اسلامی حکومتکتب اسلامی

دینداروں کی مخالفت

سوال ۳۲:اگر اسلامی حکومت کو دیندار لوگ قبول نہ کریں تو پھر ذمہ داری کیا ہو گی ؟
اگرایک حکومت دینی معیارات اور قواعد و ضوابط کے مطابق تشکیل پائے تو شرعی لحاظ سے مومنین اس کی مخالفت نہیں کر سکتے ، بلکہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے قبول کریں اور اس کی حمایت اور مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، البتہ یہاں پر دوسوال پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔اگر لوگوں کی اکثریت مخالف ہو اور وہ اس حکومت یا حکمران کو نہ چاہتے ہوں تو کیا اس طرح حکومت شرعی طور پر اپنے اقتدار کو معاشرے پر مسلط کر سکتی ہے ؟
بعض علماء اسلام اور دانشوروں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ اس صورت میں اقتدارکومسلط کرناجائزنہیں ہے ۔
آیت اللہ مصباح یزدی لکھتے ہیں :
اگرچہ مقبولیت اور قانونی طور پر جائزہونا (مشروعیّت) آپس میں ازم وملزوم نہیں ہیں لیکن اسلامی حکمران اپنے اقتدار اور حاکمیت کو مسلط کرنے کے لیے زبردستی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔(۱)
آیت اللہ جوادی آملی لکھتے ہیں :
تکوینی اعتبار سے انسان آزاد خلق کیا گیا ہے اور کسی حاکمیت (خواہ وہ الٰہی ہو یاغیرالٰہی) کو ماننے پر مجبور نہیں ہے ، اس لحاظ سے نہ تو جبر اصل دین میں جائز ہے ۔’’لآَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ (۲) اورنہ ہی دینی حکومت جبری ہو سکتی ہے ، اگرچہ انسان پر شرعی لحاظ سے دین اور حاکمیت الٰہی کو قبول کرنا ضروری ہے ۔ (۳)
وہ مزید فرماتے ہیں :
معاشرے میں حکومتِ الٰہی کا قیام عمومی رغبت اور آمادگی سے وابستہ ے اور ایسی حکومت نہ تو اپنی تشکیل میں اور نہ ہی دوام اور بقاء میں زبردستی اور جبری ہو سکتی ہے، وہ صرف عوام کی خواہش اور مرضی سے تشکیل پاسکتی ہے اور لوگوں کی حمایت سے ہی باقی رہ سکتی ہے ۔(۴)
۲۔کیاعوام کی مرضی اور خواہش حکومت کی مشروعیّت کے لیے ضروری شرط یالازم جزو شمار کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
اس سوال کا جواب مذکورہ مطلب میں کسی حد تک واضح ہوچکاہے،کیونکہ مشروعیّت اور عوامی مقبولیت کا آپس میں لازم و ملزوم نہ ہونا تین طرح سے قابل تصورہے ۔
۱۔حکومت قانونی ( مشروع ) بھی ہو اور عوام میں مقبول بھی ہو ، جیسے رسول اکرم ؐ کی حکومت ، حضرت علیؑ، امام خمینیؒ اورآیت اللہ خامنہ ای کی حکومت ۔
۲۔حکومت قانونی نہ ہو،لیکن عوامی مقبولیت اُسے حاصل ہو،جیسے بعض غیراسلامی عوامی حکومتیں ۔
۳۔حکومت قانونی جواز رکھتی ہو ، لیکن عوام میں مقبول نہ ہو ،جیسا کہ امام معصوؑم شرعی لحاظ سے ولایت رکھتا ہے لیکن معاشرہ اپنے امور کی ذمہ داری اور سرپرستی کے لیے حالات سازگار نہیں بناتا اور اطاعت اور فرمانبرداری کو انجام نہیں دیتا،اسی طرز کا مسئلہ امام مجتبیٰ ؑ کو در پیش ہوا ، مذکورہ سوال کی رو سے اگر حکمران سا لمیت آمیز طریقے سے اسلامی حکومت کا دفاع نہ کر سکے اورمعاشرہ بھی اس کا ساتھ نہ دے تو اس صورت میں حکمران عوام پر زبردستی حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا اور وہ اپنے احکامات کو عوام پر نہیں ٹھونس سکتا ، اُسے چاہیے کہ وہ حکومت سے الگ ہو جائے جیسا کہ امام حسن مجتبیٰؑ نے کیا تھا ۔
البتہ بعض مقامات پر یہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے کہ عوام کی پسند اور خواہش ایک حد تک’’مشروعیت ‘‘میں دخیل ہے اور یہ وہ مورد ہے جب دو عادل فقیہوں میں حکومت اور معاشرے کی قیادت کی تمام خصوصیات اور شرائط مساوی طور پر پائی جاتی ہوں لیکن عوامی لحاظ سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ مقبول اور پاپولر ہو تو اس صورت میں یہ کہنا بعید نہیں ہے کہ ایک شخص کی عوامی مقبولیت عقلائی اثبات کا ایک طرح کا مرجع قرار پائے ۔ (۵)
بہرحال اس بات کی طرف ضرور متوجہ رہنا چاہیے کہ کلی طور پر مقبولیت ،حکومت کے احکامات کے نفاذ اور حکومت کے اجراء کے لیے شرط ہے نہ کہ اصل حکومت اور ولایت کے لیے شرط۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر کسی نے ولایت فقیہ کو قدرمتیقن کی رو سے ( نہ کہ نصب شارع سے)قبول کیا ہو، یعنی اس کا عقیدہ ہو کہ امت کی قیادت اور رہبریت کے لیے دینی اہداف کی بنیاد پر فقہ میںمہارت لازمی شرط ہے، اس لحاظ سے یقینی طور پر صرف با صلاحیت فقیہ ہی اسلامی نظام کی قیادت اور رہبری کرنے کا حق رکھتا ہے،(۶)اس تفکر کی بنیاد پر واجدان شرائط کے متعدد ہونے کی صورت میں قدر متیقن وہی منتخب فقیہ ہے ۔
دوسرے الفاظ میں اگر دو فقیہوں کے اندر مساوی شرائط موجود ہیں ، ان میں ایک امت میں مقبول اور پسندیدہ ہو اور دوسرا نہ ہو اور ہم شک کریں کہ شارع مقدس کس کی حکومت سے راضی ہے تو جو عوام کا منتخب شدہ ہے اس کے بارے میں شارع کی رضا اور خوشنودی کا ہمیں یقین کرنا چاہیے ہے لیکن دوسرے فرد متیقن کی موجودگی میں فردِ مشکوک کی نوبت نہیں آتی ۔

(حوالہ جات)

(۱) کتاب نقد ، شمارہ ۷ ، ص ۵۳ (مقالہ حکومت اور مشروعیّت )
(۲) بقرہ آیت ۲۵۶ (۳) آیت اللہ جوادی آملی ، عبداللہ ، نسبت دین و دنیا ، ص ۲۳ ، قم ، اسراء ، اشاعت اول ، ۱۳۸۱ (۴) حوالہ سابق
(۵) مزید معلومات کے لیے دیکھئے ، حسینی حائری ، سید کاظم ، ولایۃ امر فی عصر الغیبہ ، ص ۲۱۷ ، ۲۲۱
(۶) حوالہ سابق ، ص ۱۱۳ ، ۲۲۱

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button