دنیا کے بندے نہ بنو
(۱)’’مَرَّ رَسُولُ اَللَّهِ ص بِجَدْيٍ أَسَكَ مُلْقًى عَلَى مَزْبَلَةٍ مَيْتاً فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ كَمْ يُسَاوِي هَذَا فَقَالُوا لَعَلَّهُ لَوْ كَانَ حَيّاً لَمْ يُسَاوِ دِرْهَماً فَقَالَ اَلنَّبِيُّ ص وَ اَلَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اَللَّهِ مِنْ هَذَا اَلْجَدْيِ عَلَى أَهْلِهِ‘‘
رسول خداﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کوڑے دان پر بکری کا بچہ مرا پڑا تھا جس کا کان بھی کٹا ہوا تھا،آپؐ نے فرمایا:بکری کے اس بچے کی کیا قیمت ہوگی؟صحابہ نے کہا:یا رسول اللہؐ!اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی ایک درہم سے زیادہ کا نہ ہوتا،آپؐ نے فرمایا:مجھے اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ کی نظر میں یہ دنیا بکری کے اس مردار بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔
(۲)’’ سُئِلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) أَيُّ الأعْمَالِ أَفْضَلُ عِنْدَ الله عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ مَا مِنْ عَمَلٍ بَعْدَ مَعْرِفَةِ الله جَلَّ وَعَزَّ وَمَعْرِفَةِ رَسُولِهِﷺ أَفْضَلَ مِنْ بُغْضِ الدُّنْيَا وَإِنَّ لِذَلِكَ لَشُعَباً كَثِيرَةً وَلِلْمَعَاصِي شُعَباً فَأَوَّلُ مَا عُصِيَ الله بِهِ الْكِبْرُ وَهِيَ مَعْصِيَةُ إِبْلِيسَ حِينَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ وَالْحِرْصُ وَهِيَ مَعْصِيَةُ آدَمَ وَحَوَّاءَ حِينَ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا فَكُلا مِنْ حَيْثُ شِئْتُما وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونا مِنَ الظَّالِمِينَ فَأَخَذَا مَا لا حَاجَةَ بِهِمَا إِلَيْهِ فَدَخَلَ ذَلِكَ عَلَى ذُرِّيَّتِهِمَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَذَلِكَ أَنَّ أَكْثَرَ مَا يَطْلُبُ ابْنُ آدَمَ مَا لا حَاجَةَ بِهِ إِلَيْهِ ثُمَّ الْحَسَدُ وَهِيَ مَعْصِيَةُ ابْنِ آدَمَ حَيْثُ حَسَدَ أَخَاهُ فَقَتَلَهُ فَتَشَعَّبَ مِنْ ذَلِكَ حُبُّ النِّسَاءِ وَحُبُّ الدُّنْيَا وَحُبُّ الرِّئَاسَةِ وَحُبُّ الرَّاحَةِ وَحُبُّ الْكَلامِ وَحُبُّ الْعُلُوِّ وَالثَّرْوَةِ فَصِرْنَ سَبْعَ خِصَالٍ فَاجْتَمَعْنَ كُلُّهُنَّ فِي حُبِّ الدُّنْيَا فَقَالَ الأنْبِيَاءُ وَالْعُلَمَاءُ بَعْدَ مَعْرِفَةِ ذَلِكَ حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ وَالدُّنْيَا دُنْيَاءَانِ دُنْيَا بَلاغٍ وَدُنْيَا مَلْعُونَةٍ‘‘
امام زین العابدینؑ سے پوچھا گیا کہ خدا کے نزدیک سب سے افضل عمل کون سا ہے تو آپؑنے فرمایا:
