مشکل میں سہارا
محمد بن عجلان بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ سخت تنگدستی نے مجھے آگھیرا اور میری غربت دیکھ کر میرے سارے دوست مجھے چھوڑ گئے،اس کے ساتھ میں قرضے کے بوجھ تلے بھی دبا ہوا تھا اور قرض خواہ مجھ سے قرض ادا کرنے کا تقاضہ کرتے تھے،اس وقت مدینے کا حاکم حسن بن زید تھا جسے میری پرانی شناسائی تھی،میں نے سوچا کہ اس مشکل گھڑی میں میں کیوں نہ اس سے مدد مانگوں،یہ سوچ کر میں گھر سے نکلا ،راستے میں امام سجادؑ کے پوتے محمد بن عبداللہ سے ملاقات ہوئی اور وہ بھی میری حالت سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا:کہاں جارہے ہو؟میں نے بتایا کہ حاکم مدینہ سے مالی مدد کی درخواست کرنے جا رہاہوں شاید وہ میری کچھ مدد کردے۔
انہوں نے کہا:اگر ایسا ہی ہے تو یاد رکھو تمہیں اس سے کچھ نہ ملے گا،تم اس سے مدد مانگنے کی بجائے اللہ سے مدد مانگو،وہی تمہاری حاجت پوری کرسکتا ہے،وہی سب کا رازق ہے،میں نے اپنے ابن عم امام جعفرصادقؑ سے رسول خداﷺ کی حدیث سنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کو یہ وحی فرمائی:
’’ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي وَ مَجْدِي وَ ارْتِفَاعِي عَلَى عَرْشِي لَأَقْطَعَنَّ أَمَلَ كُلِّ مُؤَمِّلٍ (مِنَ النَّاسِ) غَيْرِي بِالْيَأْسِ، وَ لَأَكْسُوَنَّهُ ثَوْبَ الْمَذَلَّةِ عِنْدَ النَّاسِ، وَ لَأُنَحِّيَنَّهُ مِنْ قُرْبِي، وَ لَأُبَعِّدَنَّهُ مِنْ فَضْلِي! أَ يُؤَمِّلُ غَيْرِي فِي الشَّدَائِدِ وَ الشَّدَائِدُ بِيَدِي؟ وَ يَرْجُو غَيْرِي وَ يَقْرَعُ بِالْفِكْرِ بَابَ غَيْرِي وَ بِيَدِي مَفَاتِيحُ الْأَبْوَابِ، وَ هِيَ مُغْلَقَةٌ وَ بَابِي مَفْتُوحٌ لِمَنْ دَعَانِي! فَمَنْ ذَا الَّذِي أَمَّلَنِي لِنَوَائِبِهِ فَقَطَعْتُهُ دُونَهَا، وَ مَنْ ذَا الَّذِي رَجَانِي لِعَظِيمَةٍ فَقَطَعْتُ رَجَاءَهُ مِنِّي؟ جَعَلْتُ آمَالَ عِبَادِي عِنْدِي مَحْفُوظَةً فَلَمْ يَرْضَوْا بِحِفْظِي، وَ مَلَأْتُ سَمَاوَاتِي مِمَّنْ لَا يَمَلُّ مِنْ تَسْبِيحِي وَ أَمَرْتُهُمْ أَنْ لَايُغْلِقُوا الْأَبْوَابَ بَيْنِي وَ بَيْنَ عِبَادِي فَلَمْ يَثِقُوا بِقَوْلِي! أَ لَمْ يَعْلَمْ(أَنَ)مَنْ طَرَقَتْهُ نَائِبَةٌ مِنْ نَوَائِبِي أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ كَشْفَهَا أَحَدٌ غَيْرِي إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِي، فَمَا لِي أَرَاهُ لَاهِياً عَنِّي؟! أَعْطَيْتُهُ بِجُودِي مَا لَمْ يَسْأَلْنِي، ثُمَّ انْتَزَعْتُهُ عَنْهُ فَلَمْ يَسْأَلْنِي رَدَّهُ، وَ سَأَلَ غَيْرِي! أَفَيَرَانِي أَبْدَأُ بِالْعَطَاءِ قَبْلَ الْمَسْأَلَةِ ثُمَّ أُسْأَلُ فَلَا أُجِيبُ سَائِلِي؟ أَ بَخِيلٌ أَنَا فَيُبَخِّلُنِي عَبْدِي، أَوَ لَيْسَ الْجُودُ وَ الْكَرَمُ لِي، أَوَ لَيْسَ الْعَفْوُ وَ الرَّحْمَةُ بِيَدِي، أَوَ لَيْسَ أَنَا مَحَلَّ الْآمَالِ فَمَنْ يَقْطَعُهَا دُونِي، أَفَلَا يَخْشَى الْمُؤَمِّلُونَ أَنْ يُؤَمِّلُوا غَيْرِي؟ فَلَوْ أَنَّ أَهْلَ سَمَاوَاتِي وَ أَهْلَ أَرْضِي أَمَّلُوا جَمِيعاً ثُمَّ أَعْطَيْتُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِثْلَ مَا أَمَّلَ الْجَمِيعُ مَا انْتَقَصَ مِنْ مُلْكِي مِثْلَ عُضْوِ ذَرَّةٍ، وَ كَيْفَ يَنْقُصُ مُلْكٌ أَنَا قَيِّمُهُ؟! فَيَا بُؤْساً لِلْقَانِطِينَ مِنْ رَحْمَتِي وَ يَا بُؤْساً لِمَنْ عَصَانِي وَ لَمْ يُرَاقِبْنِي‘‘
