(حصہ دوم) قرآن
تحریف ِ قرآن
سوال ۱ : ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تحریف کی گئی ہے، قرآنِ مجید میں تحریف نہ ہونے کی وضاحت فرمائیں ؟
قرآن کریم بعینہ وہی قرآن ہے جو پیغمبراکرم ﷺ کے پاک و مطہر لبوں سے پہنچا ہے اور جو کچھ آنحضرتؐ کے پاکیزہ لبوں سے سنا گیا وہ بعینہ وہی تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قلبِ مطہرِ پیغمبراکرم ﷺ پر نازل فرمایا تھا اور جو قلبِ پیامبرِ اکرم ﷺ پر نازل ہوا، وہ بعینہٖ وہی تھا جو ذاتِ اقدسِ الٰہی سے نازل ہوا تھا، اس بات پر متعدد عقلی، نقلی دلائل دلالت کرتے ہیں۔
دلیلِ عقلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنے بندوں کو رہبر و راہنما کے بغیر نہیں چھوڑتا۔
کَفٰی بِرَبَّکِ ھٰادِیاً و نَصِیرًا(ا)
ہدایت اور مدد دینے کے لیے آپ کا پروردگار کافی ہے
اگر کوئی دین تمام ادیان کا خاتم ہو اور اس دین کا پیغمبرخاتمِ انبیاء ہو اور دین قابلِ تحریف ہو تو اس کا معنی یہ ہے ذاتِ اقدسِ الٰہی نے ہدایت انسانی سے صرفِ نظر کیا ہے، کیونکہ ایسی کتاب اور دین کو بھیجا ہے جس میں کمی یا زیادتی رونما ہو سکتی ہے اور اس کی صحت و سلامتی میں نقص پیدا ہوسکتا ہے، پس وہ دین، دینِ باطل ہے یعنی خداوندِ متعال نے انسان کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا ہے اور یہ اس کی حکمت کیساتھ تناسب نہیں رکھتا ۔
دلیل نقلی:
دلیلِ نقلی خود قرآنِ کریم ہے، سورہ مبارکہ حجر میں ارشاد ہوتا ہے :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْناَ الذِّکْرُوَ اِنَّا لُہ‘ لَحٰافِظُون (۲ )
بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔
اور سورہ فصّلت میں فرمایا :
وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْْنِ یَدَیْْہ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ(۳)
اور یہ (قرآن ) معزز کتاب ہے،باطل نہ اس کے سامنے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے،یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔
یہ آسمانی کتاب عزتِ الٰہی سے برخوردار ہے اور (اس میں ) کسی قسم کے بطلان کا راستہ نہیں
اگر قرآن کی تحریف ہو تو اس قرآن میں غیرِ قرآن داخل ہو جائے گا اور اس میں کچھ اضافہ کرے گا اور یہ قرآن بطلان پذیر ہو جائے گا، درحالانکہ خداوندِ متعال نے قرآن کے بارے میں فرمایا:
ٰلٰایَا تِیہٖ الْبَاطِلُ مِنْ بَینِ یَدَیْہَ وَلاَ مَنْ خَلفِہٖ (۴)
کوئی بھی چیز اسے زمانہ نزولِ قرآن، بعد از نزولِ قرآن یابعد ازرحلت ِرسولِؐ خدا کے باطل نہیں کرسکتی ہے۔
متعدد تاریخی موارد موجود ہیں جو قرآن کو تحریف سے بچانے کے لیے اہل بیت ؑ اور صحابہ کرام کی کوششوں کو واضح کرتے ہیں، یہاں پر ان کا ایک نمونہ پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ہم نے علامہ طباطبائی مرحوم سے یہ قصہ پہلی بار سنا اور پھر کتبِ احادیث میں موجود پایا کہ جب معاویہ نے اپنے درباریوں کے لیے ثروت اندوزی کو جائز قرار دینے کا ارادہ کیا اور کہا کہ ہم ثروت اندوزی کا حق رکھتے ہیں اور دوسرے ایسا نہیں کر سکتے تو حکم دیا کہ قرأتِ قرآن کے جلسوں میں اس آیت میں واو کو نہ پڑھا جائے ۔
آیت اس طرح ہے :
یٰاَ ایُّھاَ الَّذِیْنَ آمَنُو اِنَّ کَثِیرا مِنْ الْاحَبٰارِ وَالرُّھٰبانِ لِیاَکُلُونَ اَمْوٰالَ النَّاسِ بِالَباطِلِ وَ یُصِرُّوْنَ عَنْ سَبیلِ اللَّہ وَالَّذْیَنَ یَکْنُزِوْنَ الذَّھَبُ وَالْفِضَّۃَ وَلَاْیْنفِقُونَھَا فِی سَبِیْلِ اللَّہ مُنَشَّرَھُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ (۵)
اے ایمان والو!(اہل کتاب کے ) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لو گ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔
اگر وائو کو حذف کیا جائے تو الَّذِیْن اُنہیں احبار ورہبان کی وضاحت ہوگی یعنی یہودی علماء و سلاطین ثروت جمع کرنے کا حق نہیں رکھتے اور آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ اگر کوئی ایک مسلمان چاہے کہ وہ ثروت اندوزی کرے تو یہ عیب ہو، ابو ذر ؓ جو شام میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، تلوار کندھوں پر اٹھائی اور کہا :
