Nasihatenکتب اسلامی

دنیا میں روح کاکمال

سوال۹:۔ کیا جب عالمِ ذر میں ارواح نے’’ بلیٰ‘‘ کہا تو اس وقت وہ حالتِ کمال میں تھیں ؟ اگر حالتِ کمال میں تھیں تو اس آیت اَخْرَجَکُم مِنْ بَطُونِ اُمَّھاتِکُم لَا تَعْلَمُوْنَ شیئاً(۱)کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کیسے ہے کہ روح اس دنیا میں اپنا کمال حاصل کرتی ہے ؟
قرآنِ کریم دو طرح کی معرفت کو بیان کرتا ہے، ایک علمِ حضوری جو کہ فطری ہے اور اکتسابی نہیں، وہ انسان کے ساتھ تھا، ہے اور دوسرا علومِ حصولی جو حوزۂ علمیہ دینی اور یونیورسٹی کے ذریعے کسب کیے جاتے ہیں، علمِ حصولی کے بارے میں سورۂ مبارکہ نحل میں فرمایا :
واللہاَخْرَجَکُم مِنْ بَطُونِ اُمَّھاتِکُم لَا تَعْلَمُوْنَ شیئا (۲)
اور خدا ہی نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹ سے نکالا(جب) تم بالکل نا سمجھ تھے
علوم ِحضوری وفطری کہ جن کی بازگشت ربوبیتِ الٰہی اورعبودیتِ انسان کی خاطر ہے، وہ ہمیشہ انسان کے ہمراہ ہے، اس بنیاد پراگرچہ سورہ نحل میں خداوندِمتعال فرماتا ہے ’’خداوند تعالیٰ نے تمہیں رحم ِ مادر سے پیدا کیا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے‘‘
سورۂ مبارکہ روم میں فرماتا ہے :
فاقِم وَجْھَک لِلدَیِن حَنِیْفاً فِطْرَۃاللّٰہ أَلتِی فَطَر اَلنَّاسَ عَلَیْھَا (۳)
تو (اے رسول) تم باطل سے کترا کر اپنا رخ دین کی طرف کیے رہو یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔
اور سورہ مبارکہ شمس میں فرمایا :
وَنَفسٍ وَّمَا سَوَّاھٰا o فًأَّلھمَھا فجُورُھٰا و َتقْوَاھٰا(۴)
اور جان کی اور جس نے اسے درست کیا،پھر اس کی بدکاری اور پرہیز گاری کو اسے سمجھا دیا۔
شہودی معرفتیں جو سورہ مبارکہ روم وشمس میں آئی ہیں، آغازِ خلقت سے انسان اس کے ہمراہ ہیں لیکن علومِ حصولی ِ کو یاد کرنا انسان کے لیے ضروری ہے ۔

(حوالہ جات)
(ا) سورہ نحل آیت ۷۸
(۲) سورہ نحل آیت ۷۸
(۳) سورہ روم آیت ۳۰
(۴) سورہ شمس آیت ۷،۸

Related Articles

Back to top button