Nasihatenکتب اسلامی

خلقت اجباری

سوال۵۵: ۔میں پیدا ہونا نہیں چاہتا تھا تاکہ خدا مجھے میرے گناہوںپر سزا دے، کیا یہ ظلم نہیں؟
ہم سب پہلے ایک مٹھی خاک تھے جوگلیوں، محلوں،بیابانوں اور کھیتوں میں بکھری ہوئی تھی، اگر کوئی کارخانۂ خلقت کی چھت پر جاکراوپر سے دیکھے تو وہ جان لے گا کہ یہ پانچ یا چھ ارب انسان جو روئے زمین پر اس وقت زندگی گزار رہے ہیں، تقریباً دو صدیاں پہلے انہیں بیابانوں، چراگاہوں میں مٹی کی صورت میں تھے اور دو صدیاں بعد بھی اسی شکل میں تبدیل ہو جائیں گے، ان میں صرف ایک خلیفۃ اللہ انسان کے ساتھ اضافہ ہوا ہے کہ جس تک موت کی رسائی نہیں، یہ مٹی ہے جو کبھی مردہ ہوتی ہے اور کبھی زندہ وگرنہ روح ہمیشہ زندہ ہے۔
خداوندِمتعال نے مٹھی بھر خاک کو جو پائوں کے نیچے تھی بہترین شرف و کرامت بخشا اور اسے اپنا جانشین بنایا، اسے اندر سے عقل و فطرت اور باہر سے وحی و نبوت عطا کی تاکہ وہ ہدایت پائے اور ترقی کرے، اس سے بہتر کون سی نعمت ہے کہ مٹھی بھر خاک خلیفۃ اللہ ہو، اب ہم ایسا سرمایہ رکھنے کے باوجود کیوں غلط راہ پر چلیں؟ اگر خدانخواستہ کوئی غلط راہ پر چلا ہے تو اس نے اپنے اختیار سے برائی کی ہے، اس کے علاوہ وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں خلق ہونے پر راضی نہیں تھا، وہ ایسی شخصیت بن سکتا ہے کہ معاشرہ اس سے نفع حاصل کرے، اب اگر خداوندِمتعال نے ہمیں بہترین نعمت عطا کی ہے لیکن ہم استفادہ نہیں کر سکے، یہ ہمارے اندرونی غریزہ و خواہش سے مربوط ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ الٰہی سزا ستمگروں کی سزا کی طرح نہیں کہ مظلوموں کی تسلی خاطر کے لیے انجام پائیں، نہ دنیاوی عدالتوں کی طرح یہ ہے کہ جن میں قاضی بدکار سے انتقام لیتا ہے تاکہ معاشرہ میں امن و امان ہو، بلکہ یہ ڈاکٹر کی طرف سے بدپرہیز بیمار کی سزا کے مشابہ ہیں، اگر ماہر ڈاکٹر بیمار کو کہے کہ فلاں کھانہ نہ کھائو یا فلاں دوائی استعمال کرو، چنانچہ بیمار اس نسخہ پر عمل نہ کرے اور زیادہ بیمار ہو جائے اورپھر ڈاکٹر اس کے لیے کڑوی و تلخ دوائی لکھے تو کیا طبیب اس مریض سے انتقام لے رہا ہے یا یہ کہ بیماری کا بگڑجانا اور پھر کڑوی دوائی کا ضروری ہوجاناڈاکٹر کی تاکید پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے؟
ہمارے گناہ دراصل بدپرہیزی ہے اور تقویٰ پرہیز ہے، تہمت،جھوٹ و آبروریزی وغیرہ روح کے لیے زہریلی غذا ہے، بوسیدہ یا زہریلی غذا معدہ کے لیے اچھی نہیں اور اسے کھانے سے جسم کا نقصان ہوتا ہے، باتیں، تحریریں، احکامات اور کردار بھی اگر مسموم ہو تو روح کو مسموم کرتے ہیں، یہ الٰہی انتقام ہے۔
الٰہی سزاکی تشریح کے لیے ایک اور مثال مائوں کے ردِ عمل کی طرف توجہ ہے، جب ایک ماں اپنے بچے کو آگ کے قریب جانے سے روکتی ہے تویہ مسموم غذا کھانے کی طرح نہیں کہ چوبیس گھنٹوں بعد اثر کرے بلکہ ہاتھ لگاتے ہی جل جاتا ہے (گناہ کا ارتکاب کرنا یعنی جلناہے)، گناہ کی حقیقت یہی ہے ،گناہ کا ارتکاب کرنا یعنی جلنا ہے۔
قرآنِ کریم فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً(ا)
جو لوگ یتیموں کے مال نہ حق چٹ کر جایا کرتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم واصل ہوں گے۔
وہ لوگ جو یتیموں کا مال کھاتے ہیں ابھی سے آگ کھا رہے ہیں، لقمہ حرام آگ کا شعلہ ہے جو نفس انسانی کو جلا دیتا ہے۔

(حوالہ)
(۱)سورہ نساء آیت۱۰

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button