صبر کامیابی کی کنجی ہے
عربی ادب کے بلند پایہ ادیب اصمعی اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں طالب علمی کے زمانے میں بہت غریب تھا،میں روزانہ جب پڑھنے کے لیے مکتب جاتا تو راستے میں ایک سبزی فروش چھابڑی لیے بیٹھا ہوتا تھا،وہ مجھے کتابیں اٹھائے ہوئے دیکھتا تو کہتا:ارے نادان!اس فضول تعلیم کو چھوڑ کر کوئی چھوٹا موٹا کام کرلے تاکہ تجھے دو وقت کی روٹی نصیب ہو،ایک دن تو اس نے بدتمیزی کی حد کردی،میرے ہاتھ میں کتابیں دیکھ کر کہنے لگا:
یہ کاغذ اور کتابیں کسی گڑھے میں ڈال کر پانی ڈال دے تاکہ یہ سر سبز ہوجائیں۔
میں روزانہ اس کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا اور خاموشی سے تعلیم حاصل کرتا رہا،آخر کار میں حصول علم میں کامیاب ہوگیا مگر اس کے باوجود میرے پاس پہننے کیلئے ڈھنگ کے کپڑے تک نہ تھے۔
ایک دن میں بازار جانے کے لئے گھر سے نکلا تو دیکھا کہ ایک ہمسائے نے گلی میں اپنے لیے ہوادار چھپر بنا لیا ہے جس سے گلی تنگ ہوگئی ہے اور سواروں کے لیے راستہ تنگ ہوگیا ہے۔
یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا:بندہ خدا!اس گلی پر میرا بھی کچھ حق ہے،تمہیں یہ چھپر گلی میں نہیں بنانا چاہیے تھا۔
ہمسائے نے کہا:جب آپ سواری پر بیٹھ کر یہاں سے گزریں تو بے شک میرا چھپر گرادیں،اس کی یہ بات سن کر میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
ایک دن میں اپنے گھر میں آرام کر رہا تھا کہ امیر بصرہ کے قاصد نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے امیر بصرہ کا یہ پیغام پہنچایا کہ امیر آپ کو خلیفہ ہارون کے بیٹوں امین اور مامون کا اتالیق بنا کر بغداد بھیجنا چاہتا ہے۔
میں نے قاصد سے کہا کہ میرے پاس تو پہننے کے کپڑے بھی نہیں،میں اس پھٹے پرانے لباس کے ساتھ امیر کے دربار میں حاضر نہیں ہوسکتا۔ کچھ دیر بعد قاصد میرے لیے کپڑے خرید کر لایا،میں نئے کپڑے پہن کر امیر بصرہ کے پاس گیا،اس نے کہا کہ خلیفہ ہارون نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں امین اور مامون کی تعلیم کے لیے بغداد بھیج دوں۔
میں بغداد گیا،جب امین اور مامون نے تعلیم کی ابتدا کی تو خلیفہ کی طرف سے سونے کے سکول کے کئی طبق لٹائے گئے،اس دن میں نے اتنا سونا جمع کیا جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا،اس کے علاوہ میری دس ہزار دینار ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی۔
ایک عرصہ بعد ہارون نے خواہش کی کہ اس کے بیٹے منبر پر بیٹھ کر تقریر کریں،میں نے ہارون کو بتایا کہ میں نے ان کو فن تقریر میں ماہر کردیا ہے،جمعہ کا دن تھا،امین نے خطاب کیا تو لوگوں نے بے تحاشا دولت لٹائی،ہارون نے مجھے بھی انعام سے نوازا۔
اس دن ہارون نے مجھ سے کہا کہ میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں،تم نے میرے بچوں کو تعلیم دی ہے،کوئی خواہش ہو تو بیان کرو۔
میں نے کہا کہ آپ نے مجھے اتنا کچھ عطا کیا ہے جس کے بعد کچھ مانگنے کی حسرت ہی نہیں رہی،میں چند دنوں کے لیے اپنے شہر بصرہ جانا چاہتا ہوں،ہارون نے مجھے جانے کی اجازت دی اور میری روانگی سے پہلے والی بصرہ کو خط لکھاکہ وہ اعیان سلطنت کو لے کر میرا پرتپاک استقبال کرے اور ہر ہفتہ میں دو دن میرے مکان پر حاضری دے، چنانچہ میں جب بصرہ پہنچا تو والی بصرہ نے میرا شایان شان استقبال کیا ،بصرہ میں ایک محمل لگا اونٹ میری سواری کے لیے موجود تھا،میں محمل میں بیٹھ کر اپنے گھر روانہ ہوا،گلی میں میرے ہمسائے کا چھپر موجود تھا جس کی وجہ سے سواری کا وہاں سے گزرنا مشکل تھا،میں نے چھپر گرانے کا حکم دیا جس کی فوری تعمیل ہوئی،شہر کے لوگ جوق در جوق میری ملاقات کے لیے آئے،ان ملاقاتیوں میں وہ سبزی فروش بھی شامل تھا جو مجھے روزانہ برا بھلا کرتا تھا،اس نے مجھے مبارک باد دی تو میں نے کہا :تم نے دیکھ لیا کہ کا غذ و قلم کس طرح سر سبز ہوتے ہیں اور ان پر کیسا پھل لگتا ہے۔
سبزی فروش بہت شرمندہ ہوا اور اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔
(حوالہ)
(خزائن نراقی،ص۳۷۹)