عدل و احسان
(۱)’’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
مَنْ عَامَلَ النَّاسَ فَلَمْ يَظْلِمْهُمْ، وَحَدَّثَهُمْ فَلَمْ يَكْذِبْهُمْ، وَوَعَدَهُمْ فَلَمْ يُخْلِفْهُمْ، فَهُوَ مَنْ كَمُلَتْ مُرُوءَتُهُ، وَظَهَرَتْ عَدَالَتُهُ، وَوَجَبَتْ أُخُوَّتُهُ‘‘
رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو لوگوں کے ساتھ معاملات میں ان پر ظلم نہ کرے اور ان سے گفتگو کے وقت جھوٹ نہ بولے اور ان سے وعدہ کر کے وعدہ خلافی نہ کرے تو ایسے شخص کی غیبت کرنا حرام ہے اور اس کی مروت کامل،اس کی عدالت ظاہر اور اس سے اخوت و دوستی رکھنا واجب ہے۔
(۲)’’من وصية لأمير المؤمنين عليه السلام لابنه الإمام الحسن عليه :
يَا بُنَيَّ اجْعَلْ نَفْسَكَ مِيزَاناً فِيَما بَيْنَكَ وَبَيْنَ غَيْرِكَ، فَأَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، وَاكْرَهْ لَهُ مَا تَكْرَهُ لَهَا، وَلاَ تَظْلمِْ كَمَا لاَ تُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ، وَأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يُحْسَنَ إِلَيْكَ، وَاسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُهُ مِنْ غَيْرِكَ، وَارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاهُ لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ، وَلاَ تَقُلْ مَا لاَ تَعْلَمُ وَإِنْ قَلَّ مَا تعْلَمُ، وَلاَ تَقُلْ مَا لاَ تُحِبُّ أَنْ يُقَالَ لَكَ‘‘
حضرت علی علیہ السلام ’’إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ بِالعَدلِ وَالإِحسانِ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
لوگوں کو ان کا حق دینا عدل اوران پر رحم کرنا احسان ہے،آپ ؑنے امام حسنؑ کے نام وصیت میں فرمایا:بیٹا!اپنے اور دوسرے کے درمیان ہر معاملے میں اپنی ذات کو پسند کرتے اسے دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو،جس طرح تم یہ چاہتے ہو کہ تم پر تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اسی طرح دوسروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئو، دوسروں کے جس عمل کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو اپنے ایسے عمل کو دوسرے کے لیے بھی برا سمجھو اور لوگوں کے جس رویے کو اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو اسی کو دوسروں کےلیے بھی برا سمجھو اور لوگوں کے جس رویے کو اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو اسی کو دوسروں کے لیے بھی اچھا سمجھو اور جو بات نہیں جانتے اس کے بارے میں منہ نہ کھولو، وہی بات کہو جو جانتے ہو اور(دوسروں کے بارے میں ایسی باتیں نہ کہو)جو اپنے لیے سننا گوارہ نہیں کرتے۔
(۳)’’وَ سُئِلَ ؑ عَنِ الْإِيمَانِ فَقَالَ
الْإِيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ عَلَى الصَّبْرِ وَ الْيَقِينِ وَ الْعَدْلِ وَ الْجِهَادِ وَ الصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى غَائِصِ الْفَهْمِ وَ غَوْرِ الْعِلْمِ وَ زُهْرَةِ الْحُكْمِ وَ رَسَاخَةِ الْحِلْمِ فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ وَ مَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُكْمِ وَ مَنْ حَلُمَ لَمْ يُفَرِّطْ فِي أَمْرِهِ وَ عَاشَ فِي النَّاسِ حَمِيداً ‘‘
حضرت علیؑ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا:
ایمان ان چار ستونوں پر قائم ہے:صبر،یقین،عدل اور جہاد۔
اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں:گہرائیوں تک پہنچنے والی فکر،علم میں غورو فکر،فیصلے میں پختگی اور کام بردباری،چنانچہ جس نے تفکر کیا،وہ علم کی گہرائیوں سے آشنا ہوا اور جو علم کی گہرائیوں میں اترا وہ فیصلے کے سرچشموں سے سیراب ہو کر پلٹا اور جس نے بردباری اختیار کی اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی بیشی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی۔ جب حضرت علیؑ ابن ملجم کے وار سے زخمی ہوئے تو آپؑ نے امام حسنؑ ،امام حسینؑ اور بنی عبدالمطلب کو جمع کر کے فرمایا:
(۴)’’ يَا بَنِي عَبْدِ اَلْمُطَّلِبِ لاَ أُلْفِيَنَّكُمْ تَخُوضُونَ دِمَاءَ اَلْمُسْلِمِينَ خَوْضاً تَقُولُونَ قُتِلَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِي إِلاَّ قَاتِلِي اُنْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِهِ هَذِهِ فَاضْرِبُوهُ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ وَ لاَ تُمَثِّلُوا بِالرَّجُلِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اَللَّهِ ص يَقُولُ إِيَّاكُمْ وَ اَلْمُثْلَةَ وَ لَوْ بِالْكَلْبِ اَلْعَقُورِ‘‘
