حکایات و روایاتکتب اسلامی

اولوالعزم نبی،استاد کی تلاش میں

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ پر اپنی بہت سی نوازشات فرمائیں،انہیں شرف کلیم اللہ بخشا،تورات دی،عصا اور یدبیضا کے معجزے عطافرمائے،ان کو لشکر سمیت بحر احمر  سے گزارا اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت غرق کیا۔
مسلسل نوازشات کی وجہ سے ایک دن حضرت موسیٰؑ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید مجھ سے بڑا صاحب علم اللہ نے کوئی پیدا نہیں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؑ کو حکم دیا:اس سے پہلے کہ موسیٰؑ خود پسندی کی وجہ سے ہلاک ہوں،جا کر ان کی مدد کرو اور ان سے کہو جہاں دو سمندر ملتے ہیں اس جگہ جائو،وہاں تمہیں ایک بندہ ملے گا جسے ہم نے علم لدنی عطا کیا ہے،تم جا کر اس سے علم حاصل کرو۔
حضرت جبرئیلؑ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا،حضرت موسیٰؑ فوراً متوجہ ہوگئے کہ یہ سب کچھ اس خود پسندی کی وجہ سے ہے جو کچھ ہی دیر پہلے میرے اند ر پیدا ہوئی تھی۔
حضرت موسیٰؑ جناب پوشع بن نونؑ کو ساتھ لے کر اس بندہ خدا کی تلاش میں نکلے،آخر کار دو سمندروں کے ملنے کی جگہ ان سے ملاقات ہوئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘موسیٰؑ نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو وہاں پایا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت دی تھی اور جسے ہم نے اپنی جانب سے علم سکھایا تھا۔ حضرت موسیٰؑ نے حضرت خضرؑ سے کہا:کیا آپؑ مجھے تعلیم دیں گے؟
حضرت خضر ؑنے فرمایا:’’ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا‘‘آپ ؑمیرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

