قرآنی داستان
’’وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ،فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ‘‘تمہیں ان لوگوں کے متعلق بخوبی معلوم ہے جو سنیچر کے دن حد سے تجاوز کر گئے تھے،ہم نے ان سے کہا کہ تم ذلیل بندر بن جائو،ہم نے ان کو اگلوں پچھلوں کے لیے باعث عبرت اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت کا سبب بنا دیا۔ اس آیت کی تفسیر میں امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں کہ اصحاب سبت ایک قوم تھی جو سمندر کے کنارے آباد تھی اور ماہی گیری ان کا پیشہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ہفتہ کے روز شکار کرنے سے منع کیا تھا اور انبیائے کرامؑ نے انہیں بتایا تھا کہ یہ دن تمہارے لیے عبادت اور مچھلیوں کے لیے امانِ خداوندی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا امتحان لیا،ہفتے کے دن مچھلیاں اطمینان سے پانی کی سطح پر آجاتی تھیں اور باقی دنوں میں بڑی مشکل سے قابو آتی تھیں۔
ان لوگوں نے ایک عجیب ترکیب نکالی،ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے یوم سبت کی حرمت بھی پامال نہ ہوگی اور شکار بھی ہاتھ لگ سکتا ہے۔
چنانچہ وہ سمندر سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر اپنے دروازوں تک لے آئے اور دروازوں پر انہوں نے بڑے بڑے حوض بنا لیے،جب ہفتے کا دن ہوتا تو وہ نہروں کے منہ کھول دیتے،مچھلیاں امان خداوندی پر اعتماد کر کے نہروں میں آجاتیں اور حوض میں چلی جاتی تھیں،عصر کے وقت جب مچھلیاں واپس ہونے لگتیں تو وہ نہروں کا منہ بند کردیتے،یوں ہر شخص کے حوض میں بڑی تعداد میں مچھلیاں پھنس جاتیں اور وہ اتوار کے دن مچھلیاں پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے،جب انہیں اس حرکت سے منع کیا گیا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں شکار کرنا حرام ہے تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہم یہ مچھلیاں ہفتے کونہیں پکڑتے ہم تو اتوار کو مچھلیاں پکڑتے ہیں۔
امام زین العابدینؑ نے فرمایا:وہ جھوٹ بولے تھے کیونکہ وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو اپنے حوضوں میں بند کرلیتے تھے اور خدا کے سامنے حیلے بہانے پیش کرنا چاہتے تھے،اس طرح ان کو بڑی تعداد میں مچھلیاں مل جاتی تھیں،مچھلیوں کی فروخت سے انہوں نے بے انتہا دولت کمائی اور دولت کو شراب و شباب میں لٹانے لگے۔
اس شہر کی آبادی اسی ہزار تھی،ان میں سے ستر ہزار لوگ یہی کام کرتے تھے اور دس ہزار لوگوں کو یہ طریقہ پسند نہ تھا اور انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے تھے۔ قرآن مجید میں رب العزت نے ان کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’وَسْأَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِیْ السَّبْتِ‘‘ان سے اس آبادی کے متعلق پوچھئے جو سمندر کے کنارے آباد تھی،جب وہ ہفتے کے دن تجاوز کرتے تھے۔
ان کا ایک گروہ نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا تھا اور انہیں اس حرکت سے روکتا تھا، اس کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی تھا جو عمل میں ان کا شریک تو نہیں تھا مگر وہ انہیں روکتا بھی نہ تھا اور اس’’غیر جانبدار‘‘گروہ کی عجیب بات یہ تھی کہ وہ نہی عن المنکرکرنے والے گروہ کو بھی منع کرتا تھا،قرآن مجید نے اس گروہ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں:’’لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا‘‘تم اس قوم کو نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنا یا سخت عذاب دینا چاہتا ہے۔
