا حتی یرد علی الحوض کھا تین وجمع بین مسبحتیہ ولا اقول کھا تین و جمع بین المسجۃ و الوسطی فتسبق احداھما الاخریٰ فتمسکوا بھما لاتزلوا ولا تضلوا ولا تقدموھم فتضلوا ۱۔ اصولِ کافی ج،۲،ص۴۱۴ ایک اور جگہ پیغمبر ِ اکرم سے نقل ہے انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی فانھما لن یفترقا حتی یرد علی الحوض بحار الانوار،ج۲۳،ص ۱۳۳

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button