اسلامی حکومتکتب اسلامی

دینی حکومت کی تعریف

سوال۱:دینی حکومت کا مطلب کیا ہے ؟ دینداروں کی حکمرانی یا دینی احکام کا نفاذ یا پھر حکومت کے تمام ارکان کو دین سے لینا ؟
دینی حکومت سے مراد یہ ہے کہ اس کی بنیاد دین پر ہو اور وہ دینی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو ، کم ازکم یہ کہ وہ کسی بھی سطح پر دینی احکامات کے برخلاف نہ ہوالبتہ اس بحث میں گفتگو کا محور دین ِاسلام ہے ، نہ کہ ہر دین دینی حکومت کے مفہوم کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات کا مطالعہ مفید ہے ۔
اول:اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں اور حکومتی کا رندوں کا دیندار ہونا ایک لازمی اور ضروری امر ہے لیکن قوانین کی تدوین اور اجراء میں دینی اصولوں اور احکام کو نظر انداز کر نے کی صورت میں یہ بات کافی نہیں کیونکہ دینی حکومت کا محور ایک نظام اور سسٹم ہونے کے ناطے دین ہے اس لیے فرامین ِالٰہی اور اسلامی احکام کو پائوں تلے نہیں روندا جا سکتا ، پس احکام الٰہیہ پر عمل درآمددینی حکومت کی بنیادی خصوصیت اور اس کا جز و لاینفک اس اصول کو پامال کرنے والوں کو قرآن مجید کافر گردانتا ہے ارشاد ہوتا ہے :

وَمَنْ لَم یَحْکمُ ْبِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰٰئِکَ ھُمْ الکاٰفِرُونَ (۱)
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہ کریں پس وہ کافر ہیں ۔

دوم:کیااحکام الٰہیہ کی پابندی کرنے کے علاوہ حکومتی ڈھانچہ اور اس کا تمام نظام بھی دین سے لیا گیا ہے؟ اُس سوال کے جواب کے لیے ہمیں دین میں سیاست کی وسعت اور کردار کا مطالعہ کرنا ہو گا ، یعنی یہ واضح ہونا چاہیے کہ سیاسی میدان میں دین انسان کے لیے کیا تحائف لے کر آیا ہے ؟ کیا اُس نے سیاسی اور معاشرتی حوالے سے کچھ مسائل و مشکلات کے حل سے متعلق فقط تعلیمات ہی دی ہیں اور حکومت کا باقاعدہ نظام پیش نہیں کیا ؟ یا یہ کہ ایک خاص طرز حکومت ،خاص ڈھانچہ کے ساتھ حکومت کی تشکیل اور سیاسی اقتدار کے انتقال کا طریقہ کار بھی اسلام کے پیش نظر ہے ؟
دوسری رائے کے مطابق فقط طور طریقے اپنانے اور ان کی مخالفت نہ کرنے سے ایک حکومت ِاسلامی نہیں بن جاتی بلکہ مطلوبہ اسلامی حکومت ایک ایسے نظام کا نام ہے جس میں اس کے تمام ادارے اور تمام اصول و قوانین ، دین پر استوار اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔
اسلامی متون اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ہر قسم کی حکومت کو برداشت نہیں کرتا ، آخری آسمانی دین فقط اس حکومت کی تائید کرتا ہے :
۱۔جس کے حکمرانوں میں ایسی صلاحیتیں اور خصوصیات پائی جائیں جنہیں دینی نصوص میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔
۲۔حکمران طے شدہ طریقہ کار(منصوص من اللہ اور عوامی حمایت )کے مطابق برسراقتدارآئے ہوں ۔
۳۔دین میں بتائے گئے حکمرانی کے طریقے کار اور معیّن شدہ اصولوں کے تحت وہ حکمرانی کریں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے پورے ڈھانچے اور اداروں کو مستقل اور لاتغیر صورت میں مشخّص کر دیا گیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دین میں بنیادی اور اساسی ڈھانچہ اور بنیادی اصول واضح کر دئیے گئے ہیں جن کی موجودگی میں حکومت کی ایک خاص شکل وصورت تشکیل پا جاتی ہے جو دیگر سیاسی نظاموں سے ممتاز اور جداگانہ ہوتی ہے ۔
مثال کے طور پر حکومت اسلامی کے معیارات میں سے ایک بنیادی معیار و مقیاس معاشرے پرمعصوم ہستی اور اس کے نائب کی سر پرستی اور حاکمیت بذریعہ نصب الہیٰ ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ حکومتی اداروں اورارکان حکومت جیسی بعض دیگر خصوصیات زمان و مکان کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور مختلف اداروں کی وسعت اور دائرہ کار ، حکومت کی ذمہ داریوں اور کارکردگی کے عنوان سے قابل ِتغیر و تبدّل ہیں بطور مثال حکومت اسلامی کو فیڈریشن یا کنفڈریشن کی طرز پر تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔
سوم:اسلامی حکومت کے مراتب اور درجات ہیں، سب سے اعلیٰ اور آئیڈیل مرتبہ یہ ہے کہ اس کے تمام امور اور معاملات دین کے مطابق اور دینی اصولوں پر استوار ہوں ، لیکن جب اسلامی حکومت کی تشکیل اپنی تمام تر خصوصیات اور کامل معیار کے ساتھ ممکن نہ ہو تو پھر اس کے کم تر درجہ پر اُسے تشکیل دیا جائے کم تر درجہ یامعروضی حالات میں اسلامی حکومت کا نعم البدل وہ حکومت ہے جس میں اسلامی احکام و قوانین کی پابندی کی جائے اگرچہ پورا نظام دینی تعلیمات کے مطابق نہ ہو اور اس کا سربراہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نہ ہو البتہ ایسی حکومت کا جواز اسی صورت میں ہے جب اسلامی حکومت بطور کامل تشکیل نہ دی جاسکتی ہو ۔ (۲)

(حوالہ جات)

(ا)سورہ مائدہ آیت ۴۴
(۲)مزید معلومات کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں (الف) نو روزی ، محمد جواد ، نظام سیاسی اسلام
(ب) اندیشہ حوزہ ، سال پنجم ، پہلا اور دوسرا شمارہ ۔ (ج) ویژہ نامہ ولایت فقیہ ، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی ،
(د) مصباح یزدی ، محمد تقی ، پرسش و پاسخ ھا ، ج ۱، ص ۵ ۴۔ ۴۷

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button