Nasihatenکتب اسلامی

عرشِ الٰہی

سوال ۶: ۔ یہ جو قرآن کہتا ہے (وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاء)(ا) عرشِ الٰہی پانی پر واقع ہے، کا کیا معنی ہے ؟
پانی ایک جامع مفہوم ہے اور بہت زیادہ مصادیق رکھتا ہے، علم بھی پانی کے مصادیق میں سے ہے، درحقیقت علم آبِ حیات ہے اور عالم ہمیشہ زندہ ہے (اَلْعُلمٰائُ بٰاقُونَ مٰابَقِیَ الدَّھْر)(۲) اس علم سے مقصود علمِ تدبیر و فرمانروائی ہے اور آیت میں (وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاء)(۳) یا ( ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش)(۴) سے مراد آبِ حیات جو کہ قدرت و علمِ الٰہی ہے وہ تمام مسائلِ عالم کی بنیاد ہے نہ کہ ظاہری پانی، کیونکہ ظاہری پانی مٹی اور ہوا کی طرح بعد میں پیدا ہوا ہے، ظاہری پانی کی ایک حقیقت ہے کہ جس پر عرش استوار ہے، جیسا کہ آگ، ہوا، مٹی بھی پانی پر ہیں، اس بناپر وہ پانی جس پر عرش استوار ہے، وہ مادی چیز نہیں بلکہ ایک معنوی حقیقت ہو سکتی ہے ۔
(حوالہ جات)
(۱)سورہ ہود آیت ۷
( ۲) بحار الانوارج ۱، ص ۱۸۷
(۳) سورہ ہود آیت ۷
(۴) سورہ اعراف آیت۵۴

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button