لوگوں سے درگزر کرو
کتاب نورالعیون میں تفسیر کاشفی سے نقل ہوا ہے کہ ایک نیک آدمی کسی آدمی کا بیس ہزار درہم کا مقروض تھا،قرض ادا کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا،ایک دن قرض خواہ نے بڑی سختی سے پیسوں کا مطالبہ کیا اور اسے اتنا ذلیل کیا کہ مقروض رو پڑا،وہ بے چارہ روتے ہوئے اپنے گھر واپس جارہا تھا کہ اس کے ایک یہودی ہمسائے نے اسے دیکھ لیا اور اپنے پاس بلا کر رونے کا سبب پوچھا۔
مقروض نے اپنے قرض کا حال سنایا اور قرض خواہ کی سختی بیان کی۔
یہودی کو اس پر رحم آگیا اور کہا کہ اگرچہ ہمارا دین الگ ہے مگر ہم دونوں انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور تم میرے اچھے پڑوسی بھی ہو،تم مجھے سے بیس ہزار درہم لے کر اپنا قرض چکا آئو۔
مقروض نے یہودی سے بیس ہزار درہم لیے اور قرض خواہ کے پاس پہنچ گیا اور کہا:یہ لواپنی رقم۔
قرض خوا ہ نے حیرت سے کہا کہ کچھ دیر پہلے تک تو تمہارے پاس کچھ نہ تھا اب اتنی بڑی رقم کہا ں سے آگئی؟
مقروض نے بتایا کہ میں تمہارے مطالبہ کی سختی کی وجہ سے روتا ہوا جارہاتھا کہ ایک یہودی ہمسائے نے بلا کر مجھے یہ رقم دی ہے اور میں وہی رقم تمہارے پاس لایا ہوں۔
قرض خواہ نے کہا:میں یہودی سے زیادہ گیا گزرا تو نہیں ہوں،رقم یہودی کو واپس کردو،سنو !میں نے تمہیں اپنا قرض معاف کیا،اس کے ساتھ معافی کی تحریر بھی لکھ دی۔ رات ہوئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ قیامت آچکی ہے ،کچھ لوگوں کے نامہ اعمال دائیں اورکچھ لوگوں کے بائیں ہاتھ میں دئیے گئے ہیں ،اتنے میں فرشتوں نے اسے اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں پکڑایا اور اسے خدا کا حکم سنایا گیا کہ تم حساب و کتاب کے بغیر جنت میں چلے جائو۔
اس نے پوچھا:یا اللہ!آخر کیا وجہ ہے کہ تو نے مجھ سے حساب تک نہیں لیا؟آواز قدرت آئی:جب تو نے ہمارے بندے کا حساب نہیں کیا تو ہمیں تیرے حساب کی کیا ضرورت ہے۔
(حوالہ)
(محدث نوری،دارالسلام،ج۲ص۱۹۵)