shadi k ahkamکتب اسلامی

بیویوں کا متعددہونا

٭سوال۳:اسلام میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت کیوں ہے اور یہ حق فقط مردوں کوہی حاصل کیوں ہے؟
بیشک چند بیویوں کا جائز ہونا البتہ اسکی شرائط کی رعایت کے ساتھ، اسلام کے احکامات میں سے ہے اور شیعہ و سنی کا اس پر اتفاقِ نظر ہے،اسلام سے پہلے بھی مختلف قبائل کے درمیان یہ رسم موجود تھی اور حتیٰ کہ بعض بُت پرست لوگوں کی مسلمان ہوتے وقت دس سے زیادہ یا کم بیویاں موجود تھیں، اسلام میں اس مسئلہ کے حوالے سے اسکی اصلاح اور توازن کے لیے خداوند تعالیٰ نے فرمایا
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِک أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ(۱)
اوراگر اس بات کا خدشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ شادی کرے عدل کی رعایت نہ کرسکو گے توان سے ازدواج کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسری پاک عورتوں کے ساتھ ازدواج کرو،دو یاتین یا چار بیویاں اور اگر تمہیں خدشہ لاحق ہو کہ (متعدد بیویوں کے بارے میں) عدل کی رعایت نہ کر سکو گے تو پھر فقط ایک بیوی پراکتفا کرو اور یا وہ لونڈیاں کہ جسکے تم مالک ہو، اُن سے استفادہ کرو، یہ کام ظلم و ستم کو بہتر طور پر روک سکے گا۔
بنا بریں اسلام نے نہ تو تعداد کا آغاز کیا اور نہ ہی اسے واجب کیا بلکہ اسے خاص شرائط کے ساتھ مباح بنایا، اس امر کی ایک حکمت اور بہت ساری وجوہات ہیں، دینی متون، سیر تِ معصومین ؑ اور عقل کی منطق کومد ِ نظر رکھتے ہو ئے ان میں سے اہم ترین کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ا۔ ازدواج کے قابل عورتوں کی تعداد کا مردوں سے زیادہ ہونا۔
۲۔ عورتوں کی نسبت مردوں کی جنسی زندگی کی عمر کا طولانی ہونا۔
۳۔ عورتوں کی نسبت مردوں میں تولید نسل کی عمر کا طولانی ہونا۔
۴۔ مردوں کا چند بیویوں کی طرف تمائل ہونا خاص طور پر جس وقت پہلی بیوی بانجھ ہو جائے۔
۵۔ بیوہ عورتوں کی سرپرستی ،انہیں پناہ دینا اور اُنکی عاطفی ضرورتوں کو پورا کرنا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ مردوں کے حوالے سے کسی تعددِ ازدواج کسی قسم کی قانونی مشکل کا باعث نہیں بنتی ہے، جبکہ یہی امر عورتوں کے بارے میں بہت زیادہ مشکلات کو جنم دیتا ہے،ان میں سے اہم ترین بچے کی نسبت کا مجہول ہونا ہے، معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس مرد کا ہے؟ (۲)

(حوالہ جات)
(۱)سورہ نساء ،آیت ۳
(۲) علل الشرایع ،ج۲،س۵۰۲،ر۔ک :تفسیر نمونہ ،ج ا، س ۲۹۱، تفسیر المیزان ،ج ۴،س ۱۹۵،پرسش ھاو پاسخ ھا دفتر ہفتم، س ۳۳۲ و
سید علی ، کمالی، قرآن و مقام زن، س ۲۴۹

Related Articles

Back to top button