خدااور رسولؐ کی معرفت کے بعد افضل ترین عمل دنیا سے منہ موڑتا ہے،اس کی بہت سی صورتیں ہیں اور گناہوں کی بھی کئی قسمیں ہیں:خدا کی پہلی نافرمانی تکبر کی وجہ سے کی گئی اور یہ ابلیس نے کی تھی،اس نے حضرت آدمؑ کو سجدے کا حکم سن کر انکار کیا،تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا اور حرص آدمؑ اور حوا کی بھول کا سبب ہے کیونکہ خدا نے ان سے کہا تھا: جنت میں جہاں سے چاہو کھائو مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجائو گے مگر آدمؑ اور حوا حرص کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس درخت کے پاس گئے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہ تھی وہ لے لی اور یہی عادت میراث بن کر قیامت تک ان کی نسل میں جاری رہے گی کیونکہ آدم ؑ کی اولاد زیادہ تر وہی چیزیں جمع کرتی ہے جس کی اسے ضرورت نہیں ہوتی،ان کے بعد سب سے بڑا گناہ حسد ہے،حسد کی وجہ قابیل کے گلے میں لعنت کا طوق پڑا کیونکہ حسد کی بنا پر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا،حسد سے یہ برائیاں پیدا ہوتی ہیں:عورتوں سے محبت ،دنیا سے محبت،لیڈری سے محبت،راحت و آرام سے محبت،بسیارگوئی سے محبت،برتری کی محبت اور دولت کی محبت،یہ سات برائیاں ہوگئیں اور مجموعی طور پر ان تمام برائیوں کا سرچشمہ حب دنیا ہے،اسی لیے انبیاءؑ اور علماء نے فرمایا تھا:دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے اور دنیا بھی دو طرح کی ہے:ایک دنیا مطلوب(یعنی جنت تک پہنچنے کا ذریعہ) ہے اور دوسری دنیا(کی محبت ہے یہ)ملعون ہے۔
(۳)’’عَنْ أَبِي عـَبـْدِ اللَّهِ ؑ قـَالَ:
إِنَّ فـِي كِتَابِ عَلِيٍّ ص إِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ مَا أَلْيَنَ مَسَّهَا وَ فِى جَوْفِهَا السَّمُّ النَّاقِعُ يَحْذَرُهَا الرَّجُلُ الْعَاقِلُ وَ يَهْوِى إِلَيْهَا الصَّبِيُّ الْجَاهِلُ‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
’’کتاب علیؑ ‘‘میں لکھا ہے کہ دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو دیکھنے میں بہت نرم ہو
اور خوش رنگ ہےلیکن اس کے اندر زہربھرا ہوا ہے،عقل مند اس سے ڈرتا ہے اور نادان بچہ اس کی طرف لپکتا ہے۔
(۴)’’عَنْ امام الصادق ؑ قـَالَ:
مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ مَاءِ الْبَحْرِ كُلَّمَا شَرِبَ مِنْهُ الْعَطْشَانُ ازْدَادَ عَطَشاً حَتَّى يَقْتُلَهُ‘‘
امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے:
دنیا کی مثال سمندر کے پانی جیسی ہے،جب کوئی پیاسا اسے پیتا ہے تو اس کی پیاس مزید بڑھ جاتی ہے اور وہ پانی اسے مار ڈالے گا۔
(۵)’’ عَنْ حَمَّادِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ:
مَا ذِئْبَانِ ضَارِيَانِ فِى غَنَمٍ قَدْ فَارَقَهَا رِعَاؤُهَا أَحَدُهُمَا فِى أَوَّلِهَا وَ الْآخَرُ فِى آخِرِهَا بِأَفْسَدَ فِيهَا مِنْ حُبِّ الْمَالِ وَ الشَّرَفِ فِى دِينِ الْمُسْلِمِ‘‘
حمادبن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفرصادقؑ کو فرماتے سنا:
اگر بکریوں کا چرواہا نہ ہو اور دو بھیڑیے ان کے ریوڑ پر حملہ کردیں،ایک بھیڑیا آگے سے اور ایک بھیڑیا پیچھے سے تو وہ دونوں بھیڑیے اس ریوڑ کا اتنا نقصان نہیں کریں گے جتنا کہ مال اور منصب کی محبت مسلمان کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔
(حوالہ جات)
(کافی ج۲،ص۱۲۹)
(کافی ج۲،ص۱۳۰)
(کافی ج۲،ص۱۳۶)
(کافی ج۲،ص۱۳۶)