لا أضَعُ السَّیف مِن عاتقی حَتَّی توَضعُ الواوفی مَکانھا
میں اس تلوار کو اپنے کندھوں سے نیچے نہیں اتاروں گا اس وقت تک کہ جب تک’’و‘‘ کو اپنی جگہ پر نہیں رکھا جاتا۔
یہ نعرہ سننے والے بہت سے لوگ نہیں جانتے تھے کہ ابوذر کا مقصد کیا ہے؟ بعد میں معلوم ہوا کہ اموی درباری ایک قبیح پروگرام کے ذریعے وائو کو حذف کرنے کا قصد رکھتے ہیں تاکہ الذین احبار، رہبان کے ساتھ مخصوص ہو جائے، ابو ذر جو قرآن کے محافظ و حامی تھے، نے کہا اگر تم نے اس وائو کو ہاتھ لگایا تو میں تلوار اٹھائوں گا، یہ وائو ضرور ہونی چاہیے تاکہ جملہ مستقل ہو، انسانی معاشرہ میں مسلم، غیر مسلم کسی کو بھی ثروت اندوزی کا حق نہیں، اس آیت کا پیغام بین الاقوامی ہے،آیت یہ نہیںکہتی کہ یہودی و مسیحی ثروت اندوزی کا حق نہیں رکھتے بلکہ کہتی ہے کوئی بھی ذخیرہ اندوزی کا حق نہیںرکھتا ہے انسان، نہ المؤمنون، نہ اہل کتاب کہا الَّذِیْن خواہ مسلمان ہو یا یہودی یاعیسائی یا زرتشت ولامذہب۔
حضرت ابوذر رضوان اللہ علیہ نے شعورِ قرآنی سے مخلوط اس نعرے سے درباریانِ اموی کے خائنانہ تصرّف کو روکا، اس بنا پر وہ مشہور ضربُ المثل اس واقعہ کے بارے میںبھی اور اس آیت کے بارے میں بھی ہے :
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ(۶)
اور مہاجرین و انصار میں سے (ایمان کی طرف )سبقت کر نے والے اور وہ لوگ جنہوں نے نیک نیتی سے (قبول ِ ایمان میں)اُن کا ساتھ دیا خدا اُن سے راضی اور وہ خدا سے خوش ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اعلان کیا ہے کہ وہ تین گروہوں سے راضی ہے اور وہ خداوندِمتعال پر راضی ہیں اور ان کے لیے ایسے باغ مہیا کیے ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے :
اوّل : اولین مہاجرین
دوم : اولین انصار
سوم: وہ لوگ جنہوں نے اچھی طرح ان کی پیروی کی
تاریخ میں نقل ہے کہ خلیفۂ دوم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے :
والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار الذین ا تبعوھم باحسان؟
یعنی الذین سے پہلے جو وائو ہے اسے نہیں پڑھتے تھے اور انصار کا عطف سابقون پر کرتے تھے، اس طرح آیت کا معنی یہ بنتا ہے: سب سے پہلے سبقت کرنے والے مہاجرین اور وہ انصار جنہوں نے اچھی طرح ان کی پیروی کی۔
اور نتیجتاً مہاجرین کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے اور انصار مہاجرین کے تابعین شمار ہوتے ہیں، اسی وجہ سے وہ معتقد تھے کہ مہاجرین کا مقام انصار کے ساتھ قابلِ مقائسہ نہیں۔
یہیں پر ابی بن کعب نے عمر سے کہا کہ رسول خدا ﷺ نے اس آیت کو میرے سامنے وائو کے ساتھ پڑھا اور اس وقت تم مدینہ میں آلاتِ د باغی خرید کرتے تھے (اس بات سے کنایہ ہے کہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ ہوتے تھے اور صحیح قرأت سنتے تھے ) ۔
حضرت عمر نے انہیں کہا : تم ٹھیک کہتے ہو، جب تم حضورؐ کی خدمت میں ہوتے تھے، ہم غائب ہوتے تھے اور جب تم فارغ البال خدمت پیامبر ﷺ میں ہوتے تھے، ہم اپنے کاموں میں مشغول ہوتے تھے اگر چاہو تو کہو کہ ہم تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی (یعنی کہو ہم انصار ہیں اور اس طرح عمر نے کعب پر طنز کیا ) اور ایک اور مقام پر نقل ہوا ہے کہ حضرت عمر نے کہا : میں خیال کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے مہاجرین کو ایک ایسے مقام تک پہنچا دیا ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ رسول ؐ کس قدر دقت کرتے تھے کہ حتی ایک وائو بھی قرآنِ کریم سے کم و زیادہ نہ ہو اور حتیٰ کہ حکمران کو بھی نصیحت کرتے تھے اور کتابِ الٰہی میں تحریف سے روکتے تھے۔ (۷)
(حوالہ جات)
(۱)سورہ فرقان آیت ا۳
(۲)۔سورہ حجر آیت ۹
( ۳)۔ سورہ فصلت آیت ۴۲
(۴) ۔سورہ توبہ آیت ۳۴
(۵) ۔سورہ توبہ آیت ۳۴
(۶) سورہ توبہ آیت۱۰۰
(۷)مجلہ بشارت شمارا ۱۰، ص ۱۲،۱۳