حکایات و روایاتکتب اسلامی

امام جعفر صادقؑ کا خط

اسحاق بن عمار کہتے ہیں جب منصور دوانیقی نے عبداللہ بن حسن اور ان کے ساتھیوں کو قید کر دیا تو امام جعفر صادقؑ نے تسلی کے لیے انہیں یہ خط لکھا:
’’﷽ ‘‘یہ خط ہے خلف صالح اور ذریت پاک کی طرف ان کے بھتیجے اور ابن عم کی طرف سے۔
عبداللہ!اگر ظالم نے آپ کو قید کردیا ہے تو انہوں نے مجھے بھی شریک کیا،آپ کو جو تکلیف سہنا پڑ رہی ہے اس میں آپ اکیلے نہیں ہیں،میں بھی آپ کی طرح مغموم ہوں،اس مصیبت میں اگر آپ خدا کی طرف رجوع کریں اور اس کی کتاب سے رہنمائی حاصل کریں تو خدا آپ کو صبر کرنے کا حکم دیتا ہے۔’’فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ‘‘پس صبر کرو اور مچھلی والے(یونسؑ)کی طرح نہ بنو،(آپ نے صبر کے متعلق دس قرآنی آیات تحریر فرمائیں جنہیں ہم اختصار کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں)۔
چچا جان!مومنین کے نزدیک دنیا کے نقصان کی کوئی اہمیت نہیں،اہل ایمان کی نظر میں مصائب پر صبر سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیں،اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی تو دشمنان خدا کبھی دوستان خدا کو قتل نہ کرسکتے اور نہ انہیں کبھی خوفزدہ کرسکتے،دنیا کی بے ثباتی کی مثال کےلیے حضرت زکریاؑ اور حضرت یحییٰؑ کی شہادت ہی کافی ہے اور تمہارے دادا علی ابن ابی طالبؑ اور امام حسینؑ کی شہادت بھی اس کی زندہ مثال ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ کافروں کو مہلت دیتا ہے،اس کی نظر میں دولت دنیا کی کوئی وقعت نہیں:’’ وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فَضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ , وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِؤُونَ ‘‘اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہوجائیں گے تو ہم خداوند رحمٰن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالاخانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی کے بنادیتے۔

نیز یہ کہ :’’ أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ ,نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ ‘‘کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں مال و دولت اور اولاد دے کر ان کی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہیں؟در حقیقت انہیں شعور نہیں ہے۔

حدیث پاک میں ہے:’’اگر مومن غمگین نہ ہوتے تو کافر کے لیے لوہے کی ایسی پٹی بنائی جاتی کہ اسے کبھی درد سر تک نہ ہوتا‘‘۔
اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی مکھی کے پر کے برابربھی حیثیت ہوتی تو کافر کو پانی کا  ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا‘‘۔
’’اللہ جب کسی فرد یا قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے مشکلات سے آزماتا ہے‘‘جب وہ ایک مشکل سے نکلتے ہیں تو انہیں دوسری مشکل میں مبتلا کردیتا ہے‘‘۔
’’خدا کو دو رنج بڑے پسند ہیں:پہلا رنج جب مومن کسی پر ناراض ہوتا ہے تو اسے معاف کردیتا ہے اور دوسرا جب مومن کسی رنج و غم میں مبتلا ہوتا ہے تو اس پر صبر کرتا ہے‘‘۔
اسی لیے اصحاب رسول ؐ کا دستور تھا کہ جب کوئی ان پر زیادتی کرتا تو وہ اسے لمبی عمر ،صحت اور مال و اولاد کی کثرت کی دعا دیتے تھے اور رسول خداﷺکا طریقہ تھا کہ آپ جسے پسند کرتے،اسے شہادت کی دعا دیتے تھے۔
لہٰذا اے بھائیو اور میرے چچا کے بیٹو! تمہیں صبر سے کام لینا چاہیے اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے اور اس کی قضا کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اورآپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی قدرت سے ہمیں ہر قسم کی ہلاکت و تباہی سے بچائے،وہ سننے والا اور ہمارے قریب ہے اور بے حد درود ہو رسول خداﷺ اور ان کی آلؑ پر ۔۔۔

(حوالہ جات)

(سورہ زخرف:آیت۳۳تا ۳۴)

(سورہ مومنون:آیت۵۵،۵۶)

(بحارالانوار ج۱۱،ص۱۲)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button