خدا کی رحمت
ابوجہل مشرکین مکہ کا ایک نمائندہ وفد لے کر رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا:آپؐ کہا کرتے ہیں کہ قوم موسیٰؑ نے اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا تو ان پر بجلی گری تھی اور وہ جل کر خاک ہوگئی تھی،اگر آپؐ موسیٰؑ کی طرح سچے نبی ہیں تو آپؐ بھی اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر قوم موسیٰؑ کی طرح بجلی گرائے،موسیٰؑ کی قوم،موسیٰؑ پر ایمان لاچکی تھی جبکہ ہم آپؐ پر ایمان بھی نہیں لائے اسی لیے ہم بجلی کے عذاب کے زیادہ مستحق ہیں۔
رسول خدا ﷺنے ارشاد فرمایا:ابوجہل!کیا تو نے ابراہیمؑ کی داستان نہیں سنی؟
حضرت ابراہیمؑ کے لیے زمین و آسمان کے حجاب ہٹا دئیے گئے تو انہوں نے ایک مرد و زن کو برا کام کرتے ہوئے دیکھا،آپ ؑنے انہیں بددعا دی تو وہ اسی وقت ہلاک ہوگئے،پھر حضرت ابراہیمؑ نے ایک اور مقام پر یہی منظر دیکھا تو انہیں بددعا دی ،وہ بھی فوراً ہلاک ہوگئے،پھر آپ ؑنے تیسری جگہ بھی یہی کچھ دیکھا تو انہیں بھی بددعا کی اور وہ بھی فوراً ہلاک ہوگئے۔
آپ ؑنے چوتھے جوڑے کو بدی کرتے ہوئے دیکھا تو انہیں بھی بددعا دینے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ خدا کی آواز آئی:اے ابراہیمؑ!میری کتنی مخلوق کو مارو گے؟ میرے بندوں کو اپنی بد دعا سے مت مارو،میں غفورو رحیم اور جبار و حلیم ہوں،میں تو اپنی مخلوق کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتا رہتا ہوں مگر انہیں فوراً ہلاک نہیں کرتا۔
اپنی زبان کو بددعا دینے سے باز رکھو،میں نے تمہیں تبلیغ دین کے لیے مبعوث کیا ہے نہ کہ تم میری سلطنت میں میرے شریک ہو اور نہ ہی مجھ پر تمہارا حکم چلتا ہے۔
میرے بندے تین حال سے خالی نہیں: (۱) وہ گناہ کرتے ہیں اور میں انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا،اگر وہ توبہ کرلیں تو میں ان کے گناہ بخش دیتا ہوں اور ان کی پردہ پوشی بھی کرتا ہوں۔
(۲) بعض نافرمانوںکو میں اس لیے مہلت دیتا ہوں کہ ان کی نسل سے کسی مومن کو پیدا ہونا ہوتا ہے،جب تک ان سے مومن پیدا نہیں ہوتے میں انہیں سزا
نہیں دیتا،جب مومن پیدا ہوجائے تو بعد میں انہیں مہلت نہیں دیتا،اگر یہ دو اسباب نہ ہوتے تو میرا عذاب تیری بد دعا سے زیادہ سخت ہوتا۔
(۳) بعض لوگوں کو میں اس لیے مہلت دیتا ہوں کہ وہ دل کھول کر گناہ کرلیں اور جب میں انہیں گناہوں کی وجہ سے پکڑ لوں تو انہیں نجات دلانے والا کوئی نہ ہوگا۔
پھر پیغمبر اکرمﷺ نے ابوجہل سے فرمایا:ابوجہل!خدا نے اس وقت تجھے مہلت دی ہوئی ہے،تیری پشت سےعکرمہ پیدا ہوگا جو مسلمانوں کے لیے کچھ کارآمد ہوگا،اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک تجھ پر اللہ کا عذاب آچکا ہوتا اور قریش کے باقی افراد کو اللہ اس لیے مہلت دے رہا ہے کہ عنقریب یہ اسلام قبول کرلیں گے،اللہ ان کے موجودہ کفر کی وجہ سے انہیں مستقبل کی سعادت سے محروم نہیں رکھنا چاہتا،اگر ایسا نہ ہوتا تو تم سب پر کبھی کا عذاب آچکا ہوتا۔
(حوالہ)
(علامہ طبرسی،احتجاج ص۱۸)