حکایات و روایاتکتب اسلامی

ہمسائیگی اور ہم نشینی

(۱)’’عن رسول الله ﷺ قال : من آذى جاره حرم الله عليه ريح الجنة ومأواه جهنم وبئس المصير ، ومن ضيع حق جاره فليس منا ، وما زال جبرئيل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه ، وما زال يوصيني بالمماليك حتى ظننت أنه سيجعل لهم وقتا إذا بلغوا ذلك الوقت اعتقوا ، ومازال يوصيني بالسواك حتى ظننت أنه سيجعله فريضة ، وما زال يوصيني بقيام الليل حتى ظننت أن خيار امتي لن يناموا‘‘
رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو اپنے ہمسائے کو اذیت دے اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام قرار دیتا ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے اور جس نے اپنےہمسائے کا حق ضائع کیا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے،جبرئیل ؑ نے ہمسائے کے متعلق مجھے اتنی زیادہ تاکید کی کہ  مجھے گمان ہونے لگا شاید وہ ہمسائے کو میراث میں شامل کردیں گے جبرئیلؑ نے غلاموں کے بارے میں اتنی سفارش کی کہ مجھے گمان ہواکہ وہ غلاموں کے لیے کوئی وقت مقرر کر دیں گے کہ جب مقررہ وقت آجائے گا تو وہ آزاد کر دئیے جائیں گے اور جبرائیلؑ نے مجھے مسواک کے متعلق اتنی تاکید کی کہ میں خیال کرنے گا کہ وہ مسواک کو واجب قرار دیں گے اور نماز شب کی جبرئیلؑ نے مجھے اتنی تاکید کی کہ میں گمان کرنے لگا کہ شاید میری امت کے نیک افراد کبھی نہیں سوئیں گے۔
(۲)’’قال رسول اللهﷺ: ” هل تدورن ما حق الجار ؟ ما تدرون من حق الجار إلا قليلا، ألا لا يؤمن بالله واليوم الاخر، من لا يأمن جاره بوائقه، فإذا استقرضه أن يقرضه، وإذا أصابه خير هناه، وإذا أصابه شر عزاه، لا يستطيل عليه في البناء، يحجب عنه الريح إلا بإذنه، وإذا اشترى فاكهة فليهد له، فإن لم يهد له فليدخلها سرا، ولا يعطي صبيانه منها شيئا يغايظون صبيانه، ثم قال رسول الله ﷺ: الجيران ثلاثة: فمنهم من له ثلاثة حقوق: حق الاسلام، وحق الجوار وحق القرابة، ومنهم من له حقان: حق الاسلام، وحق الجوار، ومنهم من له حق: واحد الكافر له حق الجوار ‘‘
رسول خداﷺ نے فرمایا:لوگو!کیا تمہیں ہمسائے کے حقوق معلوم ہیں؟تمہیں ان کے حقوق بہت کم معلوم ہیں،اس شخص کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں جس کا ہمسایہ اس کی اذیت سے محفوظ نہیں۔ ہمسائے کے حقوق یہ ہیں:جب ہمسایہ قرض مانگے تو اسے قرض دو،جب ہمسائے کے ہاں کوئی خوشی ہو تو اسے مبارک باد دو،اگر اس کے یہاں کوئی غمی ہوجائے تو اس سے تعزیت کرو،اس کی اجازت کے بغیر اپنا مکان اونچا نہ بنائو کہ اس کی ہوا رک جائے اور جب کوئی پھل خریدو تو اس کے گھر بھی کچھ بھیج دو اور اگر تم نہ بھیج سکو تو پھل کو چھپا کر اپنے گھر لائو اور اپنے بچوں کو کھلائو تو انہیں سمجھائو کہ وہ اس کے بچوں کو چڑانے کے لیے ان کے سامنے نہ کھائیں۔
پھر آپؐ نے فرمایا:ہمسائے تین طرح کے ہوتے ہیں:پہلا ہمسایہ وہ ہے جس کے تم پر تین حق ہیں:اسلام کا حق،ہمسائیگی کا حق اور رشتے داری کا حق،دوسرا ہمسایہ وہ ہے جس کے دو حق ہیں:اسلام کا حق اور ہمسائیگی کا حق اور تیسرا ہمسایہ وہ ہے جس کا ایک حق ہےاور وہ ہے ہمسائیگی اور یہ کافر کا حق ہے۔
(۳)’’ وقالوا لرسول اللهﷺ: فلانة تصوم النهار وتقوم الليل وتتصدق، وتؤذي جارها بلسانها، قال: ” لا خير فيها، هي من أهل النار ” قالوا وفلانة تصلي المكتوبة وتصوم شهر رمضان ولا تؤذي جارها، فقال رسول الله ﷺ: ” هي من أهل الجنة‘‘
