عفوو درگزر
(۱)’’ قال رسول الله ﷺ :
إذا كان يوم القيامة ينادي مناد يسمع آخرهم كما يسمع أولهم فيقول : أين أهل الفضل ؟ فيقوم عنق من الناس فيستقبلهم الملائكة فيقولون : ما فضلكم هذا الذي نوديتم به ؟ فيقولون : كنا يجهل علينا في الدنيا فنحمل ويساء إلينا فنعفو ، فينادي مناد من الله تعالى : صدق عبادي خلوا سبيلهم ليدخلوا الجنة بغير حساب‘‘
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا جسے شروع سے آخر تک سب اہل محشر سنیں گے، ندا کرنے والاکہے گا:فضیلت والے کہاں ہیں؟یہ اعلان سن کر اہل محشر سے ایک جماعت کھڑی ہوگی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور ان سے پوچھیں گے :تمہاری وہ فضیلت کیا تھی جس کی وجہ سے تمہیں یہ امتیاز حاصل ہوا؟ وہ کہیں گے کہ بعض اوقات نادانی کی وجہ سے لوگ ہماری توہین کرتے تھے تو ہم برداشت کرتے تھے اور کبھی ہم سے برا سلوک ہوتا تو ہم معاف کردیتے تھے،اس وقت خدا کیطرف سے ایک منادی ندا کرےگا:(فرشتو!)میرے یہ بندے سچ کہتے ہیں،ان کا راستہ چھوڑ دو تاکہ حساب کے بغیر یہ جنت میں داخل ہوجائیں۔
(۲)’’عن أَمير المؤمنين عليه السلام أَنه قال:
إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْه‘‘
حضرت علیؑ نے فرمایا:
جب تم اپنے دشمن پر غالب آجائو تو اس کامیابی کے شکریہ میں اسے معاف کردو۔
(۳)’’عن الإمام الصادقؑ أنه قال لعبد الله ابْنَ جُنْدَبٍ:
يَا اِبْنَ جُنْدَب، صِلْ مَنْ قَطَعَكَ وَ اعْطِ مَنْ حَرَمَكَ و اَحْسِنْ اِلى مَنْ اَساءَ اِلَيْكَ و سَلِّمْ على مَن سَبَّكَ و اَنْصِفْ مَن خاصَمَكَ وَ اعْفُ عَمّنْ ظَلَمَكَ كما اَنَّكَ تُحِبُّ اَنْ يُعفى عَنْكَ‘‘
امام جعفرصادقؑ نے عبداللہ بن جندب سے فرمایا:
جندب کے بیٹے!جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس سے صلہ رحمی کر اور جو تجھے محروم رکھے تواسے عطا کر اور جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور جو تجھے ناسزا کہے تو اسے سلام کر اور اگر کوئی تجھ سے جھگڑا کرے تو تو اس سے درگزر کر اور جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے
معاف کر جیسا کہ تو چاہتا ہے خدا تجھے معاف کرے۔
(۴)’’عن الإمام الصادقؑ قال:
العفو عند القدرة، من سنن المرسلين، وأسرار المتقين، وتفسير العفو: أن لا تلزم صاحبك فيما أجرم ظاهرا، وتنسى من الاصل ما أصبت منه باطنا، وتزيد على الاحسان إحسانا، ولن يجد إلى ذلك سبيلا إلا من قد عفا الله عنه، وغفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وزينه بكرامته، والبسه من نور بهائه، لان العفو والغفران صفة من صفات الله تعالى أودعهما في أسرار اصفيائه، ليتخلقوا مع الخلق بأخلاق خالقهم وجاعلهم، لذلك قال الله عز وجل: (وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم)ومن لا يعفو عبشر مثله، كيف يرجو عفو ملك جبار‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
طاقت رکھتے ہوئے معاف کرنا انبیاءؑ کی سنت اور متقین کی نشانیوں میں سے ہے اور عفودرگزرکا مطلب یہ ہے کہ مجرم کے جرم کا ذکر نہ کرے بلکہ دل میں بھی اس کی غلطی کو بھلا دےاور پھر جرم کرنے والے پر مزید احسان کرے اور اپنی نیکی میں اضافہ کرے اور ایسا کرنا صرف انہی کیلئے ممکن ہے جن کے اگلے پچھلے گناہ خدا نے معاف کردئیے ہوںاور جنہیں خدا نے اپنے نور کرامت سے آراستہ اور اپنے جلال کی ضیائوں سے پیراستہ کیا ہو،یاد رکھو!عفو درگزر خدائی صفات ہیں،خدا نے اپنی مخلوق میں سے بعض افراد کو ان صفات سے متصف کیا ہے تاکہ وہ مخلوق میں رہ کر ان صفات اور ان صفات کو بنانے والے خالق کا عکس قرار پائیں،قرآن مجید میں ہے:معاف کرو اور چشم پوشی کرو کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہیں معاف کردے اور وہ بخشنے والامہربان ہے،جو شخص اپنے جیسے ایک انسان کو معاف نہیں کرسکتا وہ خداوند جبار سے معافی کی امید کیسے کر سکتا ہے؟
(حوالہ جات)
(وسائل الشیعہ ج۱۲،ص۱۷۱)
(وسائل الشیعہ ج۱۲،ص۱۷)
(مستدرک الوسائل ج۹،ص۱۱)
(مستدرک الوسائل ج۹،ص۵)