نہی عن المنکر کرنے والے ان کو جواب دیتے:ہم اس گروہ پر اتمام حجت کرنا چاہتے ہیں تاکہ اللہ کے سامنے ان کا کوئی عذر باقی نہ رہے اورہمارے اس عمل سے یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس غلط کام میں ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ غلط حرکت سے باز آجائیں۔ لیکن ان لوگوں پر کسی کی نصیحت کارگر نہ ہوئی اور وہ بدستور اپنی ضد پر اڑے رہے۔ جب نصیحت کرنے والوں نے اس قوم کا اجتماعی رویہ دیکھا تو ہجرت کر گئے اور دوسرے شہر میں جا کر بس گئے۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو چند دن کی مہلت دی تاکہ وہ ہفتے کے دن شکار کرنے سے باز آجائیں لیکن وہ باز نہ آئے،آخر کار ایک رات اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور ساری قوم بندروں کی صورت میں مسخ ہوگئی،صبح کے وقت شہر کا دروازہ نہ کھلا تو باہر کے لوگوں کو تشویش ہوئی۔
لوگ شہر کے دروازے پر آئے اور بڑی دیر تک کھٹکھٹاتے رہے لیکن دروازہ نہ کھلا تو انہوں نے شہر پناہ کے ساتھ سیڑھیاں لگائیں اور جا کر دروازہ کھولا۔
جب دروازہ کھلا تو لوگوں نے عجیب دہلا دینے والامنظر دیکھا کہ شہر کے سب لوگ بندر بن چکے ہیں،ان میں ایک بھی انسان نہیں تھا اور بندر اپنے اپنے دروازوں پر بیٹھے ہوئے حسرت اور یاس کی تصویر بنے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ لوگ دروازوں پر بیٹھے ہوئے بندروں سے کہتے:کیا تم فلاں بن فلاں ہو؟تو ان کے آنسو بہنے لگے۔
تین دن تک نافرمان قوم بندروں کی صورت میں زندہ رہی،تین دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے تیز بارش برسائی اور ہوا کا طوفان بھیجا،اس طوفان نے انہیں اٹھا کر سمندر میں غرق کردیا اور یو ں یہ قوم اس صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔
امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں :کوئی بھی مسخ شدہ قوم تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہی،اس وقت جو بند رنظر آتے ہیں یہ پہلے دن سے ہی بندر تھے،مسخ شدہ قوم کی نسل آگے نہیں بڑھی۔ تفسیر برہان میں محمد بن یعقوب سے روایت ہے:’’عَنْ اِبْنِ عبداللہ فِی قَولہِ تعالٰی فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ قَالَ کَانوا ثَلَاَ ثَۃُ اَصنَافٍ صِنفُ اِتتَمَرُوا وَاَمَرُوا وَنَجَوا وَصِنفٌ اِئتَمَرُوا وَلَم یَامُرُوا فَمُسِخُوا وَصِنفٌ لَم یَاتَمِرُوا وَلَم یَامُرُ وفَھَلَکُوا‘‘ امام جعفر صادقؑ نے’’فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ‘‘(جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو برائی سے روکتے تھے)کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ان لوگوں کے تین گروہ تھے: (۱)کچھ ایسے تھے جو خود بھی اچھے کام کرتے اور دوسروں کو بھی اچھے کاموں کا حکم دیتے تھے،انہوں نے نجات پائی۔ (۲)جو خود اچھے تھے مگر دوسروں کو اچھائی کی ترغیب نہیں دیتے تھے اور نہ ہی برائی سے روکتے تھے،یہ لوگ مسخ کردئیے گئے۔ (۳)جو خود برے تھے اور امربالمعروف و نہی عن المنکر بھی نہیں کرتے تھے وہ سب کے سب ہلاک کردئیے گئے۔
(حوالہ جات)
(سورہ بقرہ:آیت ۶۵،۶۶)
(بحارالانوار ج۱۴،ص۵۷)
(تفسیر البربان،ج۲ص۴۲)