اے اولاد عبدالمطلبؑ!ایسا نہ ہونے پائے کہ تم’’امیرالمومنینؑ قتل ہوگے‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردو،دیکھو! میرے بدلے صرف میرے قاتل کو قتل کرنا اور دیکھو! جب میں اس کی اس ایک ضرب سے مرجائوں تو ایک ضرب کےبدلے میں اسے ایک ضرب ہی لگانا اور اس کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا کیونکہ میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ خبردار! کسی کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹو،اگرچہ وہ بائولاکتا ہی ہو۔
(۵)’’قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَؑ:
أَيُّمَا وَالٍ احْتَجَبَ عَنْ حَوَائِجِ النَّاسِ احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ عَنْ حَوَائِجِهِ وَ إِنْ أَخَذَ هَدِيَّةً كَانَ غُلُولًا وَ إِنْ أَخَذَ الرِّشْوَةَ فَهُوَ مُشْرِكٌ‘‘
حضرت علیؑ نے فرمایا ہے:
جو حکمران لوگوں کی ضرورتیں پوری نہیں کرتا،قیامت کے دن اللہ اس کی ضرورتیں پوری نہیں کرے گا،اگر اپنے فرائض کےلیے وہ ہدیہ قبول کرتا ہے تو وہ خائن ہے اور اگر رشوت لیتا ہے تو مشرک ہے۔
(۶)’’امام علیؑ:لعمربن الخطاب :
ثلاث ان حفظتهن وعملت بهن کفتک ما سواهن وان ترکتهن لم ینفعک شیء سواهن قال: و ما هن یا أباالحسن؟ قال اقامة الحدود علی القریب والبعید والحکم بکتاب الله فی الرضا والسخط والقسم بالعدل بین الاحمر والاسود. فقال له عمر: لعمری لقد أو جزت وأبلغت‘‘
حضرت علیؑ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا:
اگر تین چیزوں کو تم نے یاد رکھا اور ان پر عمل کیا تو وہ تمہیں باقی چیزوں سے بے نیاز کردیں گی اور اگر تم نے انہیں چھوڑ دیا تو ان کے بغیر کوئی چیز تمہیں فائدہ نہیں دے گی۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا:ابوالحسنؑ! وہ چیزیں کیا ہیں؟آپ ؑنے فرمایا: حد جاری کرنا خواہ اپنا ہو یا پرایا،خوشی اور ناخوشی دونوں حالتوں میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا،بیت المال کو ہر مسلمان میں برابر تقسیم کرنا،حضرت عمرؓ نے کہا:یااباالحسنؑ!آپؑ نے مختصر اور انتہائی جامع نصیحت فرمائی۔
(۷)’’عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ:
ثَلَاثَةٌ هُمْ أَقْرَبُ الْخَلْقِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الْحِسَابِ: رَجُلٌ لَمْ تَدْعُهُ قُدْرَةٌ فِي حَالِ غَضَبِهِ إِلَى أَنْ يَحِيفَ عَلَى مَنْ تَحْتَ يَدِهِ، وَرَجُلٌ مَشَى بَيْنَ اثْنَيْنِ فَلَمْ يَمِلْ مَعَ أَحَدِهِمَا عَلَى الْآخَرِ بِشَعِيرَةٍ، وَرَجُلٌ قَالَ بِالْحَقِّ فِيمَا لَهُ وَعَلَيْهِ‘‘
امام جعفرصادقؑ نے فرمایا:
قیامت کے دن تین قسم کے لوگ دوسرے لوگوں سے زیادہ اللہ کے نزدیک ہوں گے یہاں تک کہ اللہ تمام بندوں کا حساب کتا ب کرلے:وہ شخص جو بااختیار ہونے کے باوجود غصے کے عالم میں اپنے ماتحت پر ظلم نہ کرے،جو دو آدمیوں میں صلح کے لیے کوشش کرے اور رتی برابر بھی کسی ایک طرف مائل نہ ہو اور جو ہمیشہ حق کہے خواہ اس کے لیے مفید ہو یا مضر۔
(۸)’’قال الامام الصّادِقُ ؑ :
ثَلاثَةٌ يُدْخِلُهُمُ اللّهُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسابٍ، وَ ثَلاثَةٌ يُدْخِلُهُمُ اللّهُ النّارَ بِغَيْرِ حِسابٍ. فَامَّا الَّذينَ يُدْخِلُهُمُ اللّهُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسابٍ فَامامٌ عادِلٌ وَ تاجِرٌ صَدُوقٌ وَ شَيْخٌ افْنى عُمْرَهُ فى طاعَةِ اللّهِ عَزَّوَجلَّ. وَ امَّا الثَّلاثَةُ الَّذينَ يُدْخِلُهُمُ النّارَ بِغَيْرِ حِسابٍ فَامامٌ جائِرٌ وَ
تاجِرٌ كَذُوبٌ وَ شَيْخٌ زانٍ‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
اللہ تین قسم کے لوگوں کو حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل کرے گا اور تین قسم کے لوگوں کو بغیر حساب کتاب دوزخ میں ڈال دے گا:جنہیں اللہ بغیر حساب جنت میں داخل کرے گا یہ ہیں:(۱)عادل حاکم(۲)سچا تاجر(۳)وہ بوڑھا جس نے اپنی زندگی اطاعت خدا میں گزاری ہو اور وہ تین قسم کے لوگ جنہیں اللہ حساب کتاب کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا،یہ ہیں:(۱) ظالم حکمران(۲)جھوٹا تاجر(۳)زانی بوڑھا۔
(حوالہ جات)
(کافی ج۲،ص۲۳۹)
(بحارالانوار ج۶۵،ص۳۴۸)
(نہج البلاغہ،وصیت۴۸)
(بحارالانوار ج۷۲،ص۳۴۹)
(کافی ج۲،ص۱۴۵)
(بحارالانوار ج۷۲،ص۳۳۶)