’’مجھے اپنی عزت و جلال،اپنی عظمت اور اپنے عرش پر اپنے علوشان کی قسم!جو مجھے چھوڑ کر کسی اور سے لو لگائے گا میں اسے مایوس کروں گا اور لوگوں کے درمیان اسے ذلت کا لباس پہنائوں گا اور اسے اپنے قرب اور اپنے فضل و کرم سے دور رکھوں گا،کیا میرا بندہ مشکلات میں مجھے چھوڑ کر دوسروں سے امید رکھتا ہے جبکہ مشکلات سے نجات میرے ہاتھ میں ہے،کیا وہ میرے علاوہ کسی اور سے دل لگاتا ہے اور اپنے غم دور کرنے کے لیے میرے غیر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جبکہ تمام بند دروازوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں ہیں اور میرا دروازہ ہر پکارنے والے کے لیے ہر وقت کھلا ہوا ہے پس وہ کون ہے (جو یہ خیال کرتا ہے کہ)اس نے اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے مجھ سے آرزو کی تو میں نے اس کی آرزو توڑ دی اور وہ کون ہے جس نے اپنے کسی عظیم کام کے لیے مجھ سے پکی امید رکھی تو میں نے خود سے اس کی امید قطع کردی(ایسا نہیں ہے)کیونکہ میں نے تو اپنے بندوں کی امیدیں اور آرزوئیں اپنے پاس محفوظ اور جمع کر چھوڑی ہیں تو کیا وہ ان کو میرے پاس محفوظ و جمع کرنے سے خوش و راضی نہیں ہیں؟اور میںنے آسمانوں کو ایسی مخلوق سے بھر دیا ہے جو میری تسبیح سے سیر نہیں ہوتی اور میں نے اسے حکم دے رکھا ہے کہ میرے اور میرے بندوں کے درمیان دروازوں کو بند نہ کرے تو انہوں نے میری بات پر یقین نہیں کیا،تو کیا مصیبتوں میں گرفتار ہونے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ میرے علاوہ میرے اذن کے بغیر انہیں اور کوئی نجات نہیں دے سکتا؟
آخر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ مجھ سے منہ موڑتے ہیں جبکہ میں اپنی بخشش مانگے بغیر انہیں عطا کرتا ہوں،پھر اگر میں کبھی اپنی بخشش اس سے چھین لیتا ہوںتو اس کو لوٹا نے کا مجھ سے سوال نہیں کرتا بلکہ میرے غیر سے سوال کرتا ہے،کیا وہ دیکھتا نہیں کہ جب میں بغیر مانگے عطا کرتا ہوں تو جب مانگا جائےگا تو کیا میں اپنے سائل کو عطا نہیں کروں گا؟کیا میں بخیل ہوں کہ میرا بندہ مجھ پر بخیلی کا الزام لگاتا ہے،کیا بخشش و عطا کرنا میرے لیے خاص نہیں ہے؟کیا عفو و رحمت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟کیا میں امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز نہیں ہوں؟تو انہیں میرے سوا کون قطع کرتا ہے؟پھر کیا وجہ ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے غیر سے امیدیں جوڑنے والے ڈرتے نہیں!! اگر آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات مجھ سے مانگیں اور میں ہر ہر سائل کو اتنا اتنا عطا کروں جتنا تمام مخلوقات نے مل کر مانگا ہے،تب بھی ذرہ سے ذرہ برابر بھی میرے خزانے میں کمی نہ ہوگی اور وہ خزانہ کم کیسے ہوسکتا ہے جس کا نگہبان میں خود ہوں؟
بد بختی ہے ان کی جو میری رحمت سے ناامید ہوتے ہیں اور بدبختی ہے اس شخص کی جو میری نافرمانی کرتا ہے اور میرا لحاظ نہیں کرتا‘‘۔
محمد بن عجلان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اے فرزند رسولؐ!یہ حدیث آپ مجھے دوبارہ سنائیں،انہوں نے وہ حدیث مجھے تین مرتبہ سنائی تو میں نے کہا:خدا کی قسم!میں اب کسی کے دروازے پر نہیں جائوں گا اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کروں گا۔
چند دنوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے میرے حالات بدل دئیے اور مجھے تنگدستی سے نجات عطا فرمائی اور میرے تمام قرض ادا ہوگئے۔
(حوالہ)
(بحارالانوار ج۱۵،ص۱۹۰)