جب انسان استقامت کھو دے؟
ایک زمانے میں کوئی عابد کوہ لبنان میں رہا کرتا تھا،اس نے دامن کوہ میں اپنے لیے کٹیا بنائی ہوئی تھی اور دن رات پروردگار کی عبادت میں مصروف رہاکرتا تھا۔
روزانہ مغرب کے وقت ایک روٹی غیب سے اس کی کٹیا میں آتی،وہ اسی سے روزہ کھولتا اور آدھی بچا کر اسی سے سحری کیا کرتا تھا۔
اسی طرح ایک مدت تک اس کے شب و روز بسر ہوتے رہے۔
ایک رات اس کی کٹیا میں روٹی نہ آئی،وہ بے چینی سے غذا کا انتظار کرتا رہا،ساری رات بھوکا رہا،بھوک کی شدت سے دوسرے دن روزہ بھی نہ رکھ سکا اور پہاڑ سے اترا،قریب ہی عیسائیوں کی ایک بستی تھی وہاں پہنچا اور ایک شخص سے روٹی کا سوال کیا۔
اس نے اسے ایک جو کی روٹی لاکردی۔
عابد جو کی روٹی لے کر اپنی کٹیا کی طرف روانہ ہوا،اس شخص کا ایک کمزور اور مریل سا کتا اس عابد کے پیچھے پڑ گیا۔
عابد نے آدھی روٹی کتے کو ڈالی،کتے نے وہ روٹی کھائی اور پھر دوبارہ عابد کے پیچھے بھونکنے لگا۔
عابد نے اپنی جان بچانے کی خاطر باقی آدھی روٹی بھی کتے کو ڈال دی،کتے نے روٹی کا باقی ٹکڑا بھی کھالیا اور پھر عابد پر بھونکنے لگا۔
عابد تنگ آکر کہنے لگا:تو بڑا بے حیا ہے،تیرے مالک نے مجھے صرف ایک روٹی دی تھی،وہ میں نے تجھے کھلا دی،پھر بھی تو مجھے کاٹنے کو دوڑ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کتے کو قوت گویائی عطا کی،اس نے کہا:میں بے حیا نہیں ہوں،اصل بے حیا تو تو ہے،میں ایک عرصے سے اس شخص کے در پر پڑا ہوں،میں اس کے گھر اور مویشیوں کی حفاظت کرتا ہوں،اس کے باوجود وہ کبھی مجھے ایک آدھ روٹی کا ٹکڑا پھینکتا ہے،میں اسی پر قناعت کرلیتا ہوں اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میرے مالک کے پاس کھانے کےلیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا اور مجھے بھوکا رہنا پڑا،میں نے اپنی عادت بنالی ہے کہ مالک کی طرف سے کچھ مل گیا تو کھا لیتا ہوں اور اگر کچھ نہ ملا تو صبر کرتا ہوں مگر اپنے مالک کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے در پر نہیں جاتا اور تیری بے حیائی کی حد یہ ہے کہ ایک رات تیرے مالک نے تجھے روٹی نہیں دی تو تو مالک چھوڑ کر ایک غیر کے در پر چلا آیا۔
اب مجھے بتا کہ بے حیا میں ہوں یا تو؟ یہ سن کر عابد بہت پریشان ہوا اور شرمندگی کی وجہ سے غش کھا کر گر پڑا۔
(حوالہ)
(شیخ بہائی،کشکول جلد اول)