رسول کریمﷺ کی خدمت میں بیان کیا گیا کہ فلاں عورت دن کو روزے رکھتی اور رات کو نفلیں پڑھتی ہے اور خوب صدقہ خیرات کرتی ہے مگر اپنے ہمسائے کو زبان سے اذیت دیتی ہے تو آپؐ نے فرمایا:اس میں کوئی بھلائی نہیں،وہ دوزخی ہے،پھر کہا گیا کہ فلاں عورت صرف فرض نماز پڑھتی ہے اور صرف رمضان کے روزے رکھتی ہے مگر وہ اپنے ہمسایوں کو اذیت نہیں پہنچاتی تو آپ ؐنے فرمایا:وہ اہل جنت میں سے ہے۔
(۴)’’قَالَ الإمامُ محمد بن علي الباقر ؑ :
” صَانِعِ المُنَافِقَ بلِسانِكَ وَ أخْلِصْ مَوَدَّتكَ لِلْمُؤْمِن ، وَ إنْ جَالَسَكَ يَهُودِيٌ فَأحْسِنْ مُجَالَسَتَهُ ‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
منافق کے ساتھ اچھی زبان سے پیش آئو اور ایمانی بھائی کے لیے اپنی محبت کو خالص رکھو اور اگر کبھی یہودی تمہارا ہم نشین ہو تو اس سے بھی نیک سلوک کرو۔
(۵)’’عن الصادق عليه السلام فی رسالتہ الی النجاشی:
وَ اعْلَمْ أَنِّی سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ عَنْ آبَائِهِ عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ع أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ یَقُولُ لِأَصْحَابِهِ یَوْماً مَا آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ مَنْ بَاتَ شَبْعَانَ وَ جَارُهُ جَائِعٌ فَقُلْنَا هَلَكْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ مِنْ فَضْلِ طَعَامِكُمْ وَ مِنْ فَضْلِ تَمْرِكُمْ وَ رِزْقِكُمْ وَ خَلَقِكُمْ وَ خِرَقِكُمْ تُطْفِئُونَ بِهَا غَضَبَ الرَّبِّ‘‘
امام جعفرصادقؑ نے نجاشی کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا:
جان رکھو کہ میں نے اپنے آبائے طاہرین اور انہوں نے امیرالمومنینؑ سے سنا اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا کہ ایک روز رسول خداﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: اس شخص کا اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں جو رات کو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا ہو،یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کی:یارسول اللہ ؐ! پھر تو ہم ہلاک ہوگئے۔
آپؐ نے فرمایا:اپنی زائد غذا،اپنی بچی ہوئی کھجور،کچھ نقدی یا اپنے پرانے اور پیوند لگے لباس سے بھی (ہمسائے کی مدد کر کے) تم خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرسکتے ہو۔
(۶)’’عن المفضل بن عمر قال : دخلت على أبي عبدالله ؑفقال لي : من صحبك ؟
فقلت له : رجل من إخواني ، قال : فما فعل ؟ قلت : منذ دخلت لم أعرف مكانه ، فقال لي : أما علمت أن من صحب مؤمنا أربعين خطوة سأله الله عنه يوم القيامة‘‘
مفضل بن عمر جعفی کہتے ہیں کہ میں امام جعفرصادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ نے پوچھا:تمہارا ہم سفر کون تھا؟میں نے کہا:ایک برادر مومن تھا،آپ ؑنے فرمایا: پھر وہ کہاں گیا؟میں نے کہا:جب میں یہاں آیتا تو میں نے اس کا پتا نہیں پوچھا، آپ ؑ نے فرمایا:تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو کسی مومن کے ساتھ چالیس قدم ہمسفر رہے تو قیامت کے دن اللہ اس سے مصاحبت کے متعلق ضرور سوال کرے گا۔

(حوالہ جات)
(وسائل الشیعہ ج۱۲،ص۱۲۷)
(مستدرک الوسائل،ج۸ص۴۲۴)
(من لا یحضرہ الفقیہ ج۴،ص۴۰۴)
(شہید،کشف الریبہ ص۸۹)
(وسائل الشیعہ ج۱۲،ص۱۲)

Related Articles

Back to top button