اسماء الٰہی کی تجلی اور آدمؑ کی معصیت
سوال ۵۹:۔ کیا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کو جس درخت کے نزدیک جانے سے روکا گیا تھا، وہ اسمائے الٰہی کے ایک حصّہ سے مربوط تھا، وہ اسماء جن کا ظرف ظہور
طبیعت و زمین ہے اور ان کے متجلی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان معصیت کرے، بصورت دیگر کیا کہا جا سکتا ہے کہ بعض اسمائے الٰہی جیسے غفور، تواب، منتقم وغیرہ صرف معصیت محقق ہونے کے بعد متجلی ہوتے ہیں اور حضرت آدم ؑ کی جنت میں تجلی محقق نہیں تھی، کیا اسم ِغفار کی حلاوت باعث بنی کہ آدم ؑ تلخی معصیت کو چکھیں؟
حضرت آدم ؑکے واقعہ میں چند باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔
۱ ۔ یہ معصیت،معصیتِ تحریمی یا تنزیہی (کراہتی) نہیں تھی کیونکہ دونوں تحریمیں شریعت کی فرع ہیں اور شریعت حضرت آدمؑ و حوا کے زمین پر اترنے کے بعد وجود میں آئی، جب شریعت نازل نہ ہوئی ہو تو شریعت کے احکام خمسہ (واجب، حرام، مستحب، مکروہ و مباح) بھی کار آمد نہیں، پس حضرت آدم ؑ کا عصیان نہ تحریمی ہے نہ تنزیھی ہے۔
۲۔ اگر ہم کہیں کہ وہ ممنوعہ درخت اسماء حسنی الٰہی سے مربوط ہے اور ان اسماء الٰہی کی تجلی زمین پر ہے اور وہاں اصلاً تجلی نہیں رکھتے تو ایسا محال ہے۔
یعنی اگر اسمائے الٰہی میں سے کسی اسم کی تجلی عالمِ طبیعت تک محدود ہو تو اس کی تجلی ماورائے طبیعت میں محال ہو گی، اس صورت میں حضرت آدم ؑ وحوا کا ارتکاب بھی محال ہو گا، باالفاظ دیگر ان کی نہی تکوینی ہے نہ کہ تشریعی اور اس صورت میں عصیان محال ہو گا، یعنی محال ہے کہ حضرت آدمؑ ممنوعہ درخت کی طرف جائیں۔
یعنی اگر شجرہ ممنوعہ اسماء حسنی تواب، غفار و منتقم و غیرہ ہو اور یہ معصیت کے ظہور کے بعد عالم طبیعت کے ساتھ مختص ہو تو ماورائے طبیعت میں حضرت آدمؑ کے اترنے سے پہلے ایسا ہونا ممکن نہیں، یعنی وہاں پر یہ تجلی نہیں رکھتے اور ان اسماء کا تقرب ممکن نہیں، جب ممکن نہ تھا تو یہ نہی تکوینی ہو گی جو عصیان پذیر نہیں مگر یہ کہ تو اب، غفار و غیرہ کو وسعت دیں اور کہیں کہ عالمِ مجردات کو بھی شامل ہوتے ہیں، جیسا کہ خداوندِمتعال سورہ مبارکہ انبیاء میں فرشتوں کو بھی تنبیہ کرتا ہے کہ اگر کوئی فرشتہ بھی نا فرمانی کرے تو وہ عذاب میں مبتلا ہو گا، اس بنا پر شجرۂ ممنوعہ کے بارے میں درج بالا باتیں صحیح نہیں۔