کیونکہ مجھے ان باتوں کا بھی علم ہے جنہیں تم برداشت نہیں کرسکتے اور اللہ نے تمہارے ذمے جو کام لگایا ہے میرے اندر اس میں مداخلت کی قوت نہیں ہے۔
حضرت موسیٰؑ نے کہا:میں صبر کروں گا۔
حضرت خضرؑ نے فرمایا:خدا کے کاموں میں قیاس نہیں ہوسکتا۔ ’’وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰي مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا‘‘جس چیز کا تم احاطہ علمی نہیں رکھتے تم اس پر صبر کیسے کرو گے؟ حضرت موسیٰؑ نے کہا:انشاءاللہ آپ ؑمجھے صابر پائیں گے اور میں کسی کام میں آپؑ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ حضرت خضرؑ نے انشاء اللہ کہنے کی وجہ سے انہیں اپنا شاگرد بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا اور فرمایا:میری شرط تعلیم یہ ہے کہ تم میری کسی بات پر اعتراض نہیں کرو گے یہاں تک میں خود تمہیں اس کا سبب بتائوں،’’ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِيْ فَلَا تَسْــــَٔـلْنِيْ عَنْ شَيْءٍ حَتّٰٓي اُحْدِثَ لَكَ مِنْہُ ذِكْرًا‘‘ حضرت موسیٰؑ نے حضرت خضرؑ کی شرط قبول کرلی۔
چنانچہ دونوں کشتی میں سوار ہوگئے،جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو حضرت خضرؑ نے کشتی میں سوراخ کردیا۔
حضرت موسیٰؑ کو حضرت خضرؑ سے اس کام کی توقع نہ تھی اس لیے ناراض ہو کر کہنے لگے:’’اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہْلَہَا،ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا اِمْرًا‘‘آپ ؑنے سوراخ کردیا تاکہ کشتی سوار ڈوب ہو جائیں ،بے شک آپ ؑنے یہ عجیب کام کیا ہے۔ حضرت خضرؑ نے کہا:کیا میں نے پہلے ہی نہ کہہ دیا تھا کہ آپؑ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟ حضرت موسیٰؑ نے معذرت کی،پھر کشتی سے اتر کر دونوں جارہے تھے کہ راستے میں حضرت خضرؑ نے ایک کھیلتے بچے کو قتل کردیا۔ حضرت موسیٰؑ صاحب شریعت نبی تھے،انہیں غصہ آیا اور حضرت خضرؑ کا گریبان پکڑ کر فرمایا: ’’ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّۃًۢ بِغَيْرِ نَفْسٍ،لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا نُّكْرًا‘‘آپ ؑنے ایک بے گناہ نا حق قتل کر دیا،یقیناً آپ ؑنے برا کام کیا ہے۔ حضرت خضرؑ نے فرمایا:’’خدائی کاموں کا فیصلہ انسانی عقل سے کرنا مناسب نہیں ہے،اس کے بجائے انسانی عقل کو حکم خدا کے تابع ہونا چاہیے،آپؑ جو کچھ دیکھیں اسے صبر سے برداشت کریں،میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپؑ صبر نہیں کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰؑ نے فرمایا:اگر اب میں کوئی اعتراض کروں تو آپؑ کو مجھ سے جدا ہونے کا اختیار ہوگا۔
چنانچہ دونوں بزرگوار چلتے چلتے ایک بستی میں آپہنچے،انہیں اس وقت شدید بھوک لگی تھی ،انہوں نے بستی والوں سے کچھ کھانے کو مانگا مگر کسی نے انہیں کھانا نہیں کھلایا۔
حضرت خضرؑ نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو ٹیڑھی ہو کر گرنے کے قریب تھی،آپؑ نے حضرت موسیٰؑ کی مدد سے وہ دیوار دوبارہ سیدھی بنا دی۔
حضرت موسیٰؑ نے فرمایا:اگر آپؑ ان سے اجرت لے لیتے تو بہتر ہوتا۔
حضرت خضر ؑنےکہا: ’’ ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ،سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْہِ صَبْرًا‘‘بس اب  میرے اور آپؑ کے درمیان یہ جدائی ہے اور جن چیزوں پر آپؑ صبر نہیں کرسکے میں آپ ؑ کو ان کے متعلق بتاتا ہوں۔ جس کشتی میں میں نے سوراخ کیا تھا وہ چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں کشتی چلا کر اپنی روزی حاصل کرتے تھے،اس علاقے کا بادشاہ تمام کشتیوں پر قبضہ کررہا تھا،میں نے اسے عیب دار بنا دیا،جب وہ کشتی کی یہ حالت دیکھے گا تو اسے نہیں چھینے گا اور کشتی کے مالک اس کی مرمت کر کے اپنا رزق بدستور حاصل کرتے رہیں گے۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا تھا اس بچے کے والدین مومن تھے اور اگر یہ لڑکا زندہ رہتا تو والدین کو بھی کفر میں لے جاتا،اس لیے مجھے خدا کا حکم ہوا کہ میں اسے قتل کردوں تاکہ اس کے والدین ایمان کی سلامتی لے کر دنیا سے رخصت ہوں،اللہ اس کے بدلے انہیں نیک اور پیارا بچہ عنایت فرمائے گا۔ جو دیوار ہم نے مفت بنائی تھی وہ یتیم بچوں کی تھی،اس کے نیچے ان کا خزانہ چھپا ہوا تھا اور ان کا باپ نیک انسان تھا،اگر وہ دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ نکال کر لے جاتے اسی لیے میں نے وہ دیوار سیدھی کردی تاکہ جب بچے جوان ہوں اور اس دیوار کو گرائیں تو انہیں ان کا خزانہ مل جائے۔ یہ تمام کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے تھے لیکن ان پر آپؑ صبر نہیں کرسکے۔
علامہ مجلسیؒ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس واقعے سے تعلیم کے بہت سے پہلو اجاگر ہوتے ہیں:
(۱) شاگرد کو استاد کی پیروی کرنی چاہیے۔
(۲) شاگرد کو علم و دانش کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
(۳) استاد سے کمال ادب اور احترام کے ساتھ تعلیم کی درخواست کرنی چاہیے۔
حضرت موسیٰؑ اولاوالعزم نبی ہونے کے باوجود حضرت خضرؑ کے پاس خود چل کر علم حاصل کرنے گئے تھے۔
(۴)استاد کے سامنے شاگرد یہ نہ کہے کہ وہ اسے اپناتمام علم سکھا دے بلکہ اس طرح عرض کرے جیسا کہ حضرت موسیٰؑ نے عرض کی تھی’’مِمَّا عُلِّمْتَ‘‘جو کچھ اللہ کی طرف سے آپؑ کو علم ہے اس میں سے کچھ مجھے تعلیم دیں۔
(۵)استاد کو شاگرد کی تربیت اور تادیب کرنی چاہیے۔
(۶)تادیب کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ استاد شاگرد سے وعدہ لے اور شاگرد وعدہ کرے۔
(۷)اگر کوئی شاگرد زیادہ حصول علم کی خواہش رکھتا ہو تو اسے استاد کی ہر بات پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور جب تک استاد اسے خود نہ بتائے،جاننے کے لیے اصرار نہ کرے۔
(۸)اگر شاگرد سے کبھی کوئی کوتاہی ہوجائے تو اسے کھلے دل سے معذرت کرلینی چاہیے جیسا کہ سورہ کہف میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے کہا: ’’لا تُؤَاخِذْنِى بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِى مِنْ أَمْرِى عُسْرًا‘‘اس فروگزاشت پر میرا مواخذاہ نہ کریں اور مجھے مشقت میں نہ ڈالیں۔ (ایسے ہی نکات شہید ثانی علیہ الرحمہ نے منیۃالمریدمیں تحریر فرمائے ہیں۔رضوانی)

(حوالہ جات)

(سورہ کہف،آیت ۶۵)

(سورہ کہف:آیت۶۷)

(سورہ کہف:آیت ۶۸)

سورہ کہف:آیت۷۰)

(سورہ کہف: آیت۷۱)

(سورہ کہف:آیت ۷۴)

(سورہ کہف:آیت۷۸)

(بحارالانوار)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button