نمازِ شب
سوال ۲۷ : ۔ اگرمیں نماز شب پڑھوں تو پورا دن میرے درس کا نقصان ہوتا ہے، کیا کروں ؟
اگر انسان نماز شب پڑھے تو دن کے درس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بشرطیکہ رات کو تھوڑا جلدی سو جائے اور شام کو کم کھائے تو بہتر ہے، آپ جانتے ہیں، جسمِ انسانی دو وقت کے کھانے سے زیادہ کا محتاج نہیں، ہمیں بتایا گیا ہے اگر سیر ہو تو کھانا نہ کھائو، روایات میں آیا ہے کہ سیری کی حالت میں کھانا کھانا استعداد کو کم کرنا ہے، حضرت امیر المومنین ؑکے نورانی بیانات میں سے ایک یہ ہے کہ:
لَم تَجتَمِعَ الفِطَنۃُ وَ البِطْنَۃ
فطانت و ذہانت، پُر خوری کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔
فطانت و ذہانت،پرُ خوری کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی، پُر خور کبھی بھی عقل مند نہیں ہو گا، کیوں؟ کیونکہ روح کی پوری کوشش یہ ہے کہ ان غذائوں کو ہضم کرے، لہٰذا اسے فکر کرنے کی فرصت نہیں رہتی، اس کی مثال مکمل طور پر ایسی ہے کہ ایک ماہر عالم کو گلی کوچہ صاف کرنے پر لگا دیں تاکہ گندگی کو جمع کرے۔
اگر کوئی استاد ہو سکتا ہے تو اس کو کیوںجاروب کشی پر مجبور کریں، انسان کی روح اچھی استادو مربی ہوتی ہے، افسوس ہے کہ اس کو جاروب کش جسم بنائیں اور کہیںکہ گندگی کو جمع کرو، ہم جو کھانا کھاتے ہیں اسے غذائی اور غیر غذائی حصہ میں جدا ہوتے اور پھر غیر غذائی کو غیر ضروری مادہ میں تبدیل ہو تے دیر لگتی ہے، اس میںوقت صرف ہوتا ہے، یہ کام بدن انجام نہیں دیتا، یہ روح ہے جو بدن کے ذریعے ان کاموں کو انجام دیتی ہے۔
روح ادراکات کی قوتوںکاایک سلسلہ رکھتی ہے اور تحریکی قوتوںکا بھی ایک سلسلہ اس میں موجود ہے، تحریکی قوتیں کچھ فزیکل ابزار و آلات رکھتی ہیں، جیسے معدہ، آنتیں، پھیپھڑے، دل لیکن جو چیز غذا کو خون کی صورت میں تبدیل کرتی ہے اور عادلانہ طور پر بالوں، ناخنوں، کان، آنکھ میں تقسیم کرتی ہے، نفسِ انسان ہے اور روح آدمی ہے۔
خلاصہ یہ ظلم ہے کہ انسان اپنی روح کو جاڑو پھیرنے پر لگا دے،حضرت امیرالمومنینؑ نے فرمایا :
لا تَجتمِعُ عَزِیمَۃُٗ ووَلِیَمۃُٗ (ا)
کبھی انسان ہردسترخوان پر پہنچنے والا بن بلایا مہمان بن جاتاہے، چاہتا ہے کہ یہاں بھی کھاناکھا لے اور وہاں بھی کھا لے، ہر روز کسی جگہ مہمان ہو، ایسا انسان اہل عزم وہمت نہیںہے، انسان کے لیے بہتر ہے، جہاں تک ممکن ہو اپنے دستر خوان پر رہے اگر کوئی چاہتا ہے کہ اہلِ عزیمت اور وارثان اولوالعزم میں سے ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد میں بھی مراقبت کرے، کبھی کبھارکسی جگہ مہمان بن کر جاناپڑتا ہے اس میں کوئی عیب نہیں کہ انسان چلا جائے مگر بن بلائے مہمان کی طرح ہونا اہلِ عزم وارادہ حضرات کیلئے مناسب نہیں ہے، پس نمازِ شب انسان کو روزمرہ کے کاموں سے نہیں روکتی بشرطیکہ انسان دیگر مسائل کا خیال رکھے۔
ٹیلی ویژن کے بہت سے پروگرام ہیں کہ انسان اگر ارادہ کرے تواسے نہ دیکھے، سارے ڈرامے تو سود مند نہیں، بہت سے جلسات ومحفلیں، گفت و شنید سود مند نہیں، حضرت امیرالمومنین ؑنے اپنے فرزند سے فرمایا : اے جوان! کوئی ایسا کام نہ کرنا یا کوئی ایسی بات نہ کرنا کہ دوسرے لوگ تجھ پر ہنسیں، یہ کام تجھے بے حیثیت کر دے گا، اگر اذانِ صبح سے آدھ گھنٹہ پہلے اُٹھیں تو نمازِ شب بھی پڑھ سکیںگے اور اوّل وقت میں نمازِ صبح بھی، اس کے بعد کچھ آرام کر لیں تو دن کے دروس کا نقصان بھی نہیں ہو گا ۔
(حوالہ)